بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
کوہ طور کی قسم۔
آخرت کے لیے اللہ کی دی گئی قسمیں کہ یہ یقینی ہے تشریح : قرآن پاک پورے کا پورا بہترین مضامین کا مجموعہ ہے۔ مگر پھر بھی کسی کسی سورت کی کوئی خاص فضیلت احادیث سے ملتی ہے۔ مثلاً حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں ' زمانہ حج میں میں بیمار تھی حضور ﷺ سے میں نے اپنا حال کہا تو آپ نے فرمایا تم سواری پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کرلو چناچہ میں نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا اس وقت آنحضرت ﷺ بیت اللہ کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے اور والطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ (بخاری از ابن کثیر) اس سورت میں قیامت کا ایسا ہولناک منظر پیش کیا گیا ہے کہ ہر ذی شعور انسان پر اس کا بےحد اثر اور خوف طاری ہوجاتا ہے۔ جو کہ اس وقت کے نافرمان لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ضروری تھا۔ اور آج کے لوگوں کے لیے اور تاقیامت لوگوں کے لیے ضروری ہے۔ مکی سورتوں میں خاص طور سے توحید ایمان اور آخرت پر یقین کرنے کی پر زور تاکید کی گئی ہے جیسا کہ اس سے پہلے ہواؤں زمین وغیرہ کی قسم رب العزت نے کھائی تو یہاں آخرت کا یقین دلانے کے لیے الطور لکھی ہوئی کتاب منتشر اوراق بیت معمور بلند آسمان اور موجیں مارتے ہوئے سمندر کی قسم کھائی ہے۔ ان چیزوں کی قسم اسی لیے کھائی ہے کیونکہ یہ کائناتی نظام اور انسانی ضروریات کی واضح چیزیں ہیں۔ بہت سی تفاسیر پڑھنے کے بعد میری سمجھ میں یہی آیا ہے کہ الطور یعنی خاص پہاڑ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس پر حضرت موسیٰ کو نبوت دی گئی۔ پھر لکھی ہوئی کتاب کا ذکر ہے جس کے ساتھ رقیق یعنی وہ باریک جھلی کہ جس پر توراتانجیل، زبور اور کئی صحف آسمانی لکھے جاتے ہیں۔ تو اس سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں۔ ان سب میں وہی آسان عام فہم پیغام توحید ہی دیا گیا ہے اسی لیے اسے ' کھلی کتاب کہا گیا ہے۔ تیسری چیز ' آباد گھر اس کے لیے بھی بہت سی آراء ہیں حضرت حسن بصری (رح) نے اس کا اشارہ خانہ کعبہ کی طرف کیا ہے۔ کیونکہ یہ خانہ خدا ایسی جگہ پر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہ تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ڈھائی سو سال قبل یعنی ان آیات کے نازل ہونے سے اتنا عرصہ پہلے اللہ کے حکم سے اپنی بیوی اور بچہ کو یہاں اللہ کے سہارے چھوڑ دیا تھا اور پھر کچھ مدت بعد وہاں آ کر اللہ کا گھر تعمیر کیا جو اس وقت سے آج تک اور تا قیامت مسلمانوں کا مرکز اور انتہائی محترم و مکرم عبادت گاہ بن چکی ہے۔ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس فرمانبرداری کا ان کو بےمثال اجر اس دنیا میں دیا آخرت کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں۔ تمام دنیا سے لوگ لبیک لبیک پکارتے ہوئے دیوانہ وار یہاں حج کی سعادت حاصل کرنے آتے ہیں اور ہمیشہ طواف کے لیے لوگو سے بھرا رہتا ہے اسی لیے اس کو ' آباد گھر کہا گیا ہے۔ چوتھی چیز جس کی رحمن نے قسم کھائی وہ آسمان ہے۔ آسمان کی بابت بڑی تفصیل سے بیان سورة قٓ میں گزر چکا ہے۔ پانچویں چیز ' البحر المسجور کا ذکر ہے۔ اس کی بھی بڑی مختلف تفاسیر کی گئی ہیں جن کی روشنی میں میں اس کے معنی موجزن ' بھرا ہوا مقید یعنی حدود میں رکھا ہوا اور مخلوط سمندر لے سکتی ہوں۔ کیونکہ ہمارے زمینی سمندر ایسے ہی نظام کے تحت بنائے گئے ہیں۔ جب ہم سمندروں کی ساخت انتظام اور فوائد پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس عظیم تخلیق پر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ ہمارا سر اللہ کی عظمت اور شکر کے اعتراف میں جھک جاتا ہے۔ یہ کشش ثقل سرفس ٹینشن یعنی فزکس کے بےمثال اصولوں اور کمالات کا ایک عجوبہ روزگار ہے۔ جو قدرت کا عظیم الشان کرشمہ ہے۔ کتنی بڑی حکمت ہے کہ اس قدر بڑا پانی کا ذخیرہ اس زمین کے گیند پر رکھ دیا گیا ہے یہ گیند نہ صرف فضا میں معلق ہے بلکہ بڑی تیزی سے گھوم بھی رہی ہے۔ یہ سمندر اپنے اندر بیشمار خزانے چھپائے ہوئے ہیں۔ ان کی بناوٹ اتنی زبردست کہ نہ تو وہ زمین کے اندر جذب ہورہے ہیں اور نہ ہی ایک مقررہ حد سے اوپر ہو رہے ہیں نہ نیچے جارہے ہیں۔ کروڑوں سال سے وہ ایک خاص حد پر رکے ہوئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں اسی قدرتی ڈیم سے پانی بادل کی مدد سے پہنچایا جاتا ہے۔ جو کہ پانی میں موجود کثافت اور نمک سے بالکل پاک صاف ہوتا ہے جبکہ یہی نمک سمندر کے پانی کو سڑنے خراب اور بدبودار ہونے سے بچاتا ہے۔ اس کے اندر ایسا بہترین انتظام کیا گیا ہے کہ بیشمار مخلوقات پیدا ہوتی پلتی بڑھتی اور مرتی رہتی ہیں اور بہت زیادہ تو انسانی غذا کے کام بھی آتی ہیں مگر کیا مجال کہ سمندر کے پانی میں بد بو پیدا ہوجائے۔ کیا یہ کمالات کسی بندے بشر کے اختیار میں ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ مدتوں سے سائنسدان اللہ کی ان حیرت انگیز تخلیقات پر غور و فکر کرکے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر انتہائی محنت کوشش کے باوجود کچھ معمولی سے راز جان سکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا ' زبردست حکمت والا رب ذوالجلال جب ہم سے یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک دن بالکل فنا ہوجائے گا سب لوگ مرجائیں گے پھر دوبارہ میرے حکم سے زندہ ہو کر میرے حضور پیش ہوں گے اور میں ان کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ ضرور دوں گا۔ تو اس بات کو یقین سے مان لینے میں آخر کون سی رکاوٹ ہے۔ اللہ جو اس قدر حکمت قدرت اور عظمت والا ہے۔ اس نے ہماری موجودہ زندگی کو نیک پاک اور مفید بنانے کے لیے ہی تو ہمیں یہ خبر دی ہے کہ ہمیں بدلہ ضرور ملے گا اور ہم دوبارہ زندہ ضرور کئے جائیں گے اور اللہ نے فرمایا ' جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ چلنے پھرنے لگیں گے۔ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہے۔ جو اپنی حجت بازیوں میں کھیل کود رہے ہیں۔ (آیات 9 تا 12) ایسے لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا ؟ اگلی آیات میں دیکھیں۔
Top