بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
رحمن نے
ربط سورت اور جملہ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا کے تکرار کی حکمت
اس سے پہلی سورت القمر میں زیادہ تر مضامین سرکش قوموں پر عذاب الٰہی آنے کے متعلق تھے اسی لئے ہر ایک عذاب کے بعد لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے ایک خاص جملہ بار بار استعمال فرمایا ہے، یعنی فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ ، اور اس کے متصل ایمان و اطاعت کی ترغیب کے لئے دوسرا جملہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ بار بار لایا گیا ہے۔
سورة الرحمن میں اس کے مقابل بیشتر مضامین حق تعالیٰ کی دنیوی اور اخروی نعمتوں کے بیان میں ہیں اسی لئے جب کسی خاص نعمت کا ذکر فرمایا تو ایک جملہ لوگوں کو متنبہ کرنے اور شکر نعمت کی ترغیب دینے کے لئے فرمایا فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ، اور پوری سورت میں یہ جملہ اکتیس مرتبہ لایا گیا ہے، جو بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے اور کسی لفظ یا جملے کا تکرار بھی تاکید کا فائدہ دیتا ہے، اس لئے وہ بھی فصاحت و بلاغت کے خلاف نہیں خصوصاً قرآن کریم کی ان دونوں سورتوں میں جس جملے کا تکرار ہوا ہے وہ تو صورت کے اعتبار سے تکرار ہے، حقیقت کے اعتبار سے ہر ایک جملہ ایک نئے مضمون سے متعلق ہونے کی وجہ سے مکرر محض نہیں ہے، کیونکہ سورة قمر میں ہر نئے عذاب کے بعد اس کے متعلق (فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ) آیا ہے، اسی طرح سورة رحمن میں ہر نئی نعمت کے بیان کے بعد (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ) کا تکرار کیا گیا ہے جو ایک نئے مضمون کے متعلق ہونے کے سبب تکرار محض نہیں، علامہ سیوطی نے اس قسم کے تکرار کا نام تردید بتلایا ہے، وہ فصحاء و بلغاء عرب کے کلام میں مستحسن اور شیریں سمجھا گیا، نثر اور نظم دونوں میں استعمال ہوتا ہے، اور صرف عربی نہیں، فارسی، اردو وغیرہ زبانوں کے مسلم شعراء کے کلام میں بھی اس کی نظائر پائی جاتی ہیں، یہ موقع ان کو جمع کرنے کا نہیں، تفسیر روح المعانی وغیرہ میں اس جگہ متعدد نظائر بھی نقل کئے ہیں۔
خلاصہ تفسیر
رحمن (کی بیشمار نعمتیں ہیں ان میں سے ایک روحانی نعمت یہ ہے کہ اسی) نے (اپنے بندوں کو احکام) قرآن کی تعلیم دی (یعنی قرآن نازل کیا کہ اس کے بندے اس کے اوپر ایمان لائیں اور اس کا علم حاصل کر کے اس پر عمل کریں تاکہ دائمی عیش و راحت کا سامان حاصل ہو اور اس کی ایک نعمت جسمانی ہے وہ یہ کہ) اسی نے انسان کو پیدا کیا (پھر) اس کو گویائی سکھلائی (جس پر ہزاروں منافع مرتب ہوتے ہیں، منجملہ ان کے قرآن کا دوسرے کی زبان سے پہنچنا اور دوسروں کو پہنچانا ہے اور ایک نعمت جسمانی آفاقی یہ ہے کہ اس کے حکم سے) سورج اور چاند حساب کے ساتھ (چلتے) ہیں اور بےتنہ کے درخت اور تنہ دار درخت دونوں (اللہ کے) مطیع ہیں (سورج چاند کا چلنا تو اس لئے نعمت ہے کہ اس پر لیل و نہار سردی گرمی، ماہ و سال کا حساب مرتب ہوتا ہے اور ان کے منافع ظاہر ہیں اور درختوں کا سجدہ اس لئے نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں انسان کے لئے بیشمار منافع کی تخلیق فرمائی ہے) اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے آسمان کو اونچا کیا (جس سے علاوہ دوسرے منافع متعلقہ بالسماء کے بڑی منفعت یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر انسان اس کے بنانے والے کی عظمت شان پر استدلال کرے، کما قال تعالیٰ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ الخ) اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے (دنیا میں) ترازو رکھ دی تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو اور (جب یہ ایسی بڑی منفعت کے لئے موضوع ہے کہ یہ آلہ ہے حقوق کے لین دین کو پورا کرنے کا، جس سے ہزاروں مفاسد ظاہری و باطنی دور ہوجاتے ہیں، تو تم اس نعمت کا خصوصیت کے ساتھ شکر کرو اور اس شکریہ میں سے یہ بھی ہے کہ) انصاف (اور حق رسانی) کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو گھٹاؤ مت اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے خلقت کے (فائدہ کے) واسطے زمین کو (اس کی جگہ) رکھ دیا کہ اس میں میوے ہیں اور کجھور کے درخت ہیں جن (کے پھل) پر غلاف (چڑھا) ہوتا ہے اور (اس میں) غلہ ہے جس میں بھوسہ (بھی) ہوتا ہے اور (اس میں) اور غذا کی چیز (بھی ہے) (جیسے بہت سی ترکاریاں وغیرہ) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤں گے (یعنی منکر ہونا بڑی ہٹ دھرمی اور بدیہیات بلکہ محسوسات کا انکار ہے اور ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے انسان (کی اصل اول یعنی آدم ؑ کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح (کھن کھن) بجتی تھی پیدا کیا (جس کا اجمالا چند آیت میں اوپر ذکر کر آیا ہے) اور جناب (کی اصل اول) کو خالص آگ سے (جس میں دھواں نہ تھا) پیدا کیا (اور پھر دونوں نوع میں توالد و تناسل کے ذریعہ سے نسل چلی، شرح اس کو سورة حجر کے رکوع دوم میں آ چکی ہے) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (مراد اس کی اوپر گزری ہے اور) وہ دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا مالک (حقیقی) ہے (مراد اس سے سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا افق ہے اس میں بھی وجہ نعمت ظاہر ہے کہ لیل و نہار کے افتتاح و اختتام کے ساتھ بہت سے اغراض متعلق ہیں) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے دو دریاؤں کو (صورةً) ملایا کہ (ظاہر میں) باہم ملے ہوئے ہیں (اور حقیقۃ) ان دونوں کے درمیان میں ایک حجاب (قدرتی) ہے کہ (اس کی وجہ سے) دونوں (اپنے اپنے موقع سے) بڑھ نہیں سکتے (جس کی شرح سورة فرقان کے ختم سے ڈیڑھ رکوع قبل گزری ہے اور آب شور و آب شیریں کے منافع بھی ظاہر ہیں اور دونوں کے ملنے میں نعمت استدلال بھی ہے) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور بحرین کے متعلق ایک یہ نعمت ہے کہ) ان دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتا ہے (موتی ہوں گے کے منافع اور وجوہ نعمت ہونا ظاہر ہے) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی کے (اختیار اور ملک میں) ہیں جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے (نظر آتے) ہیں (ان کی منفعت بھی ظاہر بلکہ اظہر ہے) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔
معارف و مسائل
سورة رحمن کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے، امام قرطبی نے چند روایات حدیث کی وجہ سے مکی ہونے کو ترجیح دی ہے، ترمذی میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کے سامنے سورة رحمن پوری تلاوت فرمائی، یہ لوگ سن کر خاموش رہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے لیلتہ الجن میں جنات کے سامنے یہ سورت تلاوت کی تو اثر قبول کرنے کے اعتبار سے وہ تم سے بہتر رہے، کیونکہ جب میں قرآن کے اس جملے پر پہنچتا تھا (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ) تو جنات سب کے سب بول اٹھتے تھے (لا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد) " یعنی اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ کی کسی بھی نعمت کی تکذیب و ناشکری نہ کریں گے، آپ ہی کے لئے حمد ہے " اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مکی ہے، کیونکہ لیلتہ الجن وہ رات جس میں آنحضرت ﷺ نے جناب کو تبلیغ وتعلیم فرمائی مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے۔
اسی طرح کی اور بھی چند روایات قرطبی نے نقل کی ہیں جن سے اس سورت کا مکی ہونا معلوم ہوتا ہے اس سورت کو لفظ رحمن سے شروع کیا گیا اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے رحمن سے واقف نہ تھے، اسی لئے کہتے تھے وما الرحمن کہ رحمن کیا چیز ہے، ان لوگوں کو واقف کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے یہاں رحمن کا انتخاب کیا گیا۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آگے جو کام رحمن کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی تعلیم قرآن، اس میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اس تعلیم قرآن کا مقتضی اور سبب داعی صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ورنہ اس کے ذمہ کوئی کام واجب و ضروری نہیں، جس کا اس سے سوال کیا جاسکے اور نہ وہ کسی کا محتاج ہے۔
Top