بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
قسم ہے طور کی
وَالطُّوْرِ ۔ وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ ۔ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ ۔ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ ۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ ۔ وَالْبَحْرِالْمَسْجُوْرِ ۔ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ۔ مَّالَـہٗ مِنْ دَافِعٍ ۔ (الطور : 1 تا 8) (قسم ہے طور کی۔ اور ایک لکھی ہوئی کتاب کی۔ جھلی کے کھلے ہوئے اوراق میں۔ اور قسم ہے آباد گھر کی۔ اور اونچی چھت کی۔ اور لبریز سمندر کی۔ بیشک تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔ جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں۔ ) قسموں اور مقسم علیہ کا ذکر ان آیات میں طور، کتاب مسطور، بیتُ المعمور، سقفِ مرفوع اور بحرمسجود کی قسم کھائی گئی ہے۔ یعنی ان قسموں سے بعد میں آنے والے جوابِ قسم یا مقسم علیہ پر شہادت مہیا کی گئی یا دلیل لائی گئی ہے تاکہ اس جوابِ قسم یا مقسم علیہ کے ثبوت میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ وہ جوابِ قسم یا مقسم علیہ یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے یا ہو کے رہے گا اور اسے کوئی دفع کرنے والا نہیں۔ یعنی اس کا آنا اور واقع ہونا یقینی ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ قسمیں یا شہادتیں اس مقسم علیہ کو کس طرح ثابت کرتی ہیں اور اس قسموں کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ قسموں کا مفہوم سب سے پہلے طور کی قسم کھائی گئی ہے۔ طور اگرچہ ایک پہاڑ ہے، لیکن مراد اس سے وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب و قاہر قوم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یہ فیصلہ قانونِ طبیعی کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانونِ اخلاقی اور قانونِ مکافات کی بنیاد پر تھا۔ اس لیے آخرت کے حق میں اسے تاریخی استدلال کے طور پر پیش کیا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل نہایت پسے ہوئے اور دبے ہوئے لوگوں کی ایک قوم تھی۔ ان کی بےبسی نے پیغمبروں کی اولاد ہونے کے باوجود انھیں غلاموں کی تصویر بنا رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو خود بےبسی اور بےمائیگی کی تصویر تھا۔ اقتدار اور نبوت کی دعوت میں تصادم ہوا۔ طاقت نے اخلاقی قوت کو اپنے سامنے جھکانا چاہا۔ لیکن آخر اقتدار اور طاقت کا نمائندہ اس اخلاقی قوت سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا اور چونکہ اس کی روشنی کوہ طور سے پھوٹی تھی اور کوہ طور ہی سے بنی اسرائیل کو وہ زندگی کا نظام ملا جسے تورات کہتے ہیں۔ اور ان کی اجتماعی غلطیوں کے نتیجے میں کوہ طور ہی سے ان کو تنبیہات ہوتی رہیں۔ اس لیے کوہ طور کی پوری تاریخ یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ مکافات جب حرکت میں آتا ہے تو طاقت اور اقتدار اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ قریش کو بھی اس آئینے میں اپنا مستقبل دیکھنا چاہیے۔ اور دوسری قسم کھائی گئی ہے کتاب مسطور کی۔ اس سے مراد تورات بھی ہوسکتی ہے اور کتب مقدسہ کا مجموعہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور طور کے معاً بعد کتاب کے ذکر سے تورات کی طرف ذہن جاتا ہے کیونکہ یہ طور ہی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئی تھی۔ اور باقی کتابیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک نازل ہوئی ہیں ان میں احکام چونکہ تورات ہی کے باقی رکھے گئے اور اسی پر عمل کرنے کا سب کو حکم دیا گیا۔ اس لیے اگر کتب مقدسہ کا مجموعہ اس سے مراد لیا جائے تو وہ بھی غلط نہیں۔ مقسم علیہ پر اس کی گواہی اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول مختلف قوموں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور ان پر کتابیں نازل ہوئی ہیں ان میں کوئی کتاب ایسی نہیں جن میں آخرت کی خبر نہ دی گئی ہو، جس میں بعث بعدالموت کا حوالہ نہ ہو اور جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کا ذکر نہ ہو۔ یہ گویا ان تمام سچے لوگوں کی گواہی ہے جن پر سچائی ہمیشہ ناز کرتی رہے گی اور جن کی نبوت اور رسالت کی سب سے بڑی دلیل ان کی عظمت کردار اور ان کی صداقت رہی ہے۔ اگر ان پر نازل ہونے والی کتابیں آخرت کی خبر دیتی ہیں تو یہ خبر ایک ایسی گواہی ہے جس کے پیچھے مذہب کی پوری تاریخ کھڑی ہے اور جسے انبیائے کرام کے عظمت کردار نے توانا کر رکھا ہے اور جس کی صداقت پر تمام قومیں اختلاف کے باوجود اتفاق رکھتی ہیں۔ تیسری قسم بیت المعمور کی کھائی گئی ہے۔ البیت المعمور سے مفسرین نے مختلف مفاہیم مراد لیے ہیں اور بعض اہل علم نے ان کے مصادیق متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن دل کو لگتی ہوئی بات یہ ہے کہ اس سے مراد بیت اللہ ہے۔ کیونکہ وہ ایک ایسا آباد گھر ہے جو طواف کرنے والوں اور عبادت کرنے والوں سے کبھی خالی نہیں رہا۔ اس کی تاریخ اور اس کا وجود اس امر کی ناقابلِ تردید گواہی ہے کہ اس گھر کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی تائید، اس کا قانونِ مکافات، اس کے پیغمبروں کی صداقت اور ان کی دی ہوئی خبروں کی حقانیت قائم ہے۔ کیونکہ یہ ان آیات کے نزول سے اڑھائی ہزار سال پہلے بےآب وگیاہ اور غیرآباد پہاڑوں میں ایک شخص کسی لائولشکر اور سروسامان کے بغیر آتا ہے اور اپنی ایک بیوی اور ایک شیرخوار بچے کو بالکل بےسہارا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ پھر وہی شخص کچھ مدت کے بعد اسی سنسان جگہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک گھر بناتا ہے اور پکار کر کہتا ہے کہ لوگو، آئو اور اس گھر کا حج کرو۔ اس تعمیر اور اس پکار کو یہ حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ پورے ملک کا مرکز بن جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ اور پھر صرف اس گھر کی وجہ سے یہ پورا علاقہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ وہ لوگ جو پورے ملک میں کشت و خون کی داستان دہراتے ہیں وہ جب اس گھر میں داخل ہوتے ہیں تو بےدست و پا ہو کے رہ جاتے ہیں۔ کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ اور اگر کسی بگڑے ہوئے حکمران نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور اسے ڈھا دینے کی کوشش کی تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا ایسا شکار ہوا کہ عبرت بن کر رہ گیا۔ ابرہہ اور اس کے لشکر کی تباہی کی صورت میں یہ واقعہ ان آیات کے نزول سے صرف 45 برس پہلے پیش آیا۔ اس کے بعد اس کی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ اللہ تعالیٰ کے اس گھر کی عظمت، اس کے بنانے والے کی حقانیت اور اس میں مبعوث کیے جانے والے پیغمبر اور وہ آخرت کے جس عقیدے کی وہ شدومد سے دعوت دے رہا ہے اس کی صداقت پر کسی مزید دلیل کی حاجت ہو۔ اس گھر کی تاریخ اور اس کے ایک ایک ورق اور اہل عرب پر اس کے بےپناہ اثرات اور اس کی طاقت وہیبت کا مظاہرہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس گھر سے اٹھنے والی صدا جس میں آخرت کے تصور کو بنیادی عقیدے کی حیثیت حاصل ہے یقینا آخرت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس کے بعد السقفُ المرفوع یعنی بلند چھت کی قسم کھائی گئی ہے۔ قرآن کریم بار بار اللہ تعالیٰ کی عظمت اور لوگوں پر اس کی کرم گستری کو بیان کرنے کے لیے آسمان کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ ایک ایسی نیلگوں چھت جس کے اور چھور کا کوئی اندازہ نہیں، جس کی نہ ابتداء معلوم ہے اور نہ انتہاء معلوم ہے، جس کے نیچے کوئی ستون نہیں، جو بیشمار صدیوں سے ستونوں کے بغیر کھڑا ہے اور اس میں کہیں شگاف واقع نہیں ہوا، بیشمار مخلوقات اس میں آباد ہیں، بیشمار کُرّے ثوابت اور سیاروں کی شکل میں اس کے نیچے رواں دواں ہیں، بیشمار نعمتیں وہاں سے اہل زمین پر اترتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو ذات اس عظیم اور ناپیدا کنار چھت کے بلند کردینے پر قادر ہے، کون سا کام ہے جو اس کے دائرہ قدرت سے باہر ہوسکتا ہے۔ جو شخص روزانہ اس آسمان کو دیکھتا ہے اس کے دل و دماغ پر اللہ تعالیٰ کی ہیبت چھا جاتی ہے۔ اگر دوسرے عوارض اس کو لاحق نہ ہوں تو وہ کبھی یہ کہنے کی غلطی نہیں کرسکتا کہ جس اللہ نے ہمیں پہلی دفعہ پیدا کیا ہے وہ دوسری دفعہ پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ اور جس نے ہم پر اس قدر احسانات اور انعامات کیے اور ہمیں غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ کبھی ہمیں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ سکتا ہے۔ وہ یقینا ایک دن ایسا لائے گا جس میں ہمارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد البحر المسجور کی قسم کھائی ہے جس کا معنی ہے لبریز سمندر۔ سجر کے معنی بھرنے کے ہیں۔ سجرالماء النہر ” پانی نے نہر کو لبریز کردیا۔ “ سمندر کی ناقابلِ بیان وسعت، اس میں بےحد و حساب حیوانات کی موجودگی، پھر ان حیوانات کے جسمانی نظام کا ٹھیک ٹھیک اس طرح بن جانا کہ وہ سمندر کی گہرائی کے لیے موزوں ہو۔ اور پھر پانی کا نمکین ہونا تاکہ اس میں مرنے والی مخلوقات کی لاشیں سڑنے نہ پائیں۔ اور پھر سمندر کے پانی کا ایک خاص حد پر رکے رہنا کہ نہ وہ زمین کے اندر اترے اور نہ خشکی پر چڑھ کر اسے غرق کردے۔ اور پھر اس کے ذخیرہ آب سے بھاپ کا اٹھ کر بادل بننا اور زمین کے خشک حصوں کو پانی سے سیراب کردینا، اور پھر اس سے انسانوں کو مختلف غذائوں کی شکل میں بہت سی چیزوں کا حاصل ہونا، کیا یہ سب کچھ کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ یقینا سمندر کا وجود اپنے اندر بیشمار حکمتیں رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ جس ذات نے زمین کی سطح پر ایسا بےپایاں سمندر پیدا کیا ہے اس پیدا کرنے والے کی ہیبت اور عظمت کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ اور جس نے انسانوں کے لیے رزق اور دیگر منافع کا ایسا سرچشمہ پیدا فرمایا ہے کیا وہ انسان سے کبھی نہیں پوچھے گا کہ تو نے میرا رزق کھا کر اس کا حق کیسے ادا کیا ؟ انسان سمندر کے سینے پر جہاز تو دوڑاتا پھرے لیکن یہ قدرت دینے والا اسے کبھی نہ پوچھے گا کہ تو نے یہ حق کس طرح استعمال کیا ؟ اور اگر یہ سوالات اپنی کوئی اہمیت رکھتے ہیں تو یقینا اس کا ایک ہی جواب ہے کہ یقینا ایک دن ایسا آئے گا جب انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا اور اسی کا نام آخرت ہے۔ یہ شہادتیں مہیا کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ قریش کو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں اور جس یوم آخرت کی خبر دے رہے ہیں یہ دونوں اپنے اپنے وقت میں ہو کر رہیں گی۔ جب وہ عذاب آئے گا تو کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہوگا۔ اور ان کی قوت و جمعیت ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اور نہ کوئی انھیں آخرت میں سہارا دے سکے گا۔ اگر اتنی بڑی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلیں اور وہ عذاب کا مطالبہ کیے جارہے ہیں تو اگر ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی گرجائے تو یہ اسے بھی ابرباراں سمجھ کر خوشی کا اظہار کریں گے۔ لیکن جب وہ ان کے تباہ کرکے رکھ دے گا تو پھر ان کو پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
Top