بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
(خدا جو) نہایت مہربان
1۔ 13۔ اگرچہ سورة نحل میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس قدر احسان کئے ہیں کہ ان احسانات اور اس کی نعمتوں کا شکریہ کرنا تو درکنار اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کا ہر ایک شخص اگر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمت کی گنتی بھی کرنی چاہے تو یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی طاقت سے باہر ہے لیکن جن و انسان کے فقط یاد دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں اکتیس قسم کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور ہر ایک قسم کی نعمت کے ذکر کے بعد جن و انسان سے تنبیہ کے طور پر یہ پوچھا ہے کہ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔ مطلب یہ ہے کہ جس اللہ نے انسان کو ‘ انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کسی دوسرے کو اس کی عبادت میں شریک ہونے کا حق نہیں ہے۔ ترمذی 2 ؎ اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دن صحابہ ؓ کے رو برو یہ سورة پڑھی۔ صحابہ ؓ اس سورة کو سن کر چپکے بیٹھے رہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ بہ نسبت تم لوگوں کے جن لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے زیادہ قدر دان ہیں کیونکہ جنات کے رو برو میں نے ایک رات یہ سورة پڑھی تھی تو انہوں نے ہر دفعہ آیت فبای الاء ربکما تکذبن کے بعد یہ کہا تھا کہ ولابشیء من نعمتک ربنا تکذب فلک الحمد۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کی بناء پر علما نے لکھا ہے کہ ہر دفعہ اس آیت کے بعد یہ دعا پڑھنی سنت ہے کیونکہ جنات نے آپ ﷺ کے رو برو یہ دعا پڑھی اور آپ ﷺ نے اس کو پسند کیا۔ اسی کا نام تقریری حدیث ہے علماء نے لکھا ہے کہ اس سورة کے شروع سے آٹھ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عجائبات قدرت کو ذکر فرمایا ہے پھر سات آیتوں میں دوزخ کا ذکر فرمایا ہے پھر پندرہ آیتوں میں جنت کا ذکر فرمایا ہے اس صورت میں دوزخ کا ذکر نعمتوں میں اس طرح سے شامل ہوا کہ جو شخص پہلی کی آٹھ آیتوں پر یوں عمل کرے گا کہ دنیا کی عجائبات قدرت سے خدا کو پہچانے گا اور اللہ کے کلام اور اللہ کی مرضی کے موافق نیک کام کرے گا وہ دوزخ کی آفتوں کی بچنے کی نعمت اور جنت کے حاصل ہونے کی نعمت کو پائے گا۔ غرض یہ ہے کہ بعض مفسروں نے یہ جو اعتراض کیا ہے کہ دوزخ کا ذکر نعمتوں میں کیونکر شامل ہوسکتا ہے اس اعتراض کا جواب اس تفسیر سے جو اوپر بیان کی گئی ہے اچھی طرح نکل سکتا ہے۔ سورة نحل میں گزر 1 ؎ چکا ہے کہ مشرکین مکہ ایک شخص غلام کا نام لیتے تھے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو یہ باتیں سکھاتا ہے اس کا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں دیا ہے اور دوسرے جواب سے یہاں مشرکین کو جھٹلایا ہے کہ یہ قرآن اللہ کے رسول ﷺ کو کسی بشر نے نہیں سکھایا بلکہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا ہے جس کا نام رحمان بھی ہے یہ نام اس لئے فرمایا ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کے اس نام کے منکر تھے۔ چناچہ اس کا ذکر سورة فرقان میں گزر چکا ہے۔ قرآن کے سکھانے کا ذکر انسان کی پیدائش کے ذکر سے پہلے فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ انسان کا پیدا کرنا علم دین سیکھنے اور اس کے موافق عمل کرنے کے لئے ہے۔ آیت وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ بیان سے مقصود بات چیت اور زبان کی گویائی ہے جس کے سبب سے انسان قرآن کی تلاوت اور اس کے یاد کرنے کے قابل ہوا۔ سورج چاند اپنے برجوں اور منزلوں کو حساب سے طے کرتے ہیں جس کے سبب سے دن و رات پیدا ہو کر سال اور مہینہ معلوم ہوتا ہے جس پر لوگوں کے ہزاروں کام منحصر ہیں نجم کے معنی وہ پیڑ جو بیل کی طرح زمین پر ہی بڑھتے ہیں ‘ زمین سے اونچے نہیں ہوتے۔ سورة نحل میں گزر چکا ہے کہ ان چیزوں کا سجدہ ان کے سایہ کا ڈھلنا ہے۔ اوپر گزرچکا ہے کہ اللہ کے گناہ جیسے مثلاً نماز نہ پڑھنا یہ حق اللہ کہلاتے ہیں اور یہ خالص دل کی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں اور بندوں کے گناہ جیسے کسی کا مال چرا لینا یہ حق العباد کہلاتے ہیں۔ فقط توبہ سے یہ گناہ معاف نہیں ہوتے جب تک صاحب حق سے اس کے حق کی معافی یا کچھ تلافی نہ ہوجائے۔ کم تولنا یا کم ناپنا بھی حق العباد میں ہے۔ اس لئے پورا تولنے کی تاکید فرمائی۔ زیادہ تفصیل اس کی ویل للمطففین میں آئے گی مگر حق العباد سے ڈرنے کے لئے صحیح 1 ؎ مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث کافی ہے جو اوپر گزر چکی ہے کہ حق العباد میں لوگوں کی نیکیاں ہر صاحب حق کو اس کے بدلے میں مل جائیں گی اور یہ لوگ نیکیوں کے ثواب سے محروم ہو کر سیدھے جہنم کو چلے جائیں گے۔ کھجور عرب کا ایک خاص میوہ ہے اس لئے میووں کے عام ذکر کے بعد اس کا ذکر علیحدہ فرمایا۔ اکمام وہ خلاف ہیں جن میں کھجور کا خوشہ پھوٹنے کے وقت چھپا ہوا تھا ہے حب کے معنی ہر طرح کے اناج کا بیج ‘ علی بن طلحہ کی روایت 2 ؎ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ عصف کے معنی گھانس کے ہیں ریحان کے معنی خوشبودار درخت کے ہیں۔ (2 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الرحمن ص 184 ج 2۔ ) (1 ؎ تفسیر ہذا جلد 3 ص 370۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم۔ باب تحریم الظلم ص 320 ج 2۔ ) (2 ؎ تفسیرابن کثیر ص 271 ج 4۔ )
Top