بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
اللہ جو نہایت مہربان ہے
رب جس نے انسان کو پیدا کیا اس کی تمام ضروریات پوری کردیں تشریح :۔ رحمن اللہ کا صفاتی نام ہے اور یہ صفاتی نام پورے قرآن پاک میں تقریبا 55 مقامات پر آیا ہے۔ یہ اس کی رحمن ہونے کی دلیل ہے کہ جو اس نے مخلوقات کو بنایا۔ راہ ہدایت دکھانے کے لیے قرآن نازل فرمایا اور پوری کائنات کو اپنے رحم و کرم سے بھر دیا۔ اس کا رحم و کرم ہر ایک کے لیے برابر ہے۔ چاہے کوئی کافر ہو مسلم ہو، نیک ہو یا بد ہو، متقی ہو یا گنہگار ہو۔ غرض اس کی عنایات سے ہر کوئی فیض یاب ہو رہا ہے۔ اور یہ بھی اس کے رحمن ہونے کا ثبوت ہے کہ اس نے علم سکھایا۔ قرآن پاک جس میں پوری کائنات تمام تخلیقات کے ہر قسم کے علوم بیان کردیے گئے ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے سیرت النبی کو ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ تو کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ ہرگز نہیں بیشک انسان کو گویائی کی طاقت دے کر علم و ارادہ کی آزادی دے کر تمام مخلوقات پر فضیلت دی گئی پھر آخری نبی ﷺ آخری کتاب اور آخری دین، دین کامل دیکر مسلمان کو تمام ادیان کے پیرو کاروں پر فضیلت دی گئی ہے۔ یہ سب اللہ کے رحمن ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اور یہ سورج چاند جو اتنہائی منظم طریقہ سے چل رہے ہیں اور ہر طرح کی نباتات جو اس کے بتائے ہوئے مقرر کئے ہوئے اصول و ضوابط کے ماتحت چل رہے ہیں یہ سب اللہ کی عبادت کا ایک طریقہ ہے جو عبادت کے لیے ان کو بتا دیا گیا ہے۔ جس فرمانبرداری سے چاند سورج ستارے اپنی اپنی گردش میں مصروف ہیں یہی ان کی طاعت گزاری ہے اسی طرح پھل، پھول درخت پودے سب ہی اس کے بنائے ہوئے قوانین پر سختی سے کاربند ہیں اور یہی ان کی عبادت ہے اللہ کے حضور۔ اب آسمان کا ذکر ہو رہا ہے فرمایا ' اور اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان رکھی۔ (آیت 7) یہ آیت آسمان کی وسعت بلندی اور ایک خاص نظام فلکیات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ سلطان بشیر محمود صاحب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں۔ ' اس آیت مبارکہ سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آسمانوں کی وسعت کی بھی ایک کم سے کم حد ہوگی جس کے اندر توازن ممکن ہے اور اسی طرح ایک زیادہ سے زیادہ حد بھی ہوگی جہاں سے آگے توازن بگڑنے لگے۔ تو یہ انتہائی مناسب انتظام سوائے رب رحمن کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ (از قیامت اور حیات بعد الموت) ۔ یہاں انسان کی زندگی میں توازن اور اعتدال پسندی کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ پھر زمین کی عظیم نعمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہ اسی میں سے ہماری ضروریات کے تمام پھول پھل اور اناج پیدا ہوتا ہے۔ جو کہ اپنی افادیت شکل و صورت، رنگ و مزہ اور خوشبو میں بالکل مختلف اور انتہائی نازک بناوٹ رکھتے ہیں۔ ان کو غور سے دیکھنے پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تو اللہ فرماتا ہے ' بھلا بتاؤ تو تم دونوں گروہ (جن وانس) کہ تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (آیت 13) اس سورت میں جنوں اور انسانوں کو اکٹھا مخاطب کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے۔ بیشک جن و انسان دو مختلف مخلوقات ہیں مگر حساب کتاب دونوں کا برابر لیا جائے گا تو ظاہر ہوا کہ انسانوں کی طرح جن بھی نیک و بد ہوتے ہیں مگر ان میں سے بنی نہیں بنائے گئے بلکہ ان کو آسمانی کتابوں سے ہی ہدایات لینے کا سسٹم بنایا گیا ہے۔ جنات میں یہ خاصیت اللہ نے رکھی ہے کہ وہ اپنی ظاہری شکل و صورت تبدیل کرلینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر قوت میں یہ انسانوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور مزدوری قسم کا کام جس میں جسمانی طاقت لگتی ہو خوب اچھا کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کی طبیعت میں خیر کی نسبت شر زیادہ ہوتی ہے اور مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں یعنی انسانوں کی طرح ان میں بھی مسلمان، عیسائی، کافر اور مشرک جن ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس پوری سورت میں جن و انس کو برابر برابر مخاطب کیا گیا ہے۔ فرمایا : اور یہ کہ ہم میں کچھ نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں۔ (سورۃ الجن :11) جن بھی ایک مخلوق ہے اس کے بارے میں قرآن پاک میں بیشمار آیات آچکی ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ان کی تصدیق ہوچکی ہے مثلاً حضرت سلیمان بن صرد ؓ کہتے ہیں۔ ' میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی باہم گالی گلوچ کر رہے تھے یہ دیکھ کر حضور ﷺ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا، میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اس کو کہہ دے تو اس کا غصہ جاتا رہے وہ یہ ہے ' میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔ (ازبخاری، مسلم 31/8) لہٰذا جنات کے بارے میں جو جھوٹے سچے قصے مشہور ہیں تو اب قرآن و حدیث پڑھنے کے بعد سچ ہمارے سامنے آگیا ہے۔ کہ روحانی مخلوقات چار قسم کی ہیں۔ (1) فرشتے (2) انسان (3) جن (4) شیطان۔ قرآن پاک اور احادیث نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ انسان مٹی سے فرشتے نور سے اور جن و شیطان آگ سے پیدا کئے گئے۔ اگلی آیات اسی کی تصدیق میں ہیں ملاحظہ ہو۔
Top