بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
(خدا جو) نہایت مہربان
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، رحمٰن نے جس کو چاہا قرآن سکھلایا انسان یعنی جنس انسان کو پیدا فرمایا اس کو گفتگو کرنا سکھلایا سورج اور چاند مقررہ حساب سے چلتے ہیں اور بلیں یعنی وہ گھاس جس کا تنا نہ ہو اور شجر یعنی تنے دار درخت، جو ان سے مطلوب ہے اس کے تابع ہیں، اور اسی نے آسمان کو بلند وبالا کیا اور میزان رکھ دی یعنی انصاف قائم کیا تاکہ تم لوگ تول میں تجاوز نہ کرو اور تاکہ انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو یعنی وزن میں کمی نہ کرو اور مخلوق یعنی جن و انس وغیرہ کے لئے زمین بچھا دی جس میں میوے ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جو معلوم ہیں جن کے (پھلوں) پر غلاف ہوتا ہے (اکمام) شگوفہ کا غلاف، اور غلہ جیسا کہ گندم اور جو بھوسے والے اور پتوں والے (یا) خوشبو والے پھول پیدا کئے تو اے جن اور انسانو ! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ (یہ آیت) 31 مرتبہ ذکر کی گئی ہے اور استفہام اس میں تقریر کے لئے ہے، جیسا کہ حاکم نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو سورة رحمٰن پوری پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا کیا بات ہے کہ میں تم کو خاموش دیکھ رہا ہوں ؟ جنات جواب کے اعتبار سے یقینا تم سے بہتر تھے، میں نے جب بھی ان کو یہ آیت فبای الآء ربکما تکذبان پڑھ کر سنائی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ولا بشیء من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد نہ کہا ہو (اے ہمارے پروردگار ہم تیری کسی نعمت کی بھی تکذیب (ناشکری) نہیں کرتے، تیرے ہی لئے سب تعریفیں ہیں) اسی نے انسان آدم کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح کھنکتیھی پیدا کیا (یعنی) ایسی خشک مٹ سے جس میں آواز تھی جب بجایا جائے اور وہ ایسی مٹی ہے جس کو پکایا گیا ہو اور جنات کو (یعنی) ابو الجن کو اور وہ ابلیس ہے خالص آگ سے پیدا کیا، اور مارج آگ کا وہ شعلہ جس میں دھواں نہ ہو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ وہ دونوں مشرقوں سردیوں کی مشرق اور گرمیوں کی مشرق اور اسی طرح دونوں مغربوں کا رب ہے تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ شور اور شیریں دو دوریائوں کو جاری کیا جو بظاہر ملے ہوئے ہیں، حقیقت میں ان دونوں کے درمیان آڑ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی آڑ ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے، یعنی ان دونوں میں سے کوئی دوسرے پر تجاوز نہیں کرسکتا کہ اس سے خلط ملط ہوجائے تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منر ہوجائو گے ؟ اور ان دونوں سے یعنی دونوں کے مجموعہ سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں مجموعہ کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے اور وہ (دریائے) شور ہے یخرج معروف اور مجہول دونوں ہے (لولو) بڑے سرخ موتی (مرجان) چھوٹے موتی تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اللہ ہی کی ملک ہیں وہ جہاز (کشتیاں) جو دریا میں پہاڑوں کے مانند بلند ہیں، بلند اور عظیم ہونے میں پہاڑوں کے مانند ہیں تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الرحمن مبتداء مابعد اس کی خبر، تعدید اور اقامت حجتہ کے طور پر خبر بغیر عطف کے متعدد بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ یہاں بغیر عطف کے خبر متعدد ہیں، الرحمٰن مبتداء اور مابعد اس کی خبر، یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جو الرحمن کو پوری آیت نہیں مانتے اور جو لوگ پوری آیت مانتے ہیں ان کے نزدیک الرحمٰن مبتداء محذوف کی خبر ہے یا اللہ الرحمٰن یا الرحمن مبتداء ہے اور ربنا اس کی خبر محذوف ہے۔ قولہ : من شاء اس عبارت کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ علم متعدی بدومفعول ہے اور مفعول اول اس کا محذوف ہے۔ قولہ : النطق گویائی، اظہار مافی ال ضمیر، یہ قوت حیوانات میں نہیں ہے۔ قولہ : بحسبان یہ حسب کا مصدر مفرد ہے بمعنی حساب جیسا کہ غفران و کفران اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حساب کی جمع ہو جیسا کہ شہاب کی جمع، شھبان اور غیف کی جمع رغفان (چپاتی) مطلب یہ ہے کہ شمس و قمر مقررہ حساب سے اپنے اپنے برجوں میں چلتے ہیں سر موانحراف نہیں کرتے۔ قولہ : آفتاب کا قطر 866500 (آٹھ لاکھ چھیاسٹھ ہزار پانچ سو میل) ہے، اور وہ تیرہ لاکھ زمینوں کے مساوی ہے، آفتاب زمین کے مانند ٹھوس نہیں ہے اور نہ پانی کی طرح سیال بلکہ پانی سے ڈیڑھ گنا کثیف ہے (پتے شہد کے مانند) (فلکیات جدیدہ) ۔ (واللہ اعلم بالصواب) قولہ : ای لاجل ان لاجوروا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ الا طغوا میں ان مصدریہ ہے نہ کہ نافیہ اور ان سے پہلے لام علت مقدر ہے۔ قولہ : اکمام، اکمام جمع کم بمعنی شوگفہ کا غلاف، جھلی۔ قولہ : الآء نعمتیں واحد الی والی جیسے معنی و حصی والی الی قولہ : رب المشرقین، رب کے رفع کے ساتھ، رفع کی تین وجہیں ہوسکتی ہیں (1) یہ کہ رب المشرقین بترکیب اضافی مبتداء اور مرج البحرین اس کی خبر اور مبتداء خبر کے رمیان جملہ معترضہ ہو (2) یہ کہ رب المشرقین مبتداء محذوف کی خبر، ای ھو رب المشرقین (3) یہ کہ خلق کے فاعل سے بدل ہو اور بعض حضرات نے من ربکما سے بدل مان کر مجرور بھی پڑھا ہے۔ قولہ : یلتقیان یہ بحرین سے حال ہے۔ قولہ : مجموعھما الصادق یا حدھما شارح کا یہ فرمانا کہ دونوں کے مجموعہ پر بھی واحد کا اطلاق صحیح ہے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ مجموعہ سے بعض اسی وقت مراد لینا صحیح ہے جبکہ بعض سے متعدد مراد ہوں ورنہ تو جمع بول کر واحد مراد لینا درستن ہیں ہے۔ تفسیر و تشریع نام : اس سورت کا نام ” سورة رحمٰن “ ہے، جو کہ پہلے ہی لفظ سے ماخوذ ہے، حدیث میں اس کو عروس قرآن بھی کہا گیا ہے آپ نے فرمایا لکل شی عروس و عروس القرآن، الرحمن (خازن) اس سورت کے مکی، مدنی ہونے میں اختلاف ہے، امام قرطبی نے چند روایات حدیث کی وجہ سے مکی ہونے کو ترجیح دی ہے، ابن جوزی نے کہا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، مگر علماء تفسیر اس سورت کو بالعموم مکی قرار دیتے ہیں، اگرچہ بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عکرمہ ؓ اور قتادہ سے یہ قول منقول ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، لیکن اول تو ان بزرگوں سے بعض دوسری روایات اس کے خلافھی منقول ہیں دوسرے اس کا مضمون مدنی سورتوں کی بہ نسبت مکی سورتوں سے زیادہ مشابہ ہے، ترمذی میں حضرت جابر ری اللہ تعالیٰ عنہ سے روای ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے سورة رحمٰ پوری تلاوت فرمائی لوگ سن کر خاموش رہے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے لیلتہ الجن میں جنتا کے سامنے یہ سورت تلاوت کی تو اثر قبول کرنے کے اعتبار سے وہ تم سے بہتر رہے کیونکہ جب میں قرآن کے اس جملہ پر پہنچتا تھا فبای الآء ربکما تکذبان تو جنات سب کے سب بول اٹھتے تھے (لابشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مکی ہے کیونکہ لیلتہ الجن کا واقعہ مکہ میں پیش آیا تھا۔ سیرت ابن ہشام کی ایک روایت : اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، ابن اسحٰق حضرت عمروہ بن زبیر سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک روز صحابہ کرام نے آپس میں کہا کہ قریش نے کبھی کسی کو علانیہ با آواز بلند قرآن پڑھتے نہیں سنا ہے، ہم میں کون ہے جو ان کو ایک دفعہ یہ کلام پاک سنا ڈالے ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا میں یہ کام کرتا ہوں صحابہ نے کہا ہمیں ڈر ہے کہ وہ تم پر زیادتی کریں گے، ہمارے خیال میں کسی ایسے شخص کو یہ کام کرنا چاہیے کہ جس کا خاندان زبردست ہو، تاکہ اگر قریش کے لوگ اس پر دست درازی کریں، تو اس کے خاندان والے اس کی حمایت پر اٹھ کھڑے ہوں، حضرت عبداللہ نے فرمایا مجھے یہ کام کر ڈالنے دو ، میرا محافظ اللہ ہے پھر وہ دن چڑھے حرم میں پہنچے، جبکہ قریش کے سردار وہاں اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عبداللہ نے مقام ابراہیم پر پہنچ کر پورے زور سے سورة رحمٰن کی تلاوت شروع کردی، قریش کے لوگ پہلے تو سوچتے رہے کہ عبداللہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ پھر جب انہیں پتہ چلا کہ یہ وہ کلام ہے جسے محمد ﷺ خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں تو وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر تھپڑ مارنے لگے مگر حضرت عبداللہ نے پرواہ نہ کی، پٹتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے، جب تک ان کے دم میں دم رہا قرآن سناتے چلے گئے، آخر کار جب وہ اپنا سو جا ہوا منہ لیکر پلٹے تو ساتھیوں نے کہا ہمیں اسی چیز کا ڈر تھا، انہوں نے جواب دیا آج سے بڑھ کر یہ خدا کے دشمن میرے لئے کبھی ہلکے نہ تھے، تم کہو تو کل پھر ان کو قرآن سنائوں، سب نے کہا بس اتنا ہی کافی ہے، جو کچھ وہ نہیں سننا چاہتے تھے وہ تم نے انہیں سنا دیا۔ (سیرت ابن ہشام : جلد اول ص 336) شان نزول : کہا گیا ہے کہ الرحمٰن علم القرآن اہل مکہ کے اس قوت کے جواب میں نازل ہوئی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اس کو کوئی بشر سکھلاتا ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ان کے اس قول کے جواب میں نازل ہوئی وہ کہا کرتے تھے کہ رحمٰن کیا ہے ؟ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نعمتیں شمار کرائی ہیں، علم القرآن میں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں میں جو سب سے بڑی نعمت ہے اس کے ذکر سے ابتداء کی ہے اور وہ نعمت قرآن ہے اس لئے کہ قرآن پر دارین کی سعادت کا مدار ہے۔ (فتح القدیر شو کانی) علم القرآن کے فقرے سے آغاز کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ نہ تو یہ کلام آپ کا خود طبع زاد ہے اور نہ کسی انسان وغیرہ کا سکھلایا ہوا، بلکہ یہ اللہ الرحمٰن کا تعلیم فرمودہ ہے۔
Top