Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
مدح عباد رحمان و ذکر شمائل اہل ایمان و عرفان قال اللہ تعالیٰ وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا۔۔۔ الی۔۔۔ فسوف یکون لزاما۔ (ربط) گزشتہ آیات میں رحمان سے نفرت کرنے والوں کا ذکر تھا، اب آئندہ آیات میں عباد رحمن یعنی رحمان کے خاص بندوں کے اوصاف کا ذکر ہے جس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ رحمن کے بندے رحمن کی رحمتوں اور اس کی نعمتوں کا عملی طور پر کس طرح اور کس صورت میں شکر کرتے ہیں لہٰذا جو شخص رحمن کے آثار رحمت ونعمت کے تشکر کا ارادہ کرے اور رحمن کے آثار قدرت و عجائب صنعت میں تفکر اور تدبر کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ رحمن کے شکر گزار بندوں کے نقش قدم پر ثلے اور اگر بر بنائے غفلت اس سے کوئی معصیت سر زد ہوجائے تو توبہ کرے، رحمن سے نفرت کرے تو خدا کو اس کی کوئی پرواہ نہیں، وہ سب سے غنی اور بےنیاز ہے بارگاہ رحمن میں تقرب اور خصوصیت کا دارومدار محض عبدیت پر ہے۔ (ربط دیگر) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس اللہ سرہ ازالۃ الخفاء میں فرماتے ہیں۔ تمام قرآن میں حق جل شانہ کی یہ سنت جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ جا بجا اہل ہدایت اور اہل ضلالت کو میزان عدل پر رکھ کر تولتے ہیں۔ اور ان کے اوصاف بیان کرتے ہیں ایک فریق کو نمائے جنت کی بشارت سناتے ہیں اور دونوں فریق کے ان اوصاف کا ذکر کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ معروف ومشہور ہوں پس اسی قاعدہ کے مطابق سورة فرقان میں بھی اللہ تعالیٰ نے کفار کے شبہات و اعتراضات اور ان کے جاہلانہ خصائل و عادات کا ذکر کر کے ان کی پاداش کا ذکر کیا بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اپنے عباد مقربین اور ان کی صفات ثابۃ ومشہورہ کا بیان کیا اور وہ صفات یہ ہیں۔ (1) حلم اور تواضع۔ (2) مداومت بر نماز تہجد (3) خوف از عذاب آخرت (4) اعتدال واقتصاد۔ (5) توحید اور اخلاص فی العبادت (6) ترک کشت وخون یعنی فتنہ و فساد سے دور رہنا۔ (7) اجتناب از زنا (8) احتراز از مجالس کذب ودروغ (9) تذکر بوقت استماع وعظ (10) بارگاہ الٰہی میں دعا کرتے رہنا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت جو اہل ایمان حاضر تھے وہ مہاجرین اولین تھے لہٰذا یہ آیت مہاجرین کی فضیلت کے لئے کافی ہے اور بس۔ (ازالۃ الخفاء ) چناچہ فرماتے ہیں اور رحمن کے خاص الخاص بندے وہ ہیں جو ان صفات کے ساتھ موصوف ہیں۔ (1) جو زمین پر آہستگی کے ساتھ چلتے ہیں یعنی بغیر تکبر اور سرکشی کے چلتے ہیں۔ تواضع ان پر ایسی غالب ہے کہ ان کی چال سے تواضع اور عاجزی نظر آتی ہے زمین پر آہستہ آہستہ قدم رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ سست رفتاری سے چلے بلکہ مطلب یہ ہے کہ متکبرانہ چال سے نہ چلے اگرچہ تیز رفتاری سے چلے۔ حضرت عمر ؓ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ بہت آہستہ آہستہ چلتا ہے تو فرمایا کہ اے تو کیا بیمار ہے اس نے عرض کیا اے امیر المومنین نہیں۔ تو آپ ؓ نے اس پر درہ اٹھایا اور حکم دیا کہ قوت سے چلے جیسا کہ آج کل عیش پرستوں کا طریقہ ہے کہ اظہار نزاکت کے لئے آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ (2) اور دوسری صفت ان کی یہ ہے کہ بڑے سلیم الطبع اور حلیم الطبع ہیں۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ جب نادان لوگ ان سے کوئی جہالت اور نادانی کی بات کرتے ہیں جس میں جھگڑے اور فساد کا اندیشہ ہو تو یہ لوگ صاحب سلامت کر کے ان سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی نادان ان کو ناشائشتہ بات کہے تو اس کے جواب میں نرم اور ملائم بات کہہ کے الگ ہوجاتے ہیں۔ ان سے لڑتے نہیں اور ان سے منہ ہی نہیں لگتے تاکہ جھگڑے کی نوبت نہ آئے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی نادان ان سے الجھنا چاہے تو وہ پہلو بچا کر نکل جاتے ہیں۔ (3) اور عباد رحمن کا دن تو اس طرح گزرا اور رات میں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے لئے سجدہ اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔ یعنی نماز میں کبھی کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی سربسجود ہیں۔ کما قال تعالیٰ کانوا قلیلا من الیل ما یھجعون تتجافی جنوبہم عن المضاجع۔ (4) اور ایک صفت ان کی یہ ہے کہ باوجود شب بیداری کے ان پر خوف خداوندی اس قدر غالب ہے کہ وہ یہ دعا مانگتے رہتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم سے عذاب جہنم کو پھیر دیجئے۔ بیشک عذاب جہنم دائم اور لازم ہے اس سے خلاصی ممکن نہیں جس طرح قرضخواہ قرض دار کو چمٹ جاتا ہے اور اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اس طرح دوزخ کا عذاب گناہ گاروں کو چمٹے گا گویا وہ اس کے مقروض ہیں۔ نیز وہ دوزخ بلا شبہ بری قرار گاہ اور بری قیامگاہ ہے جو ہر قسم کی مصیبت اور ہر قسم کی ذلت کا مخزن ہے اس سے برا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ دوزخ گنہگاروں کے لئے چند روزہ قرار گاہ ہے اور کافروں کے لئے دائمی قیام گاہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان عباد رحمن پر خدا کا خوف اس درجہ غالب ہے کہ دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں ان کو نہ اپنے پر وثوق ہے اور نہ ناز ہے۔ ناز کی بجائے غلبہ نیاز کا ہے۔ (5) اور نعمت مال کے استعمال میں عباد الرحمن کی صفت یہ ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو وہ نہ بیجا خرچ کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ اسراف اور بخل کے بین بین ہے۔ اسراف کے معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں حدود شریعت سے تجاوز کرنے کے ہیں کہ جس جگہ شریعت نے خرچ کرنے کی ممانعت کی ہے۔ وہاں خرچ کرنا یہ اسراف ہے مثلاً گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا یا نام ونمود کے لئے خرچ کرنا یہ اسراف ہے اور تنگی اور کمی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مال کے حقوق واجبہ نہ ادا کرے اور شریعت نے ان دونوں باتوں کو یعنی اسراف اور بخل کو ممنوع قرار دیا ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط پسندیدہ امر اعتدال اور توسط ہے مسند احمد میں ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا :۔ من فقہ الرجل قصدہ فی معیشۃ۔ اپنی معیشت میں توسط اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا آدمی کی دانائی ہے۔ اور مسند احمد میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ما عال من اقتصد۔ محتاج نہیں ہوا وہ شخص جس نے خرچ میں اعتدال اور میانہ روی کو ملحوظ رکھا۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے عباد رحمن کی پانچ صفتیں ذکر کیں اور یہ پانچوں صفتیں۔ طاعتیں تھیں جن کو وہ بجا لاتے تھے۔ اب آئندہ آیت میں معاصی کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ لوگ شرک اور معصیت سے بچتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ (6) اور عباد رحمن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے یعنی شرک نہیں کرتے صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ شرک سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں اور توحید اور اخلاص سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔ غیر اللہ کو معبود ٹھہرانا قوت وہمیہ کا اثر ہے۔ اور قتل ناحق قوت غضبیہ کا اثر ہے اور زنا قوت شہویہ کا اثر ہے جیسا کہ آئندہ آیت میں ان دونوں کا ذکر آتا ہے۔ (7) اور عباد رحمن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نہیں مارڈالتے اس جان کو جس کے مارنے کو اللہ نے حرام کیا ہے جیسے مسلمان کی جان یا کافر ذمی کی جان مگر حق کے ساتھ۔ یعنی کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے مگر حق کے مطابق قتل کرتے ہیں۔ حق کے مطابق قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس قتل کی شریعت نے اجازت دی ہو وہ قتل حق ہے، جیسے مرتد کا قتل کرنا اور بطور قصاص کسی کو قتل کرنا اور رہزنوں اور فتنہ پردازوں کو قتل کردینا اور پھانسی دینا اور شادی شدہ زانی کا قتل کرنا اور جہاد میں کافروں کو قتل کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب قتل حق ہیں۔ بحق شرع ان کے قتل کرنے کا حکم ہے یہ قتل معصیت نہیں بلکہ عبادت ہے۔ بلاوجہ شرعی کسی کو مارنا یہ قتل ناحق ہے۔ کہ بےشرع آب خوردن خطا است وگر خوں بتقویٰ بریزی رواست (8) اور عبادرحمن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ زنا نہیں کرتے، کسی کی عورت سے زنا کرنا گناہ کبیرہ ہے اور ہمسایہ کی عورت سے زنا کرنا بدترین گناہ ہے۔ اب آئندہ آیت میں ان افعال قبیحہ کے مرتکب کو سزا کی وعید سناتے ہیں اور توبہ کرنے والوں سے معاف کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے جن کا اوپر ذکر ہوا یعنی شرک کرے یا قتل ناحق کرے یا زنا کرے تو اپنے کئے ہوئے کے وبال کو پاوے گا۔ اور اس کی سزا بھگتنے گا۔ اور اپنے فعل کی سزا پاوے گا۔ قیامت کے دن اس کو دوہرا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلیل ہو کر ہمیشہ اسی عذاب رہے گا۔ قرآن کریم کی دوسری آیتوں میں آیا ہے کہ کفار کے حق میں عذاب ومبدم زیادہ ہوتا رہے گا کما قال تعالیٰ زدناہم عذابا فوق العذاب۔ مگر جس نے کفر اور شرک اور معصیت سے توبہ کی یعنی اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لیے عہد کیا کہ اب آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ اور اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لے آیا اور نیک کام کیے سب سے بڑا نیک کام یہ ہے کہ یہ عزم مصمم کرے کہ تاحیات شریعت پر عمل کروں گا۔ تو ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا دائمی عذاب نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا جب اس نے اپنی برائیوں کو ندامت اور شرم ساری سے بدلا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا اور ان کے عذاب کو ثواب سے بدل دیا۔ قیامت کے دن توبہ کرنے والے کو خدا کے فضل و رحمت سے ہر بدی کے بدلے نیکی ملے گی اور یہ مضمون متعدد احادیث سے ثابت ہے، یا بدل دینے کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عطاء کرے گا اور گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا یا یہ معنی ہیں کہ سچی توبہ کی برکت سے خدا تعالیٰ اس کا مزاج ہی بدل دیگا کہ بجائے گناہوں کے نیکیوں کی طرف دوڑنے لگے گا۔ جو نافرمان غلام جرم کے بعد اپنے کیے پر شرمسار ہو کر آقا کے قوموں پر جاگرے تو ساری ناراضی مبدل برضا و خوشنودی ہوجاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ توبہ حقیقی توبہ ہو۔ سیاسی توبہ نہ ہو کہ محض زبان سے یہ کہے کہ میں اپنے الفاظ کو واپس لیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے جس درجہ کی توبہ اور ندامت ہوگی اسی درجہ کی مغفرت اور رحمت ہوگی۔ ان آیات میں کافر کے گناہوں کا ذکر تھا جو اس نے بحالت کفر کئے اور پھر ایمان لے آیا اب آئندہ حالت اسلام میں گناہوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جو حالت اسلام میں گناہ کر بیٹھے تو جب بھی توبہ کرے گا تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا چناچہ فرماتے ہیں اور جو بھی گناہوں سے توبہ کرے اور نیک کام کرے تو وہ بیشک رجوع ہوتا ہے اللہ کی طرف اچھا رجوع ہونا اور ظاہر ہے جو نور السموات والارض کی طرف رجوع کرے گا تو اس کی ظلمتیں مبدل بانوار ہوجائیں گی۔ گزشتہ آیات میں کافر کی توبہ کا ذکر تھا اور اس آیت میں مومن کی توبہ کا ذکر فرمایا۔ جس سے توبہ کا مضمون مکمل ہوگیا اور عباد رحمن کے اوصاف کا تتمہ ہوگیا کہ یہ خدا کے خاص بندے اگرچہ طاعات کے بجا لانے والے اور معصیت سے بچنے والے ہیں لیکن اگر بمقتضائے بشریت ان سے گناہ سرزدہوجاتا ہے تو توبہ کرلیتے ہیں اب آگے پھر انہی عباد رحمن کے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ (9) اور منجملہ ان کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ یا یہ معنی ہیں کہ وہ کسی بیہودہ اور باطل اور خلاف شرع کام کی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔ جیسے یہود اور نصاریٰ اور کافروں کی عیدوں میں یا ان کے میلوں میں یا ناچ گانے کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے۔ اور نہ کسی نوحہ اور ماتم کی مجلس کے قریب جاتے ہیں یعنی خود گناہ کرنا تو درکنار گناہ کی مجلس میں بھی شامل نہیں ہوتے۔ گناہ کو دیکھنا اور گناہ گاروں کو دیکھنا یہ بھی گناہ ہے جس طرح خلاف قانون کمیٹی میں شرکت ممنوع ہے اسی طرح خلاف شریعت مجلس میں بھی شرکت اور حاضری ممنوع ہے اور اگر اتفاقا بلا قصد کسی لغو اور بیہودہ چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو کریمانہ انداز سے گزر جاتے ہیں تاکہ اس لغو و باطل کا میل کچیل یا اس کا گردو غبار ان کے لباس تقویٰ کو آلودہ نہ کردے۔ ایسی جگہ ٹھہرتے بھی نہیں اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) عنہ لکھتے ہیں کہ یعنی گناہ میں شامل نہیں ہوتے اور کھیل کی باتوں کی طرف دھیان نہیں کرتے نہ اس میں شامل نہ ان سے لڑیں (موضع القرآن) کما قال تعالیٰ واذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ۔ (10) اور وہ بندگان حق وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو ان کے پروردگار کے قرآن کی آیتوں سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے یعنی غورو تدبر کے ساتھ ان کو سنتے ہیں اور ان کو سن کر روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے ہیں اندھے اور بہروں کی طرح نہیں سنتے کہ نہ یاد رکھیں اور نہ سمجھیں۔ برخلاف کافروں کے کہ ان پر آیات الٰہیہ کا کچھ اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے کفر اور طغیان اور سرکشی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کافر تو اندھے اور بہرون کی طرح ہیں کہ گویا کہ انہوں نے آیات الٰہیہ کو نہ کچھ سنا اور نہ کچھ دیکھا اور نہ کچھ سمجھا اور عباد رحمن کا حال یہ ہے کہ آیات الٰہیہ کو خوب غور اور تامل سے سنتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کافروں کی طرح اندھے اور بہرے نہیں بلکہ آیات الٰہیہ کو گوش ہوش سے سنتے ہیں اور چشم بصیرت سے ان کے جلوہ کو دیکھتے ہیں۔ اور بعض علماء نے آیت نے یہ مطلب بیان کیا کہ وہ آیتوں کو سن کر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے یعنی ان کا گرنا بےسمجھے بوجھے نہیں ہوتا بلکہ ان کا سمجھنا اور بوجھنا ان کے گرنے کا باعث ہوا۔ وعظ ونصیحت نے ان کے دل میں جو اثر کیا اس کا منشا یہ تھا کہ انہوں اللہ کی باتوں کو خوب سمجھا مومن کو چاہئے کہ اپنے ہر کام میں بیداری اور بصیرت پر ہو۔ (11) اور عباد رحمن کی ایک صفت یہ ہے کہ جب خود ان کو کمال حاصل ہوگیا تو اپنے متعلقین کی تکمیل کی فکر میں پڑے کہ جو کمالات اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کئے وہ ان کی ذات تک محدود نہ رہیں بلکہ وہ دوسروں تک بھی متعدی ہوں اس لئے وہ عبادرحمن یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیبیوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کو اللہ کی طاعت میں دیکھے اللہ کی طاعت سے بڑھ کر کوئی چیز آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں باقی دنیا کی تمام نعمتیں اور مسرتیں سب اس کے بعد ہیں۔ اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے یعنی ہم کو ایسا کامل متقی اور پرہیزگار بنا دے کہ دوسرے لوگ نیکی اور تقویٰ میں ہماری پیروی کریں تاکہ ہمارا وجود دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنے تاکہ تیری بارگاہ میں ہمارے درجے اور بلند ہوں۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ہم کو اور ہمارے خاندان کو خود بھی ہدایت ہو اور دوسروں کے لئے ہم کو ہادی بنا دے کہ مجھ کو اور میرے خاندان کو دیکھ کر لوگ تقویٰ اور طہارت میں پیروی کریں ہماری ہدایت ہماری ذات تک محدود نہ رہے بلکہ غیروں تک بھی پہنچے تاکہ تیری بارگاہ سے بیش از بیش اجرو انعام حاصل کرسکیں۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں مگر تین چیزوں سے۔ ایک فرزند صالح جو اس کے لئے دعا کرے۔ دوسرے علم کہ جس سے اس کی موت کے بعد نفع اٹھایا جاوے (جیسے تصنیف و تالیف) اور تیسرے صدقہ جاریہ (جیسے وقف اور مسجد اور مدرسہ دینیہ اور کنواں اور مسافر خانہ اور قرآن شریف اور دینی کتابیں) ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ یہاں تک عباد رحمن کے اوصاف کو بیان کیا اب آگے ان کی حسن جزا اور درجات عالیہ کا ذکر فرماتے ہیں جو آخرت میں ان کو عطا ہوں گے۔ چناچہ فرماتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو ارحم الرحمین کے فضل اور رحمت سے بہشت میں رہنے کے لئے بالا خانے عطا کئے جائیں گے بوجہ اس کے کہ وہ اللہ کے دین اور اس کی طاعت پر ثابت قدم رہے اس صبر کے صلہ میں ان کو عالی شان محل اور بالا خانے ملیں گے کہ ان لوگوں نے دنیا میں بڑا صبر کیا۔ طاعات کی مشقتوں پر اور شہوات کے چھوڑنے پر صبرو تحمل سے کام لیا۔ اس صبر کے صلہ میں ان کو جزا ملے گی اور پائیں گے وہ بہشت میں د عا زندگی اور سلامتی کو یعنی جنت میں بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ داخل ہوں گے فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور ان کو دعا دیں گے اور سلام کریں گے۔ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار۔ یعنی فرشتے ان کو مبارکباد دیں گے اور سلام کریں گے : اور ان کو ہوگا ہمیشہ اسی بہشت میں رہیں گے اور بلاشبہ نہایت عمدہ آرام گاہ اور قیامگاہ ہے اے نبی آپ ﷺ ان مشرکوں سے یہ کہہ دیجئے کہ عباد رحمن طاعت اور عبادات اور اعمال صالحہ کے سبب سے ان مراتب اور منازل تک پہنچے۔ میرا پروردگار تمہاری کیا پرواہ کرے گا اگر تم اس کی عبادت نہ کرو اور نہ اس سے دعا اور التجا کرو۔ پس جب تم کو خدا کی پرواہ نہیں تو خدا کو تمہاری کیا پروا ہے خدا سے لاپرواہی تکبر ہے جس پر سزا کا ملنا لازمی ہے۔ پس تم اس رسول کی تکذیب کرچکے ہو پس عنقریب یہ تکذیب تم کو وبال جان بن کر چمٹے گی خواہ اس دنیا میں جیسا کہ بدر وغیرہ میں تم کو اس کی سزا ملے گی یا آخرت میں۔ اور وہ ظاہر ہے اور آخرت کی سزا سے تو کسی طرح چھٹکارا ہی نہ ہوگا ظاہر یہ ہے کہ ” لزام “ سے آخرت کا عذاب مراد ہے اور عبد اللہ بن مسعود ؓ سے یہ منقول ہے کہ لزام سے دنیوی عذاب مراد ہے جیسا کہ بدر کے دن ستر سرداران قریش رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں مارے گئے اور ذلت اور حقارت کے ساتھ بدر کے کنوئیں میں ڈال دئیے گئے۔ الحمد للہ کہ آج بروز سہ شنبہ 14 جمادی الاولیٰ سنہ 1391 ھ بوقت اذان ظہر سورة فرقان کی تفسیر سے فراغت پائی۔ اے اللہ اپنی رحمت سے باقی تفسیر کے لکھنے کی بھی توفیق عطا فرما، آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔ و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد وعلیٰ الہ واصحاب اجمعین۔ وعلینا معھم یا ارحم الراحمین۔
Top