Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدائے رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے الجھتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے رخصت ہوجاتے ہیں
آگے کا مضمون … آیات 77-63 خاتمہ سورة آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کے اوصاف گنائے ہیں جن کی عقل و دل کی صلاحیتیں زندہ ہیں اور وہ اس کی نشانیوں اور اس کی نازل کی ہوئی کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ تصویر ان لوگوں کی ہے جو آگے بڑھ کر قرآن پر ایمان لانے والے بنے اور اسی تصویر سے ان لوگوں کا ظاہر و باطن بھی بالکل بےنقاب ہوگیا ہے جو قرآن اور پیغمبر ﷺ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ ھون اور سلم کا مفہوم ھون کے معنی خاکساری اور فروتنی کے ہیں اور سلام جس طرح خیر مقدم کے مواقع کے لئے ہے اسی طرح ان مواقع کے لئے بھی ہے جب کسی سے خوبصورتی اور شائستگی کے ساتھ علیحدہ ہونا اور اس سے پیچھا چھڑانا مقصود ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے آزر سے علیدہ ہوتے وقت جو سلام کیا وہ اسی طرح کا سلام تھا۔ عباواشیان کے بعد عباد الرحمٰن کا بیان اوپر کی آیات میں ان متمردین کا ذکر گزر چکا ہے جو کہ کبرو غرور کے نشہ میں نہ کسی بات کو سننے کے لئے تیار تھے نہ سمجھنے کے لئے یہاں تک کہ ان کے لئے خدا محبوب نام رحمان بھی ایک چڑ بن کر رہ گیا تھا وہ اس کے سننے کے بعد روا دار نہ تھے۔ اب ان کے مقابل میں یہ عباد الرحمان کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جس سے مقصود ایک طرف تو متمر دین قریش کے سامنے ایک ایسا آئینہ رکھ دینا ہے جو ان کے آگے انسانیت کے اصلی حسن و جمال کو بےنقاب کر دے تاکہ اس طرح ان پر بھی ان کے ظاہری و باطنی عیوب اچھی طرح واضح ہوجائیں اور مسلمانوں پر بھی نہایت عمدہ پیرائے میں واضح ہوجائے کہ خدائے رحمان کے بندوں کو اس دنیا میں کیا روش اختیار کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو کن محاسن سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اشکبار شیطان کی سنت ہے یہاں موقع کلام کے تقاضے سے سب سے پہلے جس صفت کا حالہ دیا ہے وہ فروتنی و خاکساری ہے فرمایا کہ ہمارے یہ بندے زمین میں اکڑتے اور اترانے نہیں بلکہ نہایت واضح کے ساتھ چلتے ہیں یہ چلنے میں خاکساری ان کے باطن کے ایک عکس کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہے۔ اصل مقصود اس حققتی کا اظہار ہے کہ ان کے دلوں پر خدا کی عظمت وکبریائی کی ایسی ہیبت طاری رہتی ہے کہ یہ چیز ان کے ہر اس قدم سے نمایاں ہوتی ہے جو وہ زمین پر رکھتے ہیں۔ انسان کے اندر استکبار ہو تو یوں تو وہ اس کی ہر حرکت سے نمایاں ہوتا ہے لیکن اس کی چال خاص طور پر اس کا مظہر ہوتی ہے اس وجہ سے یہاں خاص طور پر اس کا حوالہ دیا۔ مقصود دراصل جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہی ہے کہ ان کے دل استکبار سے پاک ہیں۔ استکبار کی حقیقت حق کے آگے اکڑنا ہے۔ اگر ایک شخص مہر حق کے آگے، خواہ وہ بڑا ہو چھوٹا، سر تسلیم خم کر دے تو وہ عباد الرحمٰن میں شامل ہے اگرچہ وہ حق کی حمیت و حمایت میں سینہ تان کر اور سر اونچا کر کے چلنے اور اگر وہ حق کے آگے سرکشی کرے تو وہ اولیائے شیطان میں سے ہے اگرچہ وہ اپنی چال میں مصنوعی طور پر کتنی ہی مسکینی پیدا کرلے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ استکبار ابلیس کی سنت ہے اور یہ وہ بس کی گانٹھ ہے جس کے ہوتے آدمی کے اندر کسی نیکی کا نشو و نما پانا ناممکن ہے۔ بدتمیزوں سے الجھنا عباد الرحمٰن کی شان کے خلاف ہے واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلماً مخاطبۃ یہاں الجھنے کے مفہوم میں ہے۔ یعنی جب اس طرح کے اجڈ اور بدتمیز لوگ، جن کی پیغمبر ﷺ پر پھبتیاں اوپر مذکور ہوئی ہیں، ان سے الجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو اپنے تمسخر و استہزاء کا ہدف بناتے ہیں تو وہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہیں، ان سے الجھنے کے بجائے ان کو سلام کر کے رخصت ہو اتے ہیں۔ سلام جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا کسی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ایک شائستہ اور بابرکت طریقہ ہے۔ اس طرح اگر کسی سے علیحدگی اختیار کی جائے تو توقع ہے کہ اس کے اندر خیر کی کوئی رمق ہوگی تو وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کرے گا اور الجھنے الجھانے کے بجائیبات سننے اور سمجھنے کی طرف مائل ہوگا اور اگر کسی کے اندر خیر کی کوئی رمق ہی نہیں ہے اور وہ محض مجادلہ و مناظرہ کے در پے ہے تو ایسے شخص کو منہ لگانا عبادالرحمٰن کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ مضمون سورة قصص کی آیت 55 میں وضاحت سے آئے گا۔
Top