بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
اس بےحد رحم والے نے۔
1۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ : اس سورت کا آغاز اللہ کے مبارک نام ”الرحمن“ کے ساتھ ہوا ہے اور پوری سورت اس کی بےحد و بےحساب رحمت کی تفصیل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر ہر نعمت کا ذکر کر کے بار بار اپنا احسان یاد دلایا ہے۔ ان نعمتوں میں وہ نعمتیں بھی ہیں جو دنیا میں تمام لوگوں پر کی گئی ہیں اور وہ بھی جو صرف ایمان والوں پر ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی نعمت دین کا ذکر سب سے پہلے فرمایا ہے، کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی اسی پر موقوف ہے اور دین کا مدار قرآن مجید پر ہے ، اس لیے فرمایا (اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ)”اس بےحد رحم والے نے یہ قرآن سکھایا۔“ 2۔”اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ“ میں نعمت کے بیان کے ساتھ کفار کے اس بہتان کا رد بھی ہے کہ (انما یعلمہ بر) (النحل : 103) یعنی آپ ﷺ کو کوئی بشر ہی سکھاتا ہے۔ فرمایا ، آپ کو سکھانے والا کوئی بشر یا کوئی اور ہستی نہیں ، بلکہ دورحمن ہی ہے جس نے آپ کو قرآن سکھایا۔ ابن عاشور نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ مسند کو فعل کی صورت میں مسند الیہ کے بعد تخصیص کا فائدہ دینے کے لیے لایا گیا ہے۔ کیونکہ کفار کا کہنا تھا کہ قرآن کسی اور نے آپ کو سکھایا ہے ، گویا وہ یہ مان گئے کہ یہ آپ نے خود نہیں بنایا بلکہ کسی اور نے آپ کو سکھایا ہے ، مگر وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ آپ کو قرآن سکھانے والا اللہ تعالیٰ ہے ، اس لیے فرمایا :”اس رحمان ہی نے (آپ کو) یہ قرآن سکھایا ہے۔“”علم القرآن“”الرحمن“ مبتداء کی پہلی خبر ہے ، اس کے بعد مسلسل تین خبریں ہیں جو حرف عطف کے بغیر لائی گئی ہیں۔ ان نعمتوں کے اس اندازے میں ذکر کرنے سے جہاں ان نعمتوں کا اظہار ہو رہا ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ یہ نعمتیں رحمان ہی نے عطاء کی ہیں ، انہیں عطاء کرنے میں کسی اور کا نہ کوئی دخل ہے نہ کسی قسم کی شرکت ہے۔ مشرکین یہاں تک تو مانتے تھے ، مگر اس سے لازم آنے والی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ جب یہ سب نعمتیں رحمان ہی کی ہیں تو عبادت بھی اسی کی ہے۔ گویا نعمتوں کے شمار کرنے میں مشرکین کو ان کی غلطی پر تنبیہ اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ 3۔”عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ“ میں ’ ’ علم“ کا ایک مفعول ”القرآن“ ذکر فرمایا ہے کہ اس رحمن نے یہ قرآن سکھایا ، دوسرا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کسے سکھایا ؟ یہ حذف فرما دیا ہے ، تا کہ عام رہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا، اس محذوف سے مراد نبی کریم ﷺ ہی ہیں ، مگر بہتر ہے کہ اسے عام رکھا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کو قرآن کی تعلیم دی ، مگر ظاہر ہے کہ آپ کے واسطے سے اور بعد میں قرآن کے معلمین کے واسطے سے تمام لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے والی اصل ذات گرامی اللہ تعالیٰ کی ہے ، وہ تعلیم نہ دے تو نہ نبی ﷺ تعلیم دے سکتے ہیں ، نہ صحابہ اور نہ ہی بعد کا کوئی معلم۔ اس لیے تعلیم قرآن کو خاص اللہ تعالیٰ کی نعمت کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ 4۔ اکثر مفسرین نے چونکہ یہاں ”القرآن ‘ ‘ سے مراد رسول کریم ﷺ پر نازل شدہ قرآن کریم لیا ہے ، اس لیے اوپر تفسیر اس کے مطابق کی گئی ہے۔ آیت کے الفاظ میں ایک اور تفسیر کی بھی گنجائش ہے ، وہ یہ کہ ”القرآن“ کا لفظی معنی ”قراۃ“ (پڑھنا) ہے ، جیسا کہ سورة ٔ قیامہ میں فرمایا (فَاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ)”تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر“۔ اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ انسان کو پڑھنے کی تعلیم کی نعمت یاددلا رہے ہیں ، یعنی ”اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ“ کا معنی ہے :”اس رحمن ہی نے پڑھنا سکھایا“۔ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی میں لکھنے کی تعلیم کی نعمت کا ذکر خاص طور پر فرمایا تھا، فرمایا :(اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) (العلق : 3، 4) ”پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا“۔ تو سورة ٔ رحمن میں پڑھنے کی تعلیم کی نعمت کا ذکر فرمایا۔ اس تفسیر کے مطابق یہ نعمت مزید عام ہوجاتی ہے ، جس میں قرآن کا پڑھنا بھی شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنا ، پڑھنا اور بیان تینوں انسان پر اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں میں سے ہیں جو اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ انہی کے ذریعے سے وہ دور و نزدیک دوسرے انسانوں سے رابطہ کرتا ہے، وحی الٰہی سے حاصل ہونے والے علوم کو اور انسانی عقل اور تجربے سے حاصل ہونے والے علوم و فنون کو سیکھتا سکھاتا ہے ، لکھ کر محفوظ کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کو پہنچاتا ہے۔
Top