بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
(خدا جو) نہایت مہربان
الرحمٰن۔ علم القرآن۔ سعید بن جبیر اور عامر شعبی نے کہا، الرحمٰن تین سورتوں کا آغاز ہے جب سب کو جمع کیا جائے تو وہ مل کر اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام بن جاتا ہے الر، حم اور ن۔ ان تینوں کا مجموعہ الرحمٰن بنتا ہے۔ علم القرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قرآن کی تعلیم دی یاں تک کہ آپ ﷺ نے اسے تمام انسانوں تک پہنچایا۔ یہ اس وقت آیات نازل ہوئیں جب انہوں نے یہ کہا : الرحمٰن ؟ رحمٰن کیا ہوتا ہے ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اہل مکہ کے جواب میں نازل ہوئیں جب انہوں نے یہ ہاک تھا : اسے ایک انسان سکھاتا ہے وہ یمامہ کا رحمان ہے۔ وہ اس سے مسلیمہ کذاب مراد لیتے تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا۔ زجاج نے کہا، علم القرآن کا معنی ہے قرآن کو یاد کرتا اور اس کو پڑھنا آسان بنا دیا جس طرح فرمایا : ولقد یسرنا القرآن للذکر۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسے علامت بنا دیا ہے جس کی لوگ عبادت کرتے ہیں۔ خلق الانسان۔ حضرت ابن عباس، قتادہ اور حضرت حسن بصری نے کہا، الانسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں (1) علمہ البیان۔ یعنی تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ ایک قول یہ کیا گیا : انہیں تمام لغات سکھائیں۔ حضرت ابن عباس اور ابن کیسان سے یہ مروی ہے : یہاں انسان سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں (2) بیان سے مراد حرام سے حلال کی اور گمراہی سے ہدایت کی وضاحت ہے (3) ایک قول یہ کیا گیا : جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہوگا و مراد ہے کیونکہ آپ نے اولین، آرین اور یوم دین کے بارے میں واضح کیا۔ ضحاک نے کہا، بیان سے مراد خیر و شر ہے۔ ربیع بن انس نے کہا، جو اسے نفع دیتی ہے اور جو اسے نقصان دیتی ہے، یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے تمام لوگ مراد ہیں، یہ اسم جنس ہے۔ اس تاویل کی صورت میں بیان سے مراد کلام اور فہم ہے یہ ایسا وصف ہے جس کے ساتھ انسان باقی تمام حیوانوں پر فضیلت رکھتا ہے (4) ۔ سدی نے کہا تمام قوموں کو ان کی زبان کی تعلیم دس جس کے ساتھ وہ کلام کرتے ہیں۔ یمان نے کہا، مراد قلم کے ساتھ خط و کتابت ہے، اس کی مثل یہ ارشاد ہے : علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم۔ (العلق) الشمس والقمر بحسبان۔ وہ معلوم حساب سے چلتے ہیں۔ تقدیر کلام یہ ہے الشمس و القمر یجریان بحسبان۔ خبر کو مضمر کیا گیا ہے وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ ایک طرف جھکتے ہیں۔ ابن زید اور ابن کیسان نے کہا، ان دونوں کی مدد سے اوقات، آجال اور عمروں کا حسبا لگایا جاتا ہے۔ اگر دن، رات، سورج اور چاند نہ ہوتے کوئی یہ نہ جانتا کہ وہ کیسے حساب کرے اگر سارے کا سارا زمانہ رات یا دن ہی ہوتا۔ سدی نے کہا، بحسبان سیم راد ہے ان کی اجل کی تقدیر ہے جس طرح لوگوں کی زندگی کے اوقات مقرر ہیں اسی طرح ان کے اوقات مقرر ہیں جب ان کی اجل آجاتی ہے تو یہ دونوں ہلاک ہوجاتے ہیں، اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : کل یجری لا جل مسمی (الرعد : 2) ضحاک نے حسبان کا معنی قصد کیا ہے۔ مجاہد نے کہا، حسبان سیم راد ہے چکی کی میخ وہ گردش کرتے ہیں جس طرح چکی میخ کے گرد گھومتی ہے (5) حسبان بعض اوقات حسبتہ احسبہ کا مصدر ہوتا ہے جس طرح غفران، کذبات اور رجحان ہے اور حسابۃ بھی اس کا مصدر آتا ہے یعنی میں نے اسے شمار کیا۔ اخفش نے کہا، یہ حساب کی جمع ع ہے جس طرح شھاب کی جمع شھبان آتی ہے۔ حسبان جب ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی عذاب اور چھوٹے تیر ہوتے ہیں سورة کہف میں گزرا ہے اس کی واحد حسبانہ ہے۔ حسبانہ کا معنی چھوٹا تکیہ بھی ہوتا ہے اس معنی میں تو کہتا ہے : حسبتہ جب تو اسے تکیہ بنائے کہا : لشویت غیر محسب یعنی تکیہ کے بغیر نہ اس میں تکریم تھی اور نہ ہی اس میں کفن دیا گیا تھا۔
Top