بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
رحمن
1:۔ النحاس نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة الرحمن مکہ میں نازل ہوئی۔ 2:۔ ابن مردویہ (رح) نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ سورة الرحمن مکہ میں نازل ہوئی۔ 3:۔ ابن مردویہ (رح) نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ سورة الرحمن مکہ میں نازل ہوئی۔ 4:۔ ابن الضریس وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة الرحمن مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ 5:۔ احمد وابن مردویہ (رح) نے سند حسن کے ساتھ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا اور آپ رکن کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور مشریکن سن رہے تھے اور جب آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اس کا کھلم کھلا اعلان کریں یہ کہ اس سے پہلے کی بات ہے (آیت) '' فبای الآء ربکما تکذبن '' ( سو اے جن وانس تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے) 6:۔ الترمذی وابن المنذر وابوالشیخ نے العظمہ میں والحاکم وصححہ وابن مردویہ (رح) والبیہقی (رح) نے دلائل میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کرام کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس سورة رحمن اس کے اول سے آخر تک پڑھی صحابہ کرام ؓ رہے آپ نے فرمایا میں تم کو خاموش دیکھ رہا ہوں تحقیق میں نے لیلۃ الجن میں جنات پر اس سورة کو پڑھا تو انہوں نے تم سے اچھا جواب دیا جب بھی میں اس (آیت) '' فبای الآء ربکما تکذبن '' پر پہنچا تو وہ کہے اے ہمارے رب ہم تیری نعمت میں سے کسی چیز کو نہیں جھٹلاتے اور تیرے لئے ہی سب تعریف ہے۔ 7:۔ البزار وابن جریر وابن المنذر والدارقطنی فی الافراد وابن مردویہ والخطیب نے اپنی تاریخ میں صحیح سند کے ساتھ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة رحمن کو اپنے صحابہ کرام پر پڑھاتو وہ خاموش رہے پھر آپ نے فرمایا کیا ہے میرے لئے کہ میں تم سے زیادہ حسین و خوبصورت جواب جنات کو اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہوئے سن رہا ہوں جب میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر پہنچا (آیت) '' فبای الآء ربکما تکذبن '' پر آتا تھا تو وہ کہتے تھے اے ہمارے رب ! ہم آپ کی نعمتوں میں سے کسی چیز کو نہیں جھٹلاتے اور آپ کے لئے ساری تعریفیں ہیں۔ سورئہ رحمن قرآن کی دلہن : 8:۔ البیہقی (رح) نے شعب الایمان میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر چیز کی ایک دلہن ہوتی ہے اور قرآن مجید کی دلہن سورة الرحمن ہے۔ 9:۔ البیہقی (رح) اور احمد نے فاطمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورة حدید اور (آیت ) '' اذا وقعت الواقعہ '' اور الرحمن کے پڑھنے والے کو آسمان اور زمین کی بادشاہی میں ساکن الفردوس (یعنی جنت الفردوس کا رہنے والا) پکارا جاتا ہے۔ علامہ بیہقی (رح) نے فرمایا یہ روایت ضعیف ہے۔ 10:۔ احمد (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی سب سے پہلی مفصل سورة سورة الرحمن ہے۔ 11:۔ ابوداؤد والبیہقی (رح) نے اپنی سنن میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا میں نے مفصل سورة ایک رکعت میں پڑھی ہے انہوں نے فرمایا کی یہ سورة اس شعر کی طرح ہے لیکن نبی کریم ﷺ تو اس قسم کی دوسورتین ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ یعنی '' سورة الرحمن '' اور '' نجم '' کو ایک رکعت میں '' واقترب اور والحاقۃ '' کو ایک رکعت میں '' عم '' اور '' والمرسلات '' کو ایک رکعت میں اور کبھی '' والدخان '' اور اذا الشمس کورت '' کو ایک رکعت میں اور کبھی '' سأل سائل '' اور والنازعات کو ایک رکعت میں اور کبھی '' ویل اللمطففین '' اور عبس '' کو ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ 12:۔ الحاکم نے تاریخ میں اور بیہقی (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نو رکعتوں کے ساتھ نماز وتر بنالیتے تھے جب آپ بوڑھے اور بوجھل ہوگئے تو سات رکعت کے ساتھ وتر بنالیتے تھے اور آپ دو رکعت پڑھتے تھے اس حال میں کہ آپ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ اور آپ ان دونوں رکعتوں میں سورة الرحمن اور سورة واقعہ پڑھتے تھے۔ 13:۔ ابن حبان (رح) نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سورة رحمن پڑھائی پھر میں شام کے وقت کو مسجد کی طرف نکلا تو میری طرف ایک جماعت بیٹھ گئی میں نے ایک آدمی سے کہا مجھ پر یہ سورة پڑھو تو جب اس نے اس طرح حروف پڑھتے جو میں نے نہیں پڑھے تھے تو میں نے اس سے پوچھا تجھے کس نے پڑھایا ہے ؟ اس نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا ہم دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے میں نے عرض کیا ہم دونوں نے اپنی قرأت میں اختلاف کیا ہے (یہ سن کر) اچانک رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ نے اپنے دل میں خاص تکلیف پائی جب اختلاف کا ذکر کیا گیا پھر آپ نے فرمایا تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے پھر آپ ﷺ نے علی ؓ کو حکم فرمایا اور فرمایا بیشک رسول اللہ ﷺ تم کو حکم فرماتے ہیں کہ ہر آدمی تم میں سے اس طرح پڑھے جیسے ایسے پڑھایا گیا کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے، عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا (اس کے بعد) ہم چلے گئے اور ہم میں سے ہر آدمی اس طرح کے حروف پڑھ رہا تھا کہ اس کے ساتھی کی قرأت اس سے مختلف تھی۔ قولہ تعالیٰ : (آیت ) '' الرحمن (1) علم القران (2) (الآیہ) 14:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' خلق الانسان (3) علمہ البیان (4) '' (اس نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو بولنا سکھایا) یعنی آدم کو (آیت ) '' علمہ البیان '' یعنی اس کے لئے ہدایت کا راستہ اور گمراہی کا راستہ بیان کردیا۔ 15:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' الرحمن (1) علم القران '' (رحمن نے قرآن سکھایا) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے (آیت ) '' خلق الانسان '' (انسان کو پیدا فرمایا) یعنی آدم (علیہ السلام) کو (آیت ) '' علمہ البیان '' (بیان کرنا سکھایا) یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا اور آخرت کا بیان سکھایا اس کے حلال اور اس کے حرام کو بیان فرمایا تاکہ وہ اس کے سبب انسان پر حجت قائم کرسکے، اور اللہ تعالیٰ کی حجت غالب ہے۔ اس کے بندوں پر (اور فرمایا) (آیت ) '' الشمس والقمر بحسبان '' (سورج اور چاند حساب کے ساتھ چلتے ہیں) یعنی سورج اور چاند مقرر مدت تک حساب کے ساتھ (چلتے ہیں )
Top