بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
رحمان ہی نے
ترکیب : الرحمٰن ذھب قوم الی انھا ایۃ فالمبتداء محذوف تقدیرہ اللہ الرحمن۔ وعلیٰ قول الاخرین الرحمن مبتداء ومابعدہ الخبر۔ خلق الانسان مستانف وکذا علمہ و یمکن ان یکون حالامن الانسان وقدمحذوف۔ بحسبان قال الاخفش الحسبان جماعۃ الحساب مثل شھب وشھبان۔ وقیل مصدر مفرد بمعنی الحساب کا لغفران والکفران۔ والجار یتلق بیجریان محذوف۔ والسماء منصوب بفعل محذوف یفسرہ المذکور الاتطغوا لئلاتطغوا فلا نافیہ وتطغوامنصوب بان وقبلھا الام العلۃ مقدرۃ وقیل ان مفسرۃ لان فی الوضع معنی القول۔ تفسیر : جمہور کے نزدیک یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ حسن و عروہ و عکرمہ و جابر و ابن عباس ؓ کا قول ہے اور ابن مسعود و مقاتل ؓ کہتے ہیں مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ اول قول اصح ہے کیونکہ امام احمد و ابن مردویہ نے اسماء بنت ابی بکر صدیق ؓ عنھما سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز میں رکن 1 ؎ کی طرف منہ کئے ہوئے اس سورة کو پڑھتے سنا اور مشرکین بھی فبای آلاء ربکما تکذبان سن رہے تھے۔ یہ اس سے پہلے کا ماجرا ہے کہ حضرت ﷺ کو صاف صاف سنا دینے کا حکم ہوا تھا انتہٰی۔ اس سورة میں بھی انہیں تینوں اہم مسائل کا بڑے لطف و خوبی کے ساتھ اثبات ہے اور کن کن معانی خیز اور دل پر اثر کرنے والے پیارے پیارے الفاظ اور عرب کی میٹھی بول چال میں خاص انہیں کے مذاق کے موافق مکرر جملے لا کر ان کو دل نشین فرمایا ہے۔ شعرائے عرب بلکہ عجم چند اشعار مختلف المضامین کے بعد ایک بندبطور مسدس یا مخمس کے ایک اشتراک خاص ملحوظ رکھ کر مکرر لایا کرتے ہیں جس سے اس مضمون کی خوبی دوبالا ہوجاتی ہے اور طبیعت سامع جو کسی قدر غافل ہوجاتی ہے اس پر ایک کوڑا سا تنبیہ کرنے کے لیے پڑجایا کرتا ہے۔ اس سورت میں وہ بند 1 ؎ فبای آلاء ربکما تکذبان ہے جو ہر ایک جاں بخش مضمون کے بعد مکرر آ کر مطالب میں جان ڈال دیتا ہے۔ اس بات کا لطف انہیں کو زیادہ آتا ہے جو کچھ مذاق سخن بھی رکھتے ہیں۔ عبارت کا دلکش ہونا بھی اثر کلام میں بڑی تاکید کرتا ہے۔ پہلا مسئلہ جو منجملہ اصول کے ایک بڑی اصل ہے اثبات نبوت و قرآن کا منجانب اللہ ہونا اس لیے اس سورة میں سب سے اول کو اس لطف کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔ فقال الرحمن علم القرآن کہ رحمان نے قرآن محمد ﷺ کو سکھایا ہے نہ اس نے اپنے جی سے بنا لیا ہے نہ کسی جن و خبیث کا شیطانی کلام ہے۔ الرحمن میں اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم و نزول اس کی رحمت خاصہ کا مقتضٰی ہے کیونکہ اس وقت مشرق و مغرب تک دنیا تاریک و خراب ہو رہی تھی دنیا گمراہیوں کے دریائے بےکنار میں غوطے کھا رہی تھی اس کی رحمت کب اس ورطہ ہلاکت میں چھوڑتی اس لیے آپ نے قرآن تعلیم کیا جو ان ڈوبتوں کے لیے نجات کی کشتی اور ان اندھیروں کی قعر میں مبتلائوں کے واسطے آفتاب ہدایت ہے۔ اور الرحمن کے مقدم کرنے نے اس بات کو اور بھی واضح کردیا۔ یہ بات بھی ثابت کردی کہ آنحضرت ﷺ جو بظاہر امی تھے یعنی کسی کے شاگرد نہ تھے وہ خاص تلمیذ رحمان تھے۔ خلق الانسان علمہ البیان اس میں اپنی رحمت خاص کا اظہار کرتا ہے کہ انسان کو اس نے اپنی رحمت سے پیدا کیا اور پیدا کر کے دیگر حیوانات کی طرح گونگا نہ چھوڑا بلکہ اپنی مہربانی سے اس کو بولنا سکھایا۔ پھر جس نے انسان کو بولنا سکھایا وہ رحمان بندوں کے درست کرنے کے واسطے محمد ﷺ کو قرآن کیوں نہ سکھاتا ؟ اور تعلیم بیان ہی پر اس کی رحمت کا ظہور منحصر نہیں بلکہ اس نے انسان کے فائدے کے لیے الشمس والقمر بحسبان چاند اور سورج کو حساب میں لگا رکھا ہے یعنی وہ اس معین اور اندازے کی چال سے چلتے ہیں کہ جن سے سال اور مہینوں کا حساب درست ہوتا ہے۔ یوں ہی بےتک حرکت نہیں کرتے ہیں۔ وہ اس کے حکم جبروت کے مسخر ہیں اور یہ گردش ان کی اس معبود حقیقی کا طواف اور قربان ہونا بھی ہے۔ دیکھو یہ انسان کے حق میں بھی اس کی کیسی رحمت ہے اور عالم میں اس کا کیسا حکومت و انتظام جلوہ گر ہے۔ اور انہیں پر کیا موقوف ہے والنجم والشجر یسجدان زمین کی بیلیں اور درخت بھی اس کے آگے جھکتے ہیں۔ نجم اس پیڑ کو کہتے ہیں کہ جو اپنی ساق پر کھڑا نہ ہو بلکہ زمین یا کسی چیز پر پھیلا ہوا ہو اور شجر اس کے برخلاف جو اپنی ساق پر کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے سجدہ کرنے سے مراد ان کا انقیاد فطری ہے۔ حسن و مجاہد کہتے ہیں نجم سے مراد آیت میں آسمان کے ستارے ہیں ان کا سجود بھی وہی انقیاد فطری اور طلوع و غروب ہے۔ والسماء و رفعہا اور آسمان کو بلند کیا۔ یہ بھی منجملہ انتظام عالم کے ایک بات ہے۔ ان سب باتوں میں علویات سے لے کر عالم سفلی تک اس کی رحمت کا ظہور و جبروت کا اعلان تھا اور یہ بات چاہتی ہے کہ ایسا قادر رحیم و کریم اپنے اشرف المخلوقات انسان کو ایسی بری حالت میں کیونکر چھوڑتا اور اس کے پاس نبی و کتاب نہ بھیجتا چناچہ ان سب بیانوں کے بعد آپ ہی اس نتیجہ کو اگلے جملے میں ظاہر فرماتا ہے۔ ووضع المیزان اور اس رحمان نے دنیا میں ترازو یعنی عدل قائم کیا۔ مجاہد و قتادہ و سدی کہتے ہیں میزان سے مراد عدل و انصاف زمین پر قائم کرنا ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھ سے قائم ہوا یعنی قانون انصاف قائم کیا جو بواسطہ وحی والہام انبیاء (علیہم السلام) خدا نے دنیا میں قائم کیا اور یہی وجہ نبوت قائم کرنے کی ہے الاتطغوافی المیزان تاکہ تم اس انصاف کرنے میں حد سے نہ بڑھو ہر شخص اپنے اپنے حقوق پر قائم رہے۔ دوسرے کی حق تلفی نہ کرے۔ باہمی معاملات سے لے کر عبادات و توحید تک۔ وہ قانون الٰہی قرآن مجید ہے جس میں سب معاملات و عبادات و طہارت و نجاست ‘ بیع و شراء کے قوانین ‘ ماں باپ کے حقوق ‘ تربیت اولاد کے احکام ‘ زن و شو کا دستور العمل ‘ حسن معاشرت کے طریقے ‘ عبادت و تزکیہ نفس کے رستے ‘ دار آخرت کی بقا ‘ دنیا کی فنا ‘ انسانی جذبات کے جزرومد۔ اس کے عمرگراں مایہ کا نتیجہ۔ حاکم و محکوم بادشاہ و رعیت کے ضوابط بخوبی مندرج ہیں اور اس کے علاوہ اس کے بیان میں روحانی برکت اور تحریک دلانے والا بےانتہا اثر بھی ہے۔ 1 ؎ رکن خانہ کعبہ کے ایک گوشہ کا نام ہے۔ 12 منہ 1 ؎ یہ جملہ اس سورة میں اکتیس جگہ آیا ہے آٹھ بار اس کی نعمتیں اور عالم علوی و سفلی کے عجائبات قدرت ذکر کرنے کے بعد اور سات بار بتعداد ابواب جہنم دوزخ کے شداید ذکر کرنے کے بعد کیونکہ مومنین سے ان بلائوں کا دفع کرنا بھی بڑی نعمت ہے اور آٹھ بار دو جنت اور ان کے نعماء اور ان کے رہنے والوں کے حسن و جمال ذکر کرنے کے بعد بعدد ابواب جنت کہ وہ بھی آٹھ ہیں اور آٹھ بار ان کے سوا اور دو جنتوں کی کیفیات بیان کرنے کے بعد جس میں اشارہ ہے کہ جو کوئی ایمان لائے گا، نیک کام کرے گا وہ دوزخ کے ساتوں دروازوں سے امن میں رہے گا اور دونوں جنتوں کے نعماء حاصل کرے گا اور اس جملہ کے بعد سن کر یہ کہنا چاہیے لابشیء من نعمک ربنا لانکذب فلک الحمد۔ 12 منہ
Top