Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
14۔ 25۔ ترمذی نسائی ‘ مسند بزار وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ﷺ کا پتلا بنانے کے لئے پہلے مٹی لی پھر اس میں پانی ملا کر چھوڑ دیا کہ سیاہ رنگ کا بودار گارا ہوگیا اور یہاں تک سوکھا کہ ٹھیکرے کی طرح ہوگیا۔ ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ سورة آل عمران ‘ سورة حج ‘ سورة و الصفات اور اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے پتلے کی مختلف حالتیں جو فرمائی ہیں یہ حدیث ان سب حالتوں کی تفسیر ہے جس سے معلوم ہوا کہ ان سورتوں کی آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے بلکہ ان چند حالتوں میں سے کسی آیت میں کوئی حالت ہے اور کسی میں کوئی اور۔ حقیقت میں وہ سب حالتیں ایک ہی پتلے کی ہیں۔ ان آیتوں میں پتلے کی آخری حالت کا ذکر ہے اور سورة ال عمران میں ابتدائی حالت کا اور سورة حجر اور والصافات میں درمیانی دو حالتوں کا۔ مارج دہکتی ہوئی آگ کا وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو۔ جاڑے کا مشرق و مغرب الگ ہے جس سے دن چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور گرمی کا الگ جس سے دن بڑھ جاتا ہے ان آیتوں میں دونوں کا ذکر ہے۔ دریا سے مقصود میٹھی ندیاں اور سمندر ہے اور یہی حال زمین کے اندر کا ہے کہ کھودنے سے کہیں میٹھا پانی نکلتا ہے اور کہیں کھاری اور قدرت کی روک کے سبب سے ایک دوسرے پر غالب نہیں آتا۔ سورة فرقان میں اس کی تفصیل زیادہ ہے۔ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ سمندر میں جہاں میٹھی ندیاں گرتی ہیں وہاں موتی اور مونگا پیدا ہوتا ہے اس لئے دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے کا نکلنا فرمایا۔ جہازوں اور کشتیوں کو پہاڑوں سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خشکی میں پہاڑ قدرت کا نمونہ ہیں اسی طرح دریا میں جہاز اور کشتیاں۔ پھر فرمایا زمین پر جو کچھ ہے وہ ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ اس سب کے پیچھے فنالگی ہوئی ہے باقی رہنے والی وہی ایک ذات وحدہ لاشریک ہے اب جس کی قدرت میں انسان کا پیدا کرنا اور فنا کرنا ہے اسی نے یہ جتلایا ہے کہ دنیا کا یہ سب کارخانہ اس نے بےفائدہ نہیں پیدا کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ دنیا میں جو نیکی و بدی ہو رہی ہے ہر نیک و بد کے مرجانے کے بعد پھر انسان کو دوبارہ پیدا کرکے نیکی و بدی کی جزا و سزا کا فیصلہ ایک دن کیا جائے گا جو لوگ اس کے منکر ہیں انہوں نے دنیا کی حالت پر اچھی طرح غور نہیں کیا۔ صاحب غور وہی ہیں جنہوں نے دنیا کو چند روزہ سمجھ کر یہاں کچھ ایسا کرلیا جس سے دوبارہ زیست میں ان کو سرخروئی حاصل ہو۔ ترمذی 1 ؎ اور ابن ماجہ کی شداد بن اوس کی حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ سمجھ دار وہی شخص ہے جو دنیا میں موت کے بعد کا کچھ سامان کرلے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ (1 ؎ ترمذی شریف ص 82 ج 2۔ )
Top