بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
قسم ہے طور کی
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ ک نام سورة الطور ہے ، جو کہ اس کے پہلے لفظ سے مآخوذ ہے ۔ سورة مکی زندگی میں سورة السجدۃ کے بعد نازل ہوئی ۔ مکی سورتوں کا یہ سلسلہ سورة الواقعہ تک چلے گا ۔ اس سورة کی انچاس آیتیں اور دو رکوع ہیں ، اور یہ سورة مبارکہ 812 الفاظ اور 500 1 احروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة گزشتہ سورة کی طرح اس سورة میں بھی زیادہ تر جزائے عمل ہی کا ذکر ہے ، البتہ پہلی سورة کی نسبت اس سورة میں کچھ زیادہ تفصیلات آگئی ہیں ۔ پچھلی سورة میں جواب قسم تھا ان الذین الواقع یعنی جزائے عمل ضرور واقع ہونے والی ہے ، اور اس سورة میں مختلف چیزوں کی قسم اٹھانے کے بعد فرمایا ہے ان عذاب ربک لواقع بیشک تیرے پروردگار کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے۔ جسے کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔ دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی زیادہ تر اسلام کے بنیادی عقائد ہی کا ذکر ہے ۔ قرآن کے وحی الٰہی ہونے ، توحید و رسالت کی گواہی ، قیامت اور جزائے عمل کا وقوع اس سورة کے مضامین میں شامل ہیں ، انداز وتبشیر کا پہلو بھی نمایاں ہے عذاب کی بعض تفصیلات اور اہل ایمان کو ملنے والے انعامات کا ذکر ہے ۔ مشرکین کی طرف سے انکار قیامت سے متعلق بعض ممکنہ وجوہات کا تذکرہ کر کے ان کو جزائے عمل پر ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قسم کا بیان (1) طور سورۃ کا آغاز مختلف قسموں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے والطور قسم ہے طور کی ، عربی زبان میں سر سبز پہاڑ کو کہا جاتا ہے ، تا ہم یہاں پر طور پر ال لا کر اس کو خاص بنا دیا گیا اور اس سے مراد سر سبز پہاڑ ہے جو سر زمین مدین میں ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا تھا اور تورات عطا فرمائی تھی ۔ یہ بڑا متبرک پہاڑ ہے جس پر اللہ نے اپنی تجلی ڈالی تھی ۔ اللہ نے اس پہاڑ کی قسم اٹھا کر مجرمین کے لیے عذاب واقع ہونے کی تصدیق فرمائی ہے۔ سورة طہٰ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا تَسْعٰی (آیت : 15) قیامت یقینا آنے والی ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ اس کے وقت کو پوشیدہ رکھوں تا کہ ہر شخص کو اس کی کوشش کا بدلہ مل سکے ۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا میں کی گئی ہر کوشش ، محنت اور عمل و اعتقاد کا نتیجہ قیامت کو ہی ظاہر ہوگا۔ اللہ نے اس بات کو نہ صرف قرآن میں بار بار دہرایا ہے بلکہ تورات میں لکھا ہے کہ قیامت اور جزائے عمل کا واقع ہونا یقینی امر ہے۔ الطور کے ذکر کے ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ مجرموں کو دنیا میں ہی سزا میں مبتلا کردیتا ہے۔ بنی اسرائیل نے خود موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کو کوئی ایسی کتاب ملنی چاہئے ۔ جس کے مطابق وہ اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) قوم کا یہ مطالبہ لے کر طور پر گئے چالیس دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے تورات جیسی عظیم الشان کتاب عطا فرمائی ۔ مگر جب اسے لا کر قوم کے سامنے پیش کیا ، تو لوگ اس سے انکاری ہوگئے۔ اللہ نے انکی اس بد عہدی کا سخت نوٹس لیا اور فرمایا ورفعنا فوقکم الطور ( البقرہ : 93) ہم نے تمہیں ڈرانے کے لیے کوہ طور اٹھا کر تمہارے سر پر کھڑا کردیا ، اور حکم دیا کہ ہماری عطا کردہ کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو ، اور اس کو سنو ، مگر تمہارے ابا ئو اجداد نے کہا سمعنا وعصینا ہم نے سن لیا گمر مانیں گے نہیں ۔ پھر جب انہوں نے کوہ طور کو اپنے سروں پر معلق دیکھا توڈر گئے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کیا ، توبہ کی اور کتاب پر عمل کرنے کا پختہ عہد کیا ، بہر حال طور کی تاریخ میں سزا کا عنصر بھی موجود ہے۔ سر سید جیسے بعض لوگوں نے بنی اسرائیل کے سروں پر کوہ طور کے معلق ہونے کا انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الواقعہ طور پہاڑ کو اکھاڑ کر نہیں لٹکایا گیا تھا بلکہ بنی اسرائیل کو پہاڑ کے دامن میں لا کر کھڑا کردیا گیا جسے ورفعنا کا نام دیا گیا ہے یعنی ہم نے تمہارے اوپر طور کو بلند کردیا ۔ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ سورة الاعراف میں واذنتقنا الجبل فوقھم ( آیت : 171) کے الفاظ ہیں یعنی ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو اکھاڑ کر رکھ دیا تھا۔ (2) کتاب مسطور اللہ نے دوسری قسم کے طور پر فرمایا وکتب مسطور اور قسم ہے لکھی ہوئی کتاب کی ، اس کتاب سے تورات بھی مراد ہو سکتی ہے۔ قرآن بھی اور لوح محفوظ بھی ۔ قرآن پاک اور تورات دونوں آسمانی کتابوں میں جزائے عمل کے مسئلہ کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے اور لوح محفوظ میں تو بہر حال ہر چیز اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ تو فرمایا اس لکھی ہوئی کتاب کی قسم فی رق منشور جو کشادہ ورق ہے ۔ رق دراصل جھلی کو کہتے ہیں ، آج کل تو کاغذ کی صنعت بہت ترقی کرگئی ہے ، پرانے زمانے میں کتابیں ، پتھروں ، پتوں ، چمڑے یا جھلی پر ہی لکھی جاتی تھیں ، کتاب تورات اللہ نے سلوں پر لکھی لکھائی نازل فرمائی تھی ۔ جب کہ قرآن پاک ، پتھروں ، ہڈیوں اور چمڑے وغیرہ پر لکھا جاتا تھا ، نزول قرآن کے زمانے میں یمن اور شام میں دستی طور پر کاغذ تیار ہونے لگا تھا ، مگر اس کی فروانی بہت بعد میں جا کر ہوئی۔ (3) بیت المعمور فرمایا والبیت المعمور اور قسم ہے آباد گھر کی ، آباد گھر سے مراد بیت اللہ شریف بھی ہو سکتا ہے اور بیت المقدس بھی ، یہ دونوں ارضی گھر ہیں اور لوگوں کی آمدورفت کی وجہ سے ہر وقت آباد رہتے ہیں ۔ البتہ بیت المعمور ساتویں آسمان پر فرشتوں کا قبلہ ہے جس کا فرشتے طواف کرتے ہیں ۔ ہر فرشتے کو طواف کا ایک ہی موقع ملتا ہے ، دوبارہ نہیں ۔ بیت المعمور بیت اللہ کو سیدھ میں بالکل اوپر ہے۔ معراج والی حدیث میں اس کا بھی ذکر ملتا ہے کہ جب حضور ﷺ سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں بیت المعمور بھی دیکھا ، یہاں یہ نقطہ بھی غور طلب ہے کہ جب فرشتوں جیسی پاک مخلوق بھی خدا کی عبادت کی پابند ہے تو انسانوں کو تو بطریق اولیٰ اس کا اہتمام کرنا چاہئے اور جزائے عمل کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ بیت المعمور سے مراد خانہ کعبہ ہوا ، بیت المقدس ہو یا خود بیت المعمور ہو جزائے عمل کا مسئلہ سب سے واضح ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ اور بیت المقدس میں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں تا کہ وہ اپنے پروردگار کو راضی کرلیں اور ان کے لیے جزائے عمل کے وقت آسانی پیدا ہوجائے۔ کعبۃ اللہ کی تاریخ کے ساتھ مجرموں کی سزا کا پہلو بھی وابستہ ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا الم ترکیف فعل رب باصحب الفیل ( الفیل : 1) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ ابرہہ یمن سے ہاتھیوں کا لشکر لے کر خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے آیا تھا مگر اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اس کے لشکر میں تباہی مچا دی ۔ اس طرح گویا ان کو دنیا میں ہی فعل بد کی سزامل گئی ۔ (4) سقف مرفوع فرمایا والسقف المرفوع اور قسم ہے بلند چھت کی ، بلند چھت سے آسمان بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ البتہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے بیت المقدس کی چھت مراد ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بلند کی تھی ۔ جہاں تک آسمان کی بلندی کا تعلق ہے تو یہ بھی درست ہے کیونکہ ہر چیز کا حکم تو آسمانوں کی طرف سے ہی آتا ہے اور پھر اس حکم کی تعمیل یا عدم تعمیل سے جزائے عمل کا پہلو نکلتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول بھی آسمان کی طرف سے ہوتا ہے اور عذاب الٰہی بھی ادھر ہی سے آتا ہے۔ قوم لوط ، قوم شعیب ، قوم عاد اور قوم ثمود پر اللہ نے اوپر ہی سے عذاب مسلط کیا ۔ اگرچہ اس کا تعلق فضاء سے بھی ہے تا ہم اس کا زیادہ تر تعلق اوپر ہی سے ہے۔ (5) بحر مسجود پھر فرمایا والبحر المسجود اور قسم ہے گرم کیے ہوئے دریا کی ۔ جب قیامت برپا ہوگی تو سخت حرارت کی وجہ سے سمندروں اور دریائوں کا پانی بھاپ بن کر اڑ جائیگا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بجر مسجور کا معنی روکا ہوا پانی کرتے ہیں ۔ اس سے مجرموں کو سزا دینے کی طرف اشارہ ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر بحر قلزم کے کنارے پر پہنچے تو اللہ نے پانی کو روک کر درمیان میں بارہ راستے بنا دیے تھے جن پر چل کر بنی اسرائیل سمندر سے پار چلے گئے ۔ پھر جب انہی راستوں پر فرعونی لشکر نے گزرنے کی کوشش کی تو اللہ نے پانی کو چلا دیا اور اس طرح سارے فرعونی پانی میں غرق ہوگئے قوم نوح کو بھی اللہ نے پانی میں غرق کیا ۔ بہر حال بحر مسجود سے نافرمانوں کی سزا یابی کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے۔ وقوع عذاب ان پانچ چیزوں کی قسم کھانے یعنی ان کو گواہ بنانے کے بعد اللہ نے فرمایا ان عذاب ربک تواقع بیشک تیرے پروردگار کا عذاب واقع ہونے والا ہے ۔ اور یہ ایسا عذاب ہوگا مالہ من دافع کہ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ مطلب یہ کہ جزائے عمل ضرور واقع ہوگی اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہر سکے گی ۔ فرمایا ، یہ عذاب اس دن واقع ہوگا یوم تمود السماء موراً جس دن کہ آسمان لرز جائے گا لرزنا ۔ قیامت والے دن زمین کے علاوہ آسمان بھی ٹوٹ پھوٹ جائے گا جیسے فرمایا وفحت السماء فکانت ابوابا ً ( النبا : 19) آسمان کو کھول دیا جائے گا ۔ تو اس میں دروازے دروازے ہوجائیں گے وتیسر الجبال سیرا اور پہاڑ چلنے لگیں گے حتیٰ کہ فرمایا وتکون الجبال کالعھن المنفوش ( القارعۃ : 5) پہاڑ دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح منتشر ہوجائیں گے۔ یہ جزائے عمل کا دن ہوگا ، اسی لیے فرمایا فویل یومئذ للمکذبین اس دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی اور بربادی ہے یہ ان مجرموں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے دنیا میں توحید کو تسلیم نہ کیا ، رسالت اور جزائے عمل کا انکار کردیا ، قرآن کو وحی الٰہی نہ مانا ، لہٰذا یہ ان کی ہلاکت کا دن ہوگا ، یہ وہ لوگ ہیں الذین ھم فی خوض یلعبون جو غلط باتوں میں ہی کھیل رہے ہیں ، ساری زندگی کھیل کود میں گزار دی اور آخرت کی کچھ فکر نہ کی بلکہ بعث بعد الموت اور جزائے عمل کو قصے کہانیاں کہہ کر رد کرتے ہیں ۔ فرمایا یوم یدعون الی نار جھنم دعا جس دن کہ یہ دھکیلے جائیں گے جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جانا ۔ اور ان سے کہا جائے گا ھذہ النار التی کنتم بھا تکذبون یہ وہ آگ ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے آج اس کی ذلت کو برداشت کرو ، نیز ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ تم دنیا کی زندگی میں اللہ کے نبیوں کو جادوگر کہتے تھے اور معجزات کو جادو سے تعبیر کرتے تھے ، اسی بناء پر ان کا انکار کردیتے تھے ۔ اب بتلائو افسحرھذا کیا یہ جادو ہے امر انتم لا تبصرون یا تمہیں نظر ہی نہیں آ رہا ہے ۔ بتلائو یہ وقوع قیامت اور جزائے عمل بر حق ہے یا نہیں ؟ آج تمہیں یہ سب کچھ نظر آ رہا ہے یا نہیں ؟ اللہ فرمائے گا اصلوھا اب اس دوزخ میں داخل ہو جائو ۔ اس کے بغیر چارہ نہیں فاصبروا اولا تصبروا اب اس عذاب پر صبر کردیا بےصبری کا مظاہرہ کرو ۔ سواء علیکم تمہارے لیے برابر ہے تمہیں ہر حالت میں اس سزا کا مزہ چکھنا ہے ، تم اس سے بچ نہیں سکتے ، تمہارے ساتھ یہ کوئی زیادتی کا سلوک نہیں ہو رہا ہے بلکہ انما تجزون ما کنتم تعملون یہ تمہیں اسی چیز کا بدلہ دیا جا رہا ہے ۔ جو کچھ تم دنیا میں عمل کرتے رہے ، یہ تمہاری اپنی ہی کمائی ہے ، اس کا بھگتان کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے جزائے عمل کا مسئلہ سمجھایا ہے ۔ یہاں تک انداز کا پہلا غالب تھا تا کہ لوگ ڈر جائیں اور اس عذاب سے بچ جائیں ، اگلی آیات میں تبشیر کا ذکر آ رہا ہے جسے تفصیل کے ساتھ بیان فرما دیا گیا ہے۔
Top