بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
(خدا جو) نہایت مہربان
انعامات رب جلیل بر انسان بعطاء وصف بیان وتعلیم قرآن وفیضان نعماء جسمانیہ وروحانیہ : قال اللہ تعالیٰ : الرحمن علم القرآن ...... الی ...... فبای الآء ربکما تکذبن “۔ (ربط) سورة قمر میں دلائل نبوت اور معجزات عظیمہ کا بیان تھا اور امم سابقہ کے احوال ذکر فرمائے گئے کہ کس طرح انہوں نے اپنے پیغمبروں کا انکار کیا اور ان پر ایمان نہ لائے جس کے باعث عذاب خداوندی سے انکو ہلاک وبرباد کردیا گیا جس سے مقصود اہل مکہ کو متنبہ کرنا تھا کہ وہ ان احوال وواقعات کو سوچ کر اپنے انجام کے بارے میں بھی خود فیصلہ کرلیں تو اس کے بعد حق تعالیٰ شانہ نے ان انعامات خاصہ کا ذکر فرمایا جو انسان پر کئے گئے ان انعامات میں بالخصوص کائنات کی تخلیق اور ان تمام منافع سے انسان کا منتفع ہونا ذکر فرمایا اور یہ کہ جب حق تعالیٰ نے کائنات کی جملہ منفعتوں سے انسان کو متمتع کیا ہے تو انسانی فطرت اور عقل کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب کی اطاعت و فرمان برداری کرے اور یہ کہ ہر مخلوق اللہ کے حکم کے تابع اور اسی کی مطیع ہے یہ انسان کو اللہ نے خاص شرف عطا کیا ہے کہ وہ اپنے کسب ارا ادہ سے ایمان وہدایت کو اختیار کرکے آخرت کی جزاء اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کا مستحق بنتا ہے تو ارشاد فرمایا۔ رحمن ہی ہے جس نے قرآن سکھایا جو اس کی عطاؤں میں سب سے بڑی عطاء اور نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور رحمت ہے بنایا ہے اسی نے انسان کو پھر سکھایا اسکو بات کرنا اور نطق وگویائی کی نعمت سے سرفراز کیا جس کے باعث وہ اللہ کا کلام پڑھ سکے سیکھ سکے اور تلاوت کرسکے ورنہ تو ممکن نہ تھا کہ انسان کلام الہی کی دولت سے اور نعمت سے منتفع ہوسکے پھر اس قوت گویائی سے یہ انسان کلام الہی کے حقائق ومعارف لوگوں کو سنائے، خیر کی دعوت دے اور شر سے منع کرے تو یہ سب ثمرات قوت گویائی ہی پر مرتب ہیں چاند اور سورج ایک حساب کے ساتھ جاری ہیں اور سبزے اور درخت اللہ رب العزت کے سامنے سجدہ میں مشغول ہیں اس طرح علویات میں چاند سورج اور ستارے اور سفلیات میں نباتات وشجر وحجر سب ہی اللہ کی بندگی میں مصروف ہیں اور کیسی عظیم قدرت ہے اس پروردگار کی جس نے آسمان کو اونچا بنایا اور قائم کردی ترازو اس امر کا مامور پابند کرتے ہوئے کہ زیادتی نہ کرو ترازو میں کیونکہ ترازو اور اداء حقوق میں سرکشی اور زیادتی انسانی زندگی کی فلاح وسعادت کو تباہ کردینے والی چیز ہے اور برابر رکھو ترازو کو انصاف کے ساتھ اور مت گھٹاؤ تول کر خیانت ظلم اور دھوکہ انسانی حقوق کو تباہ وبرباد کردینے والی چیزیں ہیں اس وجہ سے ضروری ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ترازو سیدھی رکھی جائے اور تول میں مشتری کیلئے کسی قسم کی کوئی کمی نہ کی جائے اور زمین کو بچھایا ہے مخلوق کیلئے کہ اس میں میوے اور پھل ہیں اور کھجور کے درخت ہیں غلافوں والے کہ انکے گچھوں پر غلاف ہوتے ہیں پھر اس غلاف کے شق ہونے پر کھجوریں بڑھتی ہیں اور پکتی ہیں اور اسی میں دانے ہیں بھوسے والے یعنی اناج اسی طرح دوسرے حیوب وغلے اور خوشبودار پھول، تو اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کا انکار کروگے ظاہر ہے کہ ایسی نعمتیں جو سورج کی طرح روشن اور انسانی حیات کا مدار ہیں ان کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کیسی عظیم قدرت ہے اس پروردگار کی جس نے انسان کو پیدا کیا ہے خشک کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا گیا اور پیدا کیا جن کو دہکنے والی آگ کی لپٹ سے اور ایسے شعلہ سے جس میں دھوئیں کی آمیزش نہ ہوں تو اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کا انکار کروگے جن وانس کو خلعت وجود سے سرفراز فرمانا اور جمادات ونباتات جیسی لایعقل مخلوق کی بجائے عقل و شعور کی نعمت سے نوازنا یقیناً ثقلین (جن وانس) کے بڑی نعمت ہے۔ حاشیہ (بالعموم ” الآء “ کا ترجمہ نعمتوں سے کیا جاتا ہے اضافہ کردہ الفاظ میں یہ ظاہر کردیا گیا کہ تخلیق انس کے ساتھ جنات کی تخلیق کو بھی اس بناء پر نعمت فرمایا گیا۔ ابن جریر (رح) نے بعض ائمہ سلف سے قدرت اور نشانی کے معنی بھی کئے ہیں تو جن آیت میں جو ترجہ چسپاں ومناسب ہو اختیار کیا جاسکتا ہے اور یہاں دونوں معنی مناسب ہیں۔ ) وہ مالک ہے دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا پھر اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کا انکار کروگے اور ظاہر ہے کہ مشرقین ومغربین کے تغیر وتبدل سے موسموں اور فصلوں کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور تبدیلی موسم سے زمین والوں کو کس قدر فوائد اور منافع حاصل ہوئے ہیں انکی کوئی حدوانتہا نہیں مع ھذا یہ جملہ فوائد ومنافع تبدیلی موسم مشرق ومغرب، سرماوگرما کا فرق حق تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کی بڑی واضح نشانیاں ہیں تو ان عظیم الشان نعمتوں اور بلند پایہ قدرت کی نشانیوں میں سے کوئی بھی نعمت اور کوئی بھی نشانی ایسی نہیں کہ اس کا انکار کیا جاسکے جاری کئے ہیں اس پروردگار نے دو دریا جو آپس میں مل کرچلتے ہیں اس طرح کہ انکے درمیان ایک پردہ حائل ہے کہ ایک دوسرے پر غالب نہیں آتے اور باہم مخلوط نہیں ہوتے بلکہ شور پانی اپنی جانب اسی طرح شور اور کھارا ہے اور میٹھا پانی اپنی سمت اسی طرح میٹھا ہے حالاں کہ پانی کی طبعی خاصیت تقاضا کرتی ہے کہ ایک دوسرے میں خلط ملط ہوجائے اپنے رنگ کے لحاظ سے اور مزے کے لحاظ سے بھی لیکن اس طرح ہر ایک کا اپنے رنگ اور مزے کے اعتبار سے جدا رہنا خدا وند عالم کی قدرت کی عظیم نشانی اور بندوں کے واسطے بڑا ہی انعام ہے۔ 1 حاشیہ (یہی مضمون سورة فرقان کی آیت ”۔ وھو الذی مرج البحرین ھذا فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینھما برزخا وحجرا محجورا “۔ میں بیان فرمایا گیا ہے دلائل قدرت میں بلاشبہ یہ بڑی دلیل ہے کہ دو دریا اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہوں کہ ایک طرف میٹھا پانی اور دوسری طرف کھارا حالانکہ پانی کا مزاج یہ ہے کہ اس کے اجزاء ایک دوسرے میں خلط ملط ہوجائیں جیسے کہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ ایک جگہ پر اگر ایک قسم کے پانی کے ساتھ دوسرے رنگ یا ذائقہ کا پانی جمع ہوجائے تو دونوں مل کر شئی واحد ہوجاتے ہیں اس قسم کے دریاؤں کا مشاہدہ کرنے والوں نے اس بات کی شہادت دی ہے تفسیر بیان القرآن میں دو معتبر بنگالی علماء کی شہادت نقل کی ہے کہ ارکان سے لے کر چاٹگام تک دریا کی یہی شان ہے کہ اسکی دونوں جانبیں بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں ایک جانب پانی سفید ہے اور دوسری جانب پانی سیاہ، سیاہ پانی میں سمندر کی طرح تموج اور جو فانی تلاطم رہتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے اور دونوں کے درمیان ایک سفید دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں رنگوں کے پانی کا ملتقی ہے اور کشتیاں اس پانی میں چلتی ہیں جو سفید ہے سیاہ پانی نہایت کڑوا ہے اور سفید پانی میٹھا ہے۔ (آیت ) ” ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج “۔ کا منظر نظر آتا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) اپنے فوائد میں فرماتے ہیں اور مجھ سے بار یسال (بنگال) کے دو طلبہ نے بیان کیا کہ ضلع باریسال میں دو ندیاں ہیں جو ایک دریا سے نکلتی ہیں ایک کا پانی بالکل کھاری (کڑوا) ہے اور دوسری کا نہایت شیریں یہاں گجرات (یعنی صوبہ بمبی کے علاقہ گجرات) میں راقم الحروف جس جگہ آج کل مقیم ہے (ڈابھیل سملک) سمندر سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ہے ادھر کی ندیوں میں برابر مد وجزر (جوار بھاٹا) ہوتا رہتا ہے بکثرت ثقات نے بیان کیا ہے مد کے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آجاتا ہے تو میٹھے پانی کی سطح پر کھاری پانی بہت زور سے چڑھ جاتا ہے لیکن اس وقت بھی دونوں پانی مخلوط نہیں ہوتے اوپر کھاری پانی رہتا ہے جب مد ختم ہوجاتا ہے تو جزر کے وقت اوپر سے کھاری پانی اتر جاتا ہے اور میٹھا پانی نیچے جوں جا توں باقی رہ جاتا ہے ان شواہد سے خدا کی قدرت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور ہر صاحب عقل اس پر مجبو رہے یہ بھی ممکن ہے کہ ہر دریا اور ہر جگہ کے متعلق اس آیت کو محمول کرلیں تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ حق تعالیٰ نے ہر قسم کے درمیان زمین کی بہت سی جگہ حائل بنادی تاکہ ایک دریا اور سمندر کا پانی دوسرے میں نہ ملے اگر یہ فاصلے نہ رکھے جاتے اور انکو آزاد چھوڑ دیا جاتا تو یقیناً پانی اپنی طیبعت اور مزاج کے باعث ایک دوسرے میں مل جاتے 12) نکلتے ہیں ان دونوں سے موتی اور مونگا پھر بتاؤ کہ اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اور اسی کے واسطے ہیں وہ جہاز اور کشتیاں جو ابھرنے والی ہیں سمندر میں پہاڑوں کی طرح کہ دیکھنے والا ان جہازوں اور کشتیوں کو دور سے دیکھ کر یہی محسوس کرتا ہے کہ یہ پہاڑ اور جھنڈیاں ہیں جو سطح سمندر پر قائم ہیں تو اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اور یہ کس قدر عظیم انعام ہے کہ خدا وند عالم نے انسان کو ایسی صلاحیت اور عقل وفکر سے نوازا کہ وہ جہاز اور کشتیاں بنائے اور انکو سمندر میں چلائے بلاشبہ نہ انسان اللہ رب العزت کی ایسی بلند پایہ نعمتوں کا انکار کرسکتے ہیں اور نہ جن اپنے رب کی نعمتوں کو جھٹلاسکتے ہیں۔ مؤلف ترجیح اسالیب القرآن ایک موقع پر یہ نقل کرتے ہیں کہ کسی عالم کو ایک مرتبہ ادلہ کلامیہ میں کچھ شک اور تردد واقع ہوا تو اللہ رب العزت سے دعا کی کہ اے پروردگا کوئی ایسی دلیل القاء فرما دے کہ اس میں کسی فلسفی کو کوئی شبہ نہ ہوسکے اور نہ کسی قسم کی وہ تشکیک جاری کرسکے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص قرآن کریم کی تلاوت کررہا ہے اور یہ آیت پڑھ رہا ہے۔ ؛ (آیت ) ” مرج البحرین یلتقین بینھما برزخ لا یبغین “۔ فورا مطمئن ہوگئے اور سمجھ لیا کہ واقعۃ یہ استدلال ایسی حجت قاطعہ ہے کہ اسے بارے میں کوئی دھریہ اور منکر خدا ذرا بھی تردد و تامل کی گجائش نہیں نکال سکتا اور اس آیت نے طبیعین کے شبہ کا قلع قمع کردیا کہ پانی کی طبعیت تو اختلاط واتصال اور امتزاج ہے تو سوائے قدرت خداوند کے کون چیز دونوں دریاؤں کے پانی کو ایک دوسرے میں خلط ملط ہونے سے روکنے والی ہے تعالیٰ اللہ تعالیٰ وجلت قدرتہ : انعام خدا وندی بصورت وجود انسانی وعطاء صفات و کمالات ایمانی : سورة مبارکہ کی ابتدا انسانی زندگی کے لئے ایک ایسی بڑی اور بلند پایہ نعمت کے ذکر سے فرمائی جارہی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ممکن نہیں وہ قرآن کریم اور کلام ربانی کا علم ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور دین ودنیا کی سعادت حاصل کرنے کیلئے عطاء فرمایا۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) فرماتے ہیں جو اسکے عطا یا میں سب سے بڑا عطیہ اور اس کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور رحمت ہے۔ انسان کے بساط اور اسکے ظرف پر خیال کرو اور علم قرآن کے اس دریائے ناپیدا کنار کو دیکھو بلاشبہ ایسی ضیعف البنیان ہستی کو آسمانوں پہاڑوں سے زیادہ بھاری چیز کا حامل بنادینا رحمن ہی کا کام ہوسکتا ہے ورنہ کہاں بشر اور کہاں خدا کا کلام سورة النجم میں (آیت ) ” علمہ شدید القوی “۔ فرمایا تھا یہ جبرئیل امین (علیہ السلام) شدید القوی تھے جن کے توسط سے قرآن نازل ہوا مگر اصل اور اصلی معلم اللہ رحمن ہی ہے اسی نے انسان کو قرآن کے علوم سے آشناد آگاہ بنایا۔ اس موقعہ پر حق تعالیٰ شانہ نے اپنے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے تخلیق انسان کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد (آیت ) ” علمہ البیان “۔ فرما کر انسان میں نطق وبیان کی صلاحیت عطا فرمانے کا ذکر فرمایا، ظاہر ہے یہ دونوں عطائیں بہت ہی بڑی ہیں ایجاد یعنی وجود عطا کرنا بڑی نعمت کیا بلکہ یہ تو نعمتوں کی اساس اور جڑ ہے ان کلمات میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ ایجاد اور عطاء وجود کی دو قسمیں ہیں ایک ایجاد ذات اور دوسری ایجاد وصفت کے اللہ نے آدمی کو پیدا فرمایا اور پھر اس میں بیان اور اپنی ما فی الضمیر کی وضاحت کی صفت رکھی کہ بڑی ہی فصاحت وبلاغت او حسن و خوبی سے وہ اپنا مدعا اور مافی الضمیر ظاہر کرسکے اسی صفت کے ذریعہ وہ قرآن سیکھ سکتے ہے اور دوسروں کو سکھا سکتا ہے اور اس طرح وہ خیر وشر اور ہدایت وگمراہی کو پہچان سکتا ہے اور دوسروں کو بتا دیا سکتا ہے اور خیر وہدایت کی دعوت دے سکتا ہے شر اور گمراہی سے بچا جاسکتا ہے اور یہی سب کچھ قرآنی علوم ہیں اور اسی میں انکی عافیت وعزت ہے اور یہی سب کچھ امن عالم کا باعث ہے اسی میں ہر فلاح وسعادت مضمر ہے تو یہ انسان جس کے واسطے ساری کائنات پیدا کی ہے وہ اپنی سعادت و فلاح کے حصول لئے قرآنی ہدایت کا محتاج تھا اور یہی کلام ربانی امن عالم کا باعث تھا تو کس قدر عظیم انعام الہی ہوا کہ انسان کو پیدا کرکے قرآن بھی نازل فرمایا ورنہ انسان اگر بغیر قرآن ہوتا تو کبھی ہدایت اور خیر کے امور عالم میں نظر نہ آسکتے گمراہی اور شروفساد کی زندگی ہوتی اور انسان انسان ہونے کی بجائے درندے اور بہائم وچوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر ہوتے اسی وجہ سے جو انسان قرآنی ہدایت سے بےرخی کریں ان کے حق میں فیصلہ ہوگیا (آیت ) ” اولئک کالانعام بل ھم اضل “۔ نجم وشجر کی تفسیر : ابن جریررحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ نجم وشجر کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کے مختلف اور متعدد اقوال منقول ہیں یہ بات تو تمام ائمہ لغت اور تفسیر کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ شجر بمعنی درخت ہے تو اپنے تنے پر قائم اور زمین سے بلند ہونجم کے بارے میں ابن ابی طلحہ ؓ عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ سبزہ جو زمین پر پھیلا ہوا ہو یا جس میں ہر طرف سبزہ ہو اور وہ بیلیں جو زمین پر پھیلی ہوئی ہوں داخل ہیں۔ سعید بن جبیر (رح)، سفیان ثوری (رح) اور سدی (رح) سے بھی اسی طرح منقول ہے اور خود ابن جریر (رح) نے بھی اس معنی کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے لیکن قتادہ (رح) اور مجاہد (رح) یہ کہتے ہیں کہ نجم آسمان کے ستارہ کو کہتے ہیں مجاہد (رح) اور حسن بصری (رح) کا بھی یہی قول ہے اور عرف کی رو سے بھی یہی معنی ظاہر ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی کو اختیار کیا پہلی تفسیر کے پیش نظر ان دو کا ذکر شمس وقمر کے مقابلہ میں ہونے کا یہ مفہوم ہوگا کہ جس طرح علویات میں شمس وقمر مقرر کردہ حساب کے مطابق چلتے ہیں اور اس طرح یہ ظاہر ہورہا ہے کہ تکوینی طور سے وہ اللہ کے حکم کے سامنے مطیع وفرماں بردار۔ چھوٹے جھاڑ زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں ہوں یا قد آور درخت ہر ایک اللہ کے سامنے سرنگوں ہے جیسا کہ آیت مبارکہ (آیت ) ” الم تر ان اللہ یسجدلہ من فی السموت ومن فی الارض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدوآب وکثیر من الناس “۔ وضع میزان کا مفہوم : (آیت ) ” والسمآء رفعھا ووضع المیزان “۔ آسمان کی بلندی کا ذکر فرماتے ہوئے وضع میزان کو بیان فرمایا گیا آسمان اور آسمان پر نظر آنے والے شمس وقمر اور نجوم کا ذکر فرما کر اپنی قدرت عظیمہ ظاہر فرمائی جارہی ہے ساتھ ہی مخاطب کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ وہ شمس وقمر اور ستاروں کے نظام پر نظر ڈالے اور فلکیات پر غور کرے تو حق تعالیٰ شانہ کی قدرت عظیمہ کا مشاہدہ ہوگا اور یہ دیکھے گا کہ کس حسن اسلوب کے ساتھ یہ سب نظام قائم ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خلل نہیں تو اسی طرح اللہ رب العزت نے زمین والوں کے واسطے نظام عدل قائم رکھنے کے واسطے ترازو اتاری ہے جسکے ذریعے عدل و انصاف قائم کیا جاسکتا ہے اور عدل و انصاف ہے جو بذریعہ ترازو ظائم ہوتا ہے ا سے زمینی نظام حیات اسی حس اسلوب سے چل سکتا ہے جس خوبی اور حسن اسلوب کے ساتھ یہ سب نظام قائم ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خلل نہیں تو اسی طرح اللہ رب العزت نے زمین والوں کے واسطے نظام عدل قائم رکھنے کے واسطے ترازو اتاری ہے جس کے ذریعے عدل و انصاف قائم کیا جاسکتا ہے اور عدل و انصاف ہے جو بذریعہ ترازواتاری ہے جس کے ذریعے عدل و انصاف قائم کیا جاسکتا ہے جس خوبی اور حسن اسلوب سے فلکیات کا نظام چل رہا ہے گویا اللہ رب العزت نے آسمان سے زمین تک ہر چیز کو حق اور عدل کی بنیاد پر بہترین توازن اور تناسب کے ساتھ قائم فرمایا ہے اگر عدل اور حق ملحوظ نہ رہے تو کائنات کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے اس لئے ضروری ہے کہ بندے بھی حق اور عدل کی راہ پر قائم رہیں اور انصاف کی رازو اٹھنے یا جھکنے نہ دیں نہ کسی پر زیادتی کریں نہ کسی کا حق دبائیں۔ حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ عدل ہی سے زمین و آسمان قائم ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کو ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب امانت کا ضیاع ہوجائے گا یہ اس تقدیر پر ہے کہ وضع میزان سے اقامت عدل کا مفہوم لیاجائے ممکن ہے ترازو سے حسی اور ظاہری ترازو مراد ہو اور ترازو ہی سے معاملات کی درستگی اور حقوق کی حفاظت وابستہ ہے تو ہدایت فرما دی گئی کہ یہ اسی صورت میں ہے کہ ترازو میں کسی قسم کا جھکاؤ اور ابھار نہ ہو نہ لیتے وقت زیادہ تو لو اور نہ دیتے وقت کم تو لو ترازو کے دونوں پہلے یعنی لینے اور دینے کے برابر رکھو آیات سابقہ میں جس طرح دو دو چیزوں کے جوڑے بیان کئے گئے یہاں بھی آسمان کی بلندی کے ساتھ (آیت ) ” والارض وضعھا للانام “۔ میں زمین کی پستی بیان فرما دی گئی اور یہ احکام وہدایات بلاشبہ مخلوق کی عافیت وبقاء کا عظیم سامان ہیں تو ان چیزوں کو بھی ذکر فرما کر ارشاد فرمایا (آیت ) ” فبای الآء ربکما تکذبن “۔
Top