بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
قسم ہے طور کی
[ 1] کوہ طور کی قسم اور اس سے مقصود و مراد ؟: سو ارشاد فرمایا گیا کہ قسم ہے طور کی، جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا، اور نبوت عطا ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے قانون مکافات و مجازات کا ایک عظیم الشان اور تاریخی نشان ہے، اور جہاں بنی اسرائیل جیسی ظلم و ستم میں دبی اور پسی ہوئی اور صدیوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی قوم کو اٹھائے جانے، اور فرعون جیسے ظالم اور اس کی بگڑی ہوئی قوم کی غرقابی کے فیصلے کا گویا اعلان کردیا گیا تھا، سو یہ ایک تاریخی ثبوت ہے قانون مکافات کا، یعنی اس بات کا کہ اللہ پاک کی اس دنیا میں صرف قانون طبیعی ہیں لاگو نہیں کہ یہ کائنات کچھ لگے بندھے طبیعی قواعد و ضوابط کے مطابق یونہی چلتی رہے، اور پھر بغیر کسی نتیجہ وثمرہ کے یونہی ختم ہوجائے اور بس۔ نہیں ایسے نہیں، بلکہ اس میں ایک قانون اخلاق [ Moral Law ] بھی کارفرما ہے جس کے مطابق انسان جیسی عظیم الشان اور ذی اختیار مخلوق کے حق میں فیصلہ کیا جاتا ہے، تاکہ ہر کوئی اپنے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ پاس کے، اور اس طرح عدول و انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس لئے قیام قیامت ضروری ہے تاکہ جزاء و سزا کا یہ عظیم الشان مقصد اپنی آخری اور کامل شکل میں پورا ہوسکے، ورنہ دنیا کی اس عظیم الشان تخلیق کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ بہرکیف تاریخ کے اس عظیم الشان حوالے سے یہ عظیم الشان اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ پاک کی اس دنیا میں صرف قانون طبیعی ہی نہیں۔ بلکہ قانون مکافات [ Law of Retribution ] بھی لاگو ہے جس کے کچھ مظاہر اس دنیا میں بھی کبھی کبھی یہاں اور وہاں جگہ جگہ پیش آتے رہتے ہیں، مگر جزا و سزا کے تقاضے پوری طرح اس دنیا میں پورے نہیں ہوسکتے۔ کہ نہ دنیا کے اس ظرف ناقص محدود میں اس کی گنجائش ہے، اور نہ ہی یہ اس کا موقع و محل ہے، کہ یہ دنیا دارالعمل ہے نہ کہ دار الجزائ، سو جزا و سزا کے تقاضے اپنی کامل اور آخری شکل میں آخرت کے اس جہان حقیقی ہی میں پورے ہوں گے اور وہیں پورے ہو سکیں گے، کہ وہی اس کا موقع و محل بھی ہوگا کہ وہ دارالجزاء ہے، اور اس کا ظرف بھی لامحدود ہوگا جس میں ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ پاس کے گا، سو اس نے اس دنیا کے خاتمے کے بعد بہرحال آکر رہنا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے حق اور حقیقت بہرحال یہی اور صرف یہی ہے۔ پس اس جہان کے تقاضوں کو ہی اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصیب العین بنانا عقل اور نقل دونوں کا تقاضا ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، فی کل ان وحین،
Top