بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
قسم ہے طور کی
ترکیب : الوا والاولیٰ فی والطور للقسم و مابعدھا فی و کتاب الخ للعطف فی رق متعلق بمسطوران عذاب الخ جواب القسم مالہ الخ الجملۃ صفۃ لواقع و یوم ظرف لدافع او لواقع یوم یدعون بدل من یوم تمور۔ افسحر خبر مقدم ھذا مبتدء موخر سواء خبر مبتدء محذوف ای صبر کم و ترکہ سواء ‘ الرق بفتح الراء و کسرھا کل مایکتب فیہ جلد اکان اوغیرہ وجمعہ رقوق والمور الاضطراب و الحرکۃ ولذا یطلق علی الموج الدع الدفع بعنف۔ تفسیر : یہ سورة بھی بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی ہے، جبیر بن مطعم ؓ کہتے ہیں، میں نے نبی ﷺ کو مغرب کی نماز میں یہ سورة پڑھتے سنا (رواہ البخاری مسلم وغیرہ ہما) اس سورة میں یہی مسئلہ حشر کا اثبات ہے اور وہ اثبات اس جگہ اور عنوان کے ساتھ ہے، اس لیے ان پانچ چیزوں کی قسم کھاکر فرماتا ہے۔ ان عذاب ربک کہ بیشک تیرے رب کا عذاب آنے والا ہے، جس کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ اس میں صرف قیامت کے آنے کی ہی خبر نہیں بلکہ منکرین کو ایک یقینی آنے والے عذاب سے تہدید بھی ہے اور وہ پانچ چیزیں جن کی یہاں قسم کھائی، یہ ہیں۔ الطور 1 ؎ اس سے مراد کوہ طور ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام کیا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جس پہاڑ میں درخت ہوتے ہیں اس کو طور کہتے ہیں اور جس میں درخت نہ ہوں اس کو جبل کہتے ہیں، اس قول سے تعمیم پائی جاتی ہے۔ (2) کتاب مسطور بعض کہتے ہیں، اس سے مراد لوح محفوظ ہے مگر قوی تریہ ہے کہ اس سے مراد آسمانی کتابیں ہیں جو اوراق پر لکھی جاتی ہیں، جو کھلے ہوتے ہیں جن کو پڑھنے والا پڑھ سکتا ہے۔ البیت المعمور آباد گھر جس سے مراد خانہ کعبہ اور دیگر معابد ہیں جو عابدین سے آباد ہیں۔ دنیا کے ہوں یا سمٰوات پر ہوں۔ اس لیے احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ کعبہ کے محاذ میں ساتویں آسمان کے اوپر ملائکہ کا ایک عبادت خانہ ہے۔ جہاں ہزاروں ملائکہ طواف کرتے ہیں، اس کو بھی بیت المعمور کہتے ہیں۔ السقف المرفوع آسمان البحر المسحور دریائے شور مسجور کے معنی گرم کے ہیں۔ سمندر تموج کی وجہ سے گرم کہلاتا ہے، جب تموج ہوتا ہے کہتے ہیں ان دنوں دریا گرم ہے۔ ان پانچوں چیزوں کے ذکر سے اپنے عجائبات قدرت اور دینی اور دنیوی برکات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نے دنیا میں استواری کے لیے پہاڑ قائم کئے۔ کتابیں دستور العمل بنائیں، گھر آباد کئے، بلند مکان بنوائے۔ دریائے اشور بنایا جو سب کو محیط ہے اور یہ کہ کوہ طور پر موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام کیا، پھر اس کو کتاب دی اور بندوں کے لیے خانہ کعبہ بنایا اور بیت المقدس قائم کیا جس کی چھتیں بلند تھیں اور پھر ان عبادتوں سے اور اس پہاڑ سے اور ان کتابوں سے علوم و معارف کے پرجوش دریا نکالے جنہوں نے عالم کو سیراب کیا، وہ سب قیامت کے قائل تھے، پھر ان جہلاء کے انکار سے کیا ہوتا ہے ؟ اس کے بعد قیامت کے واقعہ کو بیان کرتا ہے کہ اس روز آسمان لرزیں گے اور پہاڑ اڑیں گے، اس روز اس دن کے جھٹلا نے والوں کو بڑی خرابی ہوگی جو آج غفلت میں پڑے نکتہ چینیاں کرتے ہیں، وہ خرابی یہ ہوگی کہ وہ دوزخ کی طرف دھکے دے کر روانہ کئے جاویں گے اور جہنم دکھاکر کہا جاوے گا کہ یہ ہے وہ جس کا انکار تھا، اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تم کو دکھائی نہیں دیتی، اب اس میں جلاکر و چیخو یا چلاؤ تمہارے اعمال کی سزا ہے۔ 1 ؎ اور ممکن ہے کہ طور سے اشارہ آنحضرت ﷺ کی ذات کی طرف ہو کہ وہ وقار کا پہاڑ اور عالم کی بجلی گاہ تھی اور کتاب مسطور حضرت کے علوم متعارف جو لوگوں کے اوراق دل پر لکھے گئے اور بیت معمور حضرت کا دل پاک اور وقف مرفوع آپ کی شان اور بھر مسجور آپ کے علوم کا دریاء مواج۔ 12 منہ
Top