Fi-Zilal-al-Quran - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گارے سے بنایا
خلق ............ کالفخار (55:4 1) وخلق ............ نار (55:5 1) فبای ........ تکذبن (55: 61) ” انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گارے سے بنایا اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔ پس اے جن وانس ، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے ؟ “ پیدا کرنا اور ایجاد کرنا ، اصول نعمت میں سے ہے۔ وجود اور عدم کے درمیان جو فاصلے ہیں ان کو ان پیمانوں میں سے کسی پیمانے کے ساتھ نہیں ناپا جاسکتا جو انسان کے ادراک میں ہیں۔ اس لئے کہ انسانوں کی دسترس میں جو پیمانے ہیں یا جن کا ادراک ان کی عقلوں نے کرلیا ہے وہ ایسے پیمانے ہیں جو ایک موجود اور دوسرے موجود کے درمیان فرق کرنے کے پیمانے ہیں۔ رہی یہ بات کے موجود اور غیر موجود کے درمیان کیا فرق ہے اور کس قدر فاصلے ہیں۔ ان کو انسان نہیں جان سکتا۔ یہی حال جنوں کا بھی ہے۔ ان کے پیمانے بھی مخلوقات کے پیمانے ہیں۔ جب اللہ انسانوں اور جنوں کو یاد دلاتا ہے کہ میں تمہیں عدم سے وجود میں لایا ہوں تو یہ ایک ایسی نعمت ہے جو حد ادراک سے ماورا ہے۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق کسی مواد سے ہوئی اور جنوں کی تخلیق کسی مواد سے ہوئی۔ انسان کو اللہ نے۔ صلصال (55:4 1) سے بنایا ، صلصال (55:4 1) اس مٹی کو کہتے ہیں جو سوکھ جائے اور جب اس پر ضرب لگائی جائے تو اس سے آواز صلصلہ نکلے۔ ہوسکتا ہے کہ جس وقت انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا اس کی پیدائش کے مراحل میں سے یہ ایک مرحلہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ انسان کے مادہ تخلیق اور مٹی کے مادہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ” جدید سائنس نے تو یہ بات ثابت کردی ہے کہ جسم انسانی کے اندر وہی مواد ہے جو مٹی کے اندر ہے۔ انسان کاربن ، آکسیجن ، ہائیڈروجن ، فاسفورس ، گندھک ، کیلشیم ، پوٹاشیم ، سوڈیم کلورائیڈ ، میکگنیشیم ، آئرن ، مینگنیز ، تانبے ، لیڈ ، فلورین ، کو بالٹ ، زنک ، سلیکان اور ایلومینم سے مرکب ہے اور یہی وہ عناصر ہیں جن سے زمین بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ ایک انسان اور انسان کے اندر ان کی نسبت مختلف ہوتی ہے اور انسان اور مٹی کے اندر بھی نسبت کا اختلاف ہے۔ البتہ عناصرو اصناف ایک ہی ہیں۔ “ (” اللہ اور سائنس “ صفحہ 081) لیکن سائنس نے جو بات کی ہے یہ لازمی نہیں ہے کہ آیت کی تفسیر بھی وہی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ قرآن کی مراد یہی ہو جو سانس نے ثابت کیا ہے یا وہ ہو جو سائنس دانوں کو بھی معلوم نہ ہو اور کچھ اور ہو۔ یا اس سے دوسرے معنوں میں انسان کو خالی مخلوق کہا گیا ہو اور طین اور صلحال کے کچھ اور ہی معانی مراد ہوں۔ ہم نے جس چیز کا بڑی شدت سے انتباہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی آیت کو ان مفہومات تک محدود نہیں کرنا چاہئے جو جدید سائنس نے دریافت کئے ہیں کیونکہ انسانی انکشافات صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی ہوسکتے ہیں اور تغیر اور تبدل قبول کرتے ہیں۔ جوں جوں انسان کے وسائل علم بڑھتے ہیں انسانی نظریات میں تغیر وتبدل ہوتا رہتا ہے۔ بعض مخلص لوگ قرآنی آیات کو بہت جلد سائنسی مفہومات کے مطابق بنانے کی سعی کرتے ہیں ، خواہ یہ مفاہیم تجرباتی ہوں یا فرضی ہوں اور ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ قرآن کا اعجاز ثابت کیا جائے۔ اس لئے کہ قرآن سائنس کے خلاف ہو یا موافق ہو وہ اپنی جگہ معجزہ ہے۔ قرآن کے نصوص کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے اور اس کو کسی ایک وقت کے انکشافات تک محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ انکشافات ہر وقت اپنے اندر غلطی کا احتمال رکھتے ہیں بلکہ بعض اوقات سرے سے نظریات باطل ہوجاتے ہیں۔ جدید سائنسی معلومات سے ہم صرف اس قدر استفادہ کرسکتے ہیں کہ ہم ان کے ذریعہ آیات کے مفہوم ومدلول کو اپنے تصور میں وسیع کردیتے ہیں بشرطیکہ وہ ان مفہومات کی طرف اشارہ کررہی ہوں جن کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے لیکن کبھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ قرآن کا مفہوم وہی ہے جس تک ہمارے انکشافات پہنچ گئے ہیں۔ جواز اس قدر ضرور ہے کہ ہم کہیں کہ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ جنوں کو آگ کی لپٹ سے تخلیق کیا گیا ہے تو یہ مسئلہ انسانوں کے حدود علم سے باہر ہے۔ جنوں کے صرف وجود کی اطلاع قرآن نے دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ آگ سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ مارج کے معنی آگ کے شعلوں کی وہ لپٹ ہے جو زبان کی طرح ہوتی ہے اور یہ ہوا سے بنتی ہے اور جن اسی زمین پر انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں جن اور ان کی نسل کس طرح رہتی ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔ یقینی بات یہی ہے کہ ان پر لازم ہے کہ وہ قرآن اور شریعت پر عمل کریں جیسا کہ اس سے قبل ہم نے۔ واذا ............ القران (اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تیری طرف جنوں کے کچھ افراد کو پھیر دیا اور وہ قرآن سننے لگے) کی تفسیر میں کہا ہے اور جنوں اور انسانوں دونوں کو اس آیت میں خطاب کیا گیا ہے کہ اللہ کی کن کن انعامات کی تم تکذیب کروگے۔ دونوں کی اللہ نے تخلیق کی اور تخلیق کرنا اور وجود بخشنا وہ نعمت ہے جس پر تمام نعمتوں کا دارومدار ہے۔ چناچہ اس پورے پیراگراف پر یہ شہادت قائم کی جاتی ہے۔
Top