بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
( کوہ) طور کی قسم
1۔ 16۔ طور وہ پہاڑ ہے جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے باتیں کیں۔ کتاب مسطور کے معنی لو محفوظ کشادہ ورق لوح محفوظ کے صفحہ کو فرمایا۔ ہر ایک آسمان پر ہر آسمان کے فرشتوں کی عبادت کا ایک مکان بنا ہوا ہے۔ ساتویں آسمان کے فرشتوں کے عبادت کا مکان جو بنا ہوا ہے اس کا نام بیت المعمور ہے۔ صحیح 1 ؎ بخاری میں ابوہریرہ ؓ سے اور صحیح مسلم 2 ؎ میں انس بن مالک سے معراج کی ذکر کی جو حدیث ہے اس میں بیت المعمور کا بھی ذکر ہے غرض کعبہ کی سیدھ پر یہ مکان ساتویں آسمان پر ہے اور ساتویں آسمان کے فرشتوں کا یہی کعبہ ہے۔ سقف مرفوع کے معنی آسمان۔ اکثر سلف بحر مسجور کی یہی تفسیر کی ہے کہ قیامت کے دن دنیا کے دریا آگ ہوجائیں اور آیت اذا البحار سجرت سے اس تفیرج کی تائید بھی ہوتی ہے۔ اس قسم کے بعد فرمایا کہ جس نافرمانی کی حالت میں یہ لوگ ہیں۔ اسی حالت میں جو لوگ ان میں سے مرجائیں گے تو جس عذاب کا ان لوگوں سے وعدہ ہے وہ ضرور قیامت کے دن اس طرح ان کو بھگتنا پڑے گا کہ اس عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ پھر فرمایا جس دنیا کی زندگی کے بھروسہ پر انسان اس عذاب سے غافل ہے وہ دنیا ہمیشہ رہنے کی چیز نہیں ہے بلکہ آسمان پہاڑ جو آج ایسے مضبوط نظر آتے ہیں پہلا صور شروع ہوتے ہی آسمان پہلے لرزنے لگے گا پھر پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اڑ جائے گا۔ پہاڑ اڑتے پھریں گے پھر فرمایا اس دن حشر کے جھٹلانے والوں اور دین کی باتوں کو کھیل تماشا ٹھہرانے والوں کی بڑی کم بختی ہے کہ دوزخ میں دھکیل کر اللہ کے فرشتے ان سے یہ کہیں گے اب خوب آنکھیں کھول کر اس آگ کو دیکھو جس سے ڈرانے کی نصیحت کو تم جھٹلاتے اور جادو بتاتے تھے۔ اب اس آگ میں تم کو چیخنا چلانا یا اس کی تکلیف پر صبر کرکے بیٹھ رہنا سب برابر ہے اور تم کو جو سزا ملی ہے کچھ بلا سبب نہیں ہے بلکہ دنیا میں جو تم نافرمانی کرتے تھے یہ اس کا خمیازہ ہے۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم میں ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے احکام دین کو مینہ سے اور امت کے لوگوں کو زمین سے تشبیہ دی ہے اور زمین کی تیں قسمیں فرمائی ہیں۔ ایک کھیتی اور باغات کی زمین جس کو مینہ سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ اس میں طرح طرح کے اناج اور میوہ جات پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان اناج کے بیج اور میووں گٹھلیوں سے آگے پیداوار کا سلسلہ چلتا ہے۔ دوسرے وہ نشیب کی زمین جس میں پانی اکٹھا ہو کر چشمے اور تالاب ہوجاتے ہیں اور ان سے آدمیوں اور جانروں کی طرح طرح کا فائدہ پہنچتا ہے تیسرے وہ سخت زمین جس میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں بلکہ اس میں جو مینہ برستا ہے وہ رائیگاں جاتا ہے علماء نے کہا کہ زمین کی پہلی دو قسموں سے امت کے وہ لوگ مقصود ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی ہدایت سے سلسلہ بہ سلسلہ خود بھی نفع دینی حاصل کیا اور لوگوں کو بھی نفع دینی پہنچایا۔ بعضوں نے علم دینی کی تعلیم سے وہ بیج بویا جس کا سلسلہ اناج کے بیج اور میوہ کی گٹھلیوں کی طرح قیامت تک چلے گا۔ بعضوں نے علم دین کی کتابیں تصنیف کرکے ان کتابوں کو ایک چشمہ فیض بنایا۔ تیسرے قسم سے وہ لوگ مقصود ہیں جن کے دنیا میں پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں یہ جان لیا تھا کہ کوئی آسمانی کتاب رسولوں کی نصیحت ان لوگوں کے دل پر اگر نہ کرے گی۔ اور آخر کار اپنی نافرمانی کی سزا میں یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے ان آیتوں میں ان میں سے تیسری قسم کے لوگوں کے انجام کا ذکر ہے اور یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب المعراج ص 548 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ ﷺ ص 91 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب فضل منعلم و علم ص 18 ج 1 و صحیح مسلم باب مثل مابعث بہ النبی ﷺ الخ ص 247 ج 2۔ )
Top