بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
رحمان نے
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة الرحمن ہے جو اس کے پہلے لفظ سے ماخوذ ہے صرف ایک آیت کے سوا یہ ساری سورة مکی دور میں نازل ہوئی اس سورة کی اٹھہتر آیات اور تین رکوع ہیں اور یہ سورة 351 الفاظ اور 1636 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة مکی سورتوں میں عام طور پر بنیادی عقائد ہی کا ذکر ہے۔ ان سورتوں میں احکام کا سلسلہ حال ہے۔ مکی دور میں چونکہ اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہی نہیں رکھی جاسکی تھی ، لہٰذا اس دوران زیادہ تر اخلاق اور عقائد کی اصلاح پر توجہ دی گئی ہے چناچہ اس سورة مبارکہ میں بھی یہی پہلو غالب ہے۔ اس زمانے میں عرب میں شرک کی مختلف قسمیں رائج تھیں یا بالکل کفر تھا۔ اللہ نے مکی سورتوں میں کفر اور شرک کی قباحت کو مختلف طریقوں سے سمجھا کر اس کی تردید فرمائی ہے ، اور توحید کی دعوت دی ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ نبوت اور رسالت کا تھا۔ وہ لوگ حضور ﷺ کو اللہ کا نبی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اللہ نے اس مسئلہ کی بھی وضاحت کی ہے۔ پھر وقوع قیامت ، بعت بعد الموت اور جزائے عمل کے مسئلہ کو سمجھایا ہے کیونکہ عرب کے لوگ اس کا بھی انکار کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے شکوک و شبہات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا آخری پروگرام ہے جس میں پوری انسانیت کی فلاح مضمر ہے۔ اللہ نے اس کے وحی الٰہی ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس کی حقانیت کو بیان کیا ہے۔ غرضیکہ اس سورة مبارکہ میں زیادہ تر تمام انبیاء کے مشترکہ بنیادی اصولوں کا ہی تذکرہ ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط گذشتہ سورة القمر میں انداز کا پہلو غالب تھا۔ اللہ نے سابقہ پانچ نافرمان اقوام کا ذکر کرکے ان کی ہلاکت کے واقعات بیان فرمائے ، اور ساتھ ساتھ عبرت دلانے کے لیے اس جملے کو بار بار دہرایا ولقد یسرنا القراٰن للذکر فھل من مذکرٍ البتہ تحقیق ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ مطلب یہ تھا کہ قیامت آنے والی ہے ، پھر حساب کتاب کی منزل بھی آئے گی اور پھر جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے لہٰذا آج موقع ہے کہ قرآن جیسی عظیم نعمت سے نصیحت حاصل کرلو ، اور آخرت کی سزا سے بچ کر اللہ کی رحمت کے مقام میں داخل ہونے کا بندوبست کرلو۔ نیز یہ بھی باور کرانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو نافرمانوں کو اس دنیا میں بھی سزا دینے پر قادر ہے ، اور پھر آخرت کا عذاب تو دائمی ہے گذشتہ سورة کے آخر میں اللہ نے متقین کے انعامات کے ضمن میں فرمایا فی مقعد صدق عند ملیکٍ مقتدرٍ کہ ایسے لوگ سچی بیٹھک میں بڑی قدرت رکھنے والے بادشاہ کے پاس ہوں گے۔ اب یہاں اس سورة کا آغاز لفظ الرحمن سے ہورہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کمالِ قدرت کا کمال اور مجرموں کو سزا دینے پر قادر ہے ، وہی خداوند کریم نہایت مہربان بھی ہے۔ چناچہ اس سورة مبارکہ میں خدا تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں کا ذکر کرکے انسانوں اور جنوں کو ترغیب دلائی گئی ہے اور ساتھ ساتھ انداز بھی کیا گیا ہے کہ تم ان نعمتوں کو کیسے جھٹلا سکتے ہو۔ غرضیکہ پچھلی سورتوں کے لفظ مقتدر سے سزا کی طرف اشارہ ملتا ہے جب کہ الرحمن سے شفقت و مہربانی کا اظہار ہوتا ہے۔ دونوں سورتوں کا آپس میں اس طرح سے ربط ہے۔ خواصِ سورة قرآن پاک کا یہ اسلوب ہے کہ بعض سورتوں میں بعض جملوں کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ جس سے سورة میں بیان کردہ مضمون کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ چناچہ گذشتہ سورة القمر میں یہ آیت بتکرار آتی ہے ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مذکرٍ اور البتہ تحقیق ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے ، پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ سورة الشعراء میں یہ آیت بار بار آتی ہے ان ربک لھوا العزیز الرحیم بیشک تیرا پروردگار غالب اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سورة المرسلت میں ویل یومذ للمکذبین والی آیت بار بار آئی ہے ، یعنی اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔ اسی اسلوب بیان کے مطابق اللہ نے اس سورة مبارکہ میں اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ آیت بار بار دہرائی ہے فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس اے جنو ! اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ بعض روایات میں آتا ہے لکلٍ شیء عروس و عروس القرآن سورة الرحمن ہر چیز کی کوئی عروس ہوتی ہے اور قرآن کی عروس سورة الرحمن ہے۔ اللہ نے اس سورة کے ذریعے قرآن کو زینت بخشی ہے۔ انعامات الٰہیہ سورة کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے الرحمن خدائے رحمان جو بیحد مہربان ہے۔ اسی لفظ سے اللہ تعالیٰگ کے بیحد و بیشمار انعامات کی طرف اشارہ ملتا ہے جو اس نے اپنی مخلوق اور خاص طور پر انسانوں پر کیے ہیں ، آگے مکرر آنے والی آیات میں الاء کا لفظ آرہا ہے جو الی یا الی کی جمع ہے اور اس معنی نعمت ہے۔ ان انعامات میں مادی ، انعامات بھی ہیں جن کو ہر شخص استعمال میں لاتا ہے اور حسی بھی جنہیں بآ سانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بعض انعامات ظاہری ہیں جن سے ہر نیک و بد آدمی مستفید ہوتا ہے اور بعض انعامات باطنی یا معنوی ہیں جن میں سے بلند ترین انعام اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم ہے جو اللہ نے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ انسان اپنے جسم پر غور کرے کہ یہ کس قدر حقیر اور ناتواں چیز ہے۔ اللہ نے فرمایا لخلق السموٰت والارض اکبر من خلق الناس ( المومن۔ 57) ارض و سما کی تخلیق لوگوں کی تخلیق سے بہت بڑی چیز ہے انسان تو ایک کیڑے مکوڑے کی طرح ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر اللہ نے اسے ایک ایسی نعمت عطا فرمائی ہے جس کو ارض و سما اور پہاڑ بھی اٹھانے سے عاجز ہیں۔ کہاں یہ کمزور انسان اور کہاں یہ اللہ کی عظیم نعمت۔ قرآن حکیم ایسا بحرناپید اکنار ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات میں سے سب سے پہلے اسی نعمت کا ذکر کیا ہے۔ قرآن بطور معجزہ فرمایا خدائے رحمان ، بیحد مہربان وہ ذات ہے علم القرآن جس نے انسان کو قرآن سکھایا ، حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے نبیوں کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا کیا ہے لیکن مجھے جو خاص معجزہ عطا فرمایا گیا ہے وہ وحی اوحی اللہ الی اللہ نے میری طرف وحی کے ذریعے نازل فرمایا ہے اور وہ قرآن حکیم ہے جو روحانی اور علمی معجزہ ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ دیگر انبیاء کے معجزات تو ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔ مگر میرا معجزہ تا قیام قیامت قائم رہے گا۔ دوسرے الفاظ میں میرے دعویٰ نبوت کی یہ دلیل ہے جو ہر وقت قائم و دائم ہے لہٰذا اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اس عظیم نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں جس نے انہیں قرآن جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی۔ قوتِ گویائی کی نعمت فرمایا خدائے رحمان ، بیحد مہربان وہ ذات ہے خلق الانسان جس نے انسان کو پیدا کیا علمہ البیان اور اسے بولنا سکھایا۔ انسان کو اللہ نے قوت ِ گویائی عطافرمائی جو اس کی مابہ الامتیاز چیزوں میں سے ہے۔ قوتِ گویائی جیسی عظیم نعمت کے ذریعے انسان اپنا ماضی الضمیر بیان کرسکتا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو انسان جانوروں کی طرح گونگا ہوتا ، نہ اپنی خوشی اور غمی کا اظہار کرسکتا۔ نہ اپنی تکلیف بیان کرسکتا اور نہ اپنی ضروریات طلب کرسکتا۔ تمام علوم وفنون کا اظہار زبان کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح لطیف احساسات اور باریک چیزوں کا اظہار بھی زبان ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ یہی قوت گویائی کبھی شعرو ادب کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ کبھی فلسفہ و حکمت کی باتیں بتاتی ہے اور کبھی مثال اور کہانی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے انسانوں اور عام جانوروں میں یہ بہت بڑا امتیاز ہے اور انسان کے لیے باعث تفوق ہے۔ آفاقی نعمتیں اس کے بعد اللہ نے بعض آفاقی نعمتوں کا ذکر ہے الشمس والقمر حسبان سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں نظام شمسی قائم کرکے مخلوق پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ دن رات کے تغیرو تبدل تیز روشنی اور مدہم روشنی ، سردی اور گرمی ، بہار اور خزان سب سورج اور چاند کے ایک مربوط نظام کے ساتھ منسلک ہونے کا مرہون منت ہے۔ اللہ نے شمس و قمر کو ایک خاص نظام کے تحت اپنی ڈیوٹی پر لگا دیا ہے جسے وہ انجام دے رہے ہیں اجرام فلکی کی گردش میں اگر ذرا بھی فرق پڑجائے گا تو کائنات کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے بہر حال اللہ نے سورج اور چاند کو مخلوق کو مصلحت کی خاطرپیدا کیا ہے جو کہ بہت بڑی نعمت ہے۔ پھر فرمایا والنجم والشجر یسجدن اور پودے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں شجر نبانات کی وہ قسم ہے جس کا مضبوط تنا ہوتا ہے اور پھر آگے اس کی شاخیں اور پتے وغیرہ ہوتے ہیں۔ البتہ نجم سے مراد پودے یا جڑی بوٹیاں ہیں جن کا تنا نہیں ہوتا بلکہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ فرمایا یہ سب چیزیں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ سورة بنی اسرائیل میں ہے کہ ارض و سما اور اس میں پائی جانے والی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتی ہیں ولکن لا تفقھون تسبیحھم (آیت۔ 44) مگر تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ یہ چیزیں جس طریقے سے سجدہ کرتی ہیں یا اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتی ہیں اس کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا خود یہ چیزیں جانتی ہیں۔ اللہ نے ارض و سما کی تمام چیزیں انسانوں کی مصلحت کے لیے پیدا فرمائی ہیں ، اور یہ اسی کی فرمانبردار ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ میزان علامتِ عدل فرمایا والسماء رفعھا اور آسمان کو بلند کیا ہے۔ اتنی بڑی چیز کو بغیر ستونوں کے کھڑا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی علامت ہے۔ نیز فرمایا وضع المیزان اور اس میں ترازو کو رکھ دیا۔ بعض لوگ اس مقام پر میزان سے عقل مراد لیتے ہیں جس سے نیکی اور بدی کو ، یا صحیح اور غلط کو معلوم کیا جاتا ہے۔ تاہم صحیح بات یہ ہے کہ اس مقام پر میزان سے مراد ترازو ہی ہے۔ گویا اللہ نے آسمان کو بلند کیا ، اس میں ترازو مقرر کیا ، اور فرمایا الا تطغوا فی المیزان ترازو میں سرکشی اختیار نہ کرو یعنی حد سے نہ بڑھو۔ واقیمو الوزن بالقسط اور وزن کو انصاف کے ساتھ قائم رکھو ولا تخسروا المیزان اور تول میں کمی نہ کرو۔ بظاہر آسمان کی بلندی اور ترازو کے درمیان کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہورہا ہے۔ تو انہی انعامات میں ترازو بھی ایک اہم انعام ہے جو کہ عدل کی علامت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ترازو سے صرف تولنے والا ترازو مراد نہیں بلکہ اس میں ماپ تول کے تمام پیمانے گز ، میٹر ، لیٹر ، کلو گرام وغیرہ شامل ہیں تو جس طرح ماپ تول میں کمی بیشی نہیں کرنی چاہئے۔ اسی طرح زندگی کے ہر معاملہ میں عدل کو قائم رکھناچاہئے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ دنیا کا اجتماعی نظام عدل پر ہی قائم ہوتا ہے اور اس کے بغیر معاشرتی نظام بگڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف لعنت برسنے لگتی ہے۔ لہٰذا عدل بہت بڑی صفت اور بڑی ضروری چیز ہے۔ تو عدل کے قیام کے لیے اللہ نے ترازو کو قائم کیا ہے اور ترازو میں سرکشی یہ ہے کہ ماپ و تول میں کمی بیشی کی جائے۔ اور خسارا یہ ہے کہ دیتے وقت کم دو جیسے سورة المطففین میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ویلل للہ للمطففین الذین اذا کتالوا علی الناس یستوفون واذا کالو ھم او وزنوھم یخسرون ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے۔ جو لوگوں سے ناپ کر تو پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو کم دیں۔ دنیا میں یہ بیماری اکثر پائی جاتی ہے جو عدل و انصاف کے منافی ہے۔ بعض اوقات باٹوں میں کمی کردی جاتی ہے اور کبھی پیمانے چھوٹے بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تولتے وقت ڈنڈی ماری جاتی ہے دوسرے کو نقصان پہنچانے کا جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے وہ قابل مذمت ہے۔ ہر حقدار کو اس کا حق لازماً ملناچاہئے۔ اسی لیے اللہ نے ترازو کو مدار عدل بنایا ہے۔ زمین کے فوائد آگے اللہ نے ایک اور انعام کا ذکر فرمایا ہے والارض وضعھا للا نام اللہ نے زمین کو مخلوق کے لیے بچھایا ہے۔ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے لوگوں کے چلنے پھرنے اور کام کاج کرنے کے لیے اس کو ہموار بنایا ہے۔ یہ نہ تو اتنی نرم ہے کہ انسان اس میں دھنس جائیں اور نہ اتنی سخت ہے کہ کھیتی باڑی اور دوسری ضروریات کے لیے کام نہ آسکے۔ لوگ اپنی ضرورت کے لیے اسے آسانی سے کھو د سکتے ہیں۔ اس کی مٹی کو عمارات کی تعمیر میں استعمال کرتے ہیں۔ اور اس سے لوہا ، کوئلہ ، تیل ، پانی اور دیگر مع دنیات نکالتے ہیں۔ جو معاشرتی زندگی کے لیے نہایت ہی کارآمد ہیں۔ اب مخلوق میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنات ، جانور ، کیڑے مکوڑے ، درندے ، پرندے اور لاکھوں اقسام کے آبی جانور بھی آتے ہیں۔ ان تمام جانداروں کی زندگی زمین کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ زمین نہ صرف زندہ مخلوق کی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی انسان کو یہی اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے منھا خلقنکم و فیھا نعیدکم ومنہا نخرجکم تارۃً اخرٰی ( طہٰ ۔ 55) ہم نے اسی زمین سے تمہیں پیدا کیا ، اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور پھر اسی سے دوسری دفعہ قیامت کو نکالیں گے۔ فرمایا فیھا فاکھۃ اسی زمین میں ہم نے پھل رکھے ہیں جنہیں انسان کھاتے ہیں والنخل ذات الاکمام اور کھجوریں بھی اسی زمین سے پیدا ہوتی ہیں جن کے پھل پر غلاف چڑھا ہوتا ہے۔ کم دراصل اس ڈوڈی کو کہتے ہیں جن کے اندر پھل ہوتا ہے اس سے وہ غلاف بھی مراد ہوسکتے ہیں جو کھجوروں یا دیگر پھلوں پر چڑھا دیے جاتے ہیں۔ تاکہ پرندے نقصان نہ پہنچا سکیں۔ بہرحال فرمایا کہ انسان کی خوراک بننے والے تمام پھل زمین سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ والحب ذوالعصف اور بھوسے والے دانے بھی اسی زمین کی پیداوار ہیں اناج کی مختلف قسموں کے دانے بھوسے کے اندر بند ہوتے ہیں جنہیں اتار کر غلہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور پھر یہی بھوسہ یا چھلکا جانوروں کی خوراک بن جاتا ہے۔ نیز فرمایا والریحان اور خوشبو دار پودے بھی زمین ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ریحان کا عام معنی تو خوشبو دار پودا ہی ہوتا ہے جیسے نیازبو وغیرہ ، تاہم اس سے رزق بھی مراد لیا جاتا ہے جس میں ہر قسم کا اناج اور پھل بھی آجاتے ہیں۔ ان تمام علوی اور سفلی انعامات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے جنوں اور انسانوں کی انواع سے خطاب کرکے فرمایا فبایّ الاء ربکما تکذبٰن تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ مذکورہ نعمتوں سے مستفید ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور ان میں قرآن کریم جیسی روحانی نعمت تو بےمثال نعمت ہے۔ اللہ نے انسانوں اور دیگر مخلوق پر اس قدر انعامات فرماتے ہیں کہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کا کماحقہ شکر ادا ہی نہیں کرسکتا۔
Top