بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
رحمٰن
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 25 علم اس نے سکھایا۔ البیان بولنا بحسبان ایک حساب سے، ایک طریقے سے۔ النجم بےتنے کے درخت، پودے۔ وضع اس نے رکھا ۔ اس نے بنایا ۔ الاتطفوا یہ کہ تم نہ گھٹائو۔ انام مخلوق۔ الاکمام (کم) غلام، چھلکا ۔ العصف بھوسہ (جانوروں کی غذا) الریحان خوشبودار ۔ الاء (الی) نعمتیں صلصال خشک مٹی جو کھن کھن بجتی ہو۔ الفخار ٹھیکرا۔ الجان جن ، ابو الجنات ۔ مارج شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔ مرج (خوب بہتا ہے) جاری کیا البحرین دوریا، دو سمندر۔ برزخ پردہ، رکاوٹ۔ لا یبغین دونوں کو ملنے نہیں دیتا اللولو موتی۔ المرجان مونگا، سفید موتی۔ المنشئت بلند کئے ہوئے۔ الاغلام (ملم) پہاڑ، جھنڈا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسان کو ایسی ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے جن کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے طرح طرح کی بیشمار نعمتیں اس کے وجود کے اندر اور اس کے اردگرد بکھری ہوئی ہیں لیکن انسن کو ان نعمتوں کی اس وقت تک قدر نہیں ہوتی جب تک وہ اس کے ہاتھ سے نکل نہیں جاتیں۔ زوال نعمت کے بعد نعمتوں کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورة رحمٰن میں بار بار ایک ہی آیت کو ھدرایا ہے اور اس کائنات کی دو صاحب اقتدار اور دار مخلوقات جنات اور انسانوں سے خطاب کرتے ہئے فرمایا ” فبای ربکما تکذبان “ (اے جن و انس ) تم دونوں اللہ کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ ایک ہی آیت کو 68 آیات میں اکتیس مرتبہ دھرانا اس بات کی علامت ہے کہ جب تک اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا جایئے اس وقت تک انسان اور جنات کی تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اگر تم اللہ کی نعمتوں پر شکر کرو گے تو (ہمارا یہ وعدہ ہے کہ ) ہم ان نعمتوں کو بڑھاتے ہی چلے جائیں گے۔ “ اور اس کے ساتھ ہی فرما دیا کہ ” اگر تم نے ناشکری (کا طریقہ اختیار) کیا تو (ناشکری پر) میرا عذاب بھی شدید تر ہے۔ “ اس سورت کی ابتدا ” رحمٰن “ سے کی گئی ہے جس کے معنی ہیں ” بہت رحم کرنے والا “ یہ ال لہ کا صفاتی نام ہے۔ لیکن کفار مکہ کے لئے رحمٰن کا لفظ بالکل نیا تھا بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اللہ اور رحمٰن وہ الگ الگ معبود ہیں اسی لئے وہ کہنے لگے کہ ہم رحمٰن کو نہیں جانتے اور یہ کیا بات ہوئی کبھی تم کہتے ہو کہ اللہ کی عبادت کرو اور کبھی کہتے ہو رحمٰن کی قدر پہنچانو اور اس کو سجدہ کرو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بس جسم کو تم کہہ دو وہی معبود ہے اور اسی کی عبادت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی احمقانہ اور جاہلانہ بات کا جواب دینے کے بجائے پوری سورة رحمٰن نازل کر کے بتا دیا کہ اللہ اور رحمٰن دو معبود نہیں بلکہ ایک ہی معبود ہے۔ اللہ ہی رحمٰن ہے جس نے قرآن جیسی با عظمت کتاب کی تعلیم دی۔ انسان کو وجود بخشا، اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لئے اس کو بولنے اور کلام کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا اور پوری کائنات کو اس طرح کی خدمت پر لگا دیا ، چاند سورج اور ستاروں کے راستے مقرر کردیئے جو ایک خاص حساب گھوم رہے ہیں اور فضا میں تیر رہے ہیں ۔ اس نے بیلوں ، پودوں ، بڑے بڑے سائے دار گھنٹے درختوں کو اس کے رزق کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی نے نظام کائنات کو عدل و انصاف اور ایک خاص تو ازن اور ایک خاص تو ازن سے خوبصورتی عطا فرمائی اور لوگوں کے ہاتھوں میں ترازوئے عدل دے کر حکم دیا کہ وہ اس کائنات میں اپن عمل کردار اور تجارتی بد دیائیوں سے اس تو ازن اور اعتدال کو ضائع نہ کریں اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتنے ہوئے معاملات زندگی کو حسین تر بنائیں۔ اس نے زمین کو اس پر بسنے اور آباد رہنے والی مخلوق کے فائدوں کے لئے بنایا ہے۔ خوشبو اور چیزیں طرح طرح کے لذیذ پھل سبزیاں، ترکاریاں اور غلہ پیدا کیا۔ اسی غلہ میں جانوروں کی غذا بھوسے کو پیدا کر کے انسان ہاتھوں کو جانوروں تک رزق پہنچانے کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی نے انسان کو کھٹکھٹاتی مٹی سے اور جنات کو آگ سے پیدا کیا اور آگے بھی ایسی کہ جس میں دھواں نہ تھا۔ انسان اور جنات کو کائنات میں با اختیار بھی بنایا اور ذمہ دار مخلوق بھی اور ان کو پیدا کر کے ان کو ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ ان کی رہنمائی کے تمام اسباب بھی پیدا کئے تاکہ جب بھی وہ سیدھی ڈگر سے ہٹ کر غلط راستوں پر چل پڑیں تو ان کو صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کی جائے۔ اسی رحمٰن نے سورج کے نکلنے، ڈوبنے اور مختلف منزلوں سے گذرنے کے قاعدے طریقے اور قانون بنائے تاکہ دنوں، تاریخوں اور ماہ وسال کے حساب کو متعین کیا جاسکے اور مختلف موسم آتے جاتے رہیں تاکہ موسم کی یکسانیت سے انسان اکتا نہ جائے۔ زمین سے چاند اور سورج کا فاصلہ اس حساب سے رکھا گیا کہ اس میں فرق نہ آنے پائے کیونکہ اگر یہ فاصلہ ذرا بھی گھٹ جائے یا بڑھ جائے تو اس زمین پر انسان کو زندگی گذارنا مشکل ہوجائے فرمایا کہ وہ ہر مشرق اور مغرب کا پروردگار ہے اسی نے سمندر اور دریا پیدا کئے جن میں سے بعض تو ایسے دریا اور سمندر ہیں کہ دو دریا اور سمندر مل رہے ہیں مگر ہر پانی کا رنگ اور مزہ بالکل مختلف ہے آدمی دور سے دیکھ کر اس فرق کو صاف محسوس کرسکتا ہے۔ اسی رحمٰن نے ایک ہی زمین میں کھارے اور میٹھے پانی کے چشمے جاری کردیئے۔ اسی میں میٹھا اور کھارا پانی نکل رہا ہے، اسی سے تیل اور گیس نکل رہا ہے لیکن سب الگ الگ وہ ایک دوسرے میں ملتے نہیں ہیں۔ یہ بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سمندر اور دریاؤں کے پانیوں سے قیمتی موتی اور مونگے نکلتے ہیں جن سے زیور بھی بنتے ہیں اور تجارت کے کام بھی آتے ہیں۔ سمندر کی چھاتی پر پہاڑوں کی طرح کھڑے ہوئے اور لچتے ہوئے جہاز جن کی سمندر میں ایک تنکے سے زیادہ حیثیت نہیں ہوتی ان کے لئے اللہ موافق ہوا چلا کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس نے انسان کے رزق کا اور آنے جانے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب اس اللہ رحمٰن و رحیم کا کرم ہے جس نے انسانوں اور جنات کو ان نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ فرمایا کہ اے جن و انس تم اللہ کی کس کس نعمت کا انکار کرسکتے ہو ؟ یہ ہر نعمت اسی کی عطا کی ہوئی ہے۔ ان آیات سے متعلق چند باتیں (1) ان آیات میں پہلے تعلیم قرآن کا اور پھر انسان کی پیدئاش کا ذکر کیا گیا ہے۔ کلام کی اس ترتیب سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت قرآن کریم اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ اگر ایک شخص اللہ کے پاک کلام کی پوری طرح اتباع کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے مقصد تخلیق کی تکمیل کرتا ہے بلکہ دنیا اور آخرت کی ہر بھلائیا ور خیر کا اپنے آپ کو مستحق بنا لیتا ہے۔ 2) اس نے بولنا اور کلام کرنا سکھایا۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور، سمجھ، دانائی و فراست کی دولت سے انسان کو نوازا ہے۔ انسان سوچتا ہے ، سمجھتا ہے، تجربے کر کے نئی سے نئی بات پیدا کرتا ہے اور اپنے دل کی ہر بات اور اپنے دماغ اور تجربات کی ہر سوچ اور عمل کو الفاظ کے سانچوں میں ڈھال کر بیان کردیتا ہے۔ دلی جذبات کا زبان سے اظہار اتنی بڑی نعمت ہے جو اس کائنات میں کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ہے۔ اس جگہ اس کی تعلیم دی گئی ہے کہ انس ان کی ہر سوچ اور فکر ضروری نہیں ہے کہ اس کو منزل تک پہنچا دے اگر اس کی سوچ اور فکر کو قرآن کریم کی روشنی اور ہدایت نصیب ہوجائے اور سنت رسول ﷺ سے جلا ملا جائے تو پھر اس سے انساین ذہن و فکر میں وہ انقلاب برپا ہو اجتا ہے جو اس کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و بامراد کردیتا ہے۔ صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺ کی صحبت اور تعلیم و تربیت کی برکت سے جب اپنے جذبات کے اظہار کے لئے قرآن کریم کی زبان مل گئی تو انہوں نے زبان وبیان سے ساری دنیا میں بےمثال انقلاب برپا کر کے ساری دنیا کے اندھیروں کو دور کردیا تھا۔ 3) تجارتی بد دیانتی بھی کفر و شرک کی طرح ایک بدترین عادت ہے۔ حضرت شعیب کی قوم کو تجارت میں بد دیانتی کی وجہ سے تباہ و برباد کیا گیا۔ ان کے لئے پیمانے اور ہوتے تھے اور دینے کے کچھ اور فرمایا کہ اللہ نے کائنات میں جس تو ازن کو قائم کیا ہے اور ہر چیز سے عدل و انصاف کیا ہے تم بھی ان اصولوں کا خیال رکھو۔ جن لوگوں کے حقوق تمہارے ہاتھوں میں سونپے گئے ہیں اگر تم نے ان میں بےاعتدالی، بےانصافی اور ظلم و زیادتی کو رواج دیا تو نہ صرف قانون فطرت سے بغاوت ہوگی بلکہ عذاب اور سزا کا سبب بھی ہو سکتی ہے۔
Top