Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اللہ نے پیدا کیا انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح سے تھی،
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے اور جنات کو خالص آگ سے پیدا فرمایا یہ تین آیتوں کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں انسان کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا اور یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا یعنی ابوالبشر سید نا آدم (علیہ السلام) جو سب سے پہلے انسان اور سب انسانوں کے باپ ہیں ان کا پتلا مٹی سے بنایا یہ پہلے صرف مٹی تھی اس میں پانی ملا دیا گیا توطین یعنی کیچڑ بن گئی پھر اس سے پتلا بنایا گیا اور وہ سوکھ گیا تو صلصال ہوگیا جیسا فخار ہوتا ہے فخار اس چیز کو کہتے ہیں جو کیچڑ والی مٹی سے بنائی گئی ہو، جب وہ سوکھ جائے تو اس میں انگلی مارنے سے آواز نکلتی ہے اس آواز دینے والی مٹی کو ﴿صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ0014 ﴾ فرمایا، حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق پر مختلف ادوار گزرے تھے اس کی تفصیل کے لیے سورة الحجر کے تیسرے رکوع کی تفسیر دیکھ لی جائے۔ (انوار البیان صفحہ 183: ج 5) جنات کا جو سب سے پہلا باپ تھا اس کے بارے میں فرمایا کہ جان کو خالص آگ سے پیدا فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ جیسے حضرت آدم ابوالبشر (علیہ السلام) ہیں ایسے ہی جان ابوالجن یعنی جنات کا باپ ہے اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ ابلیس شیطان تمام جناب کا باپ ہے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان مٹی سے اور جنات آگ سے پیدا کیے گئے اور ہر فریق اپنے اپنے اصل مادہ کی طرف منسوب ہے اللہ تعالیٰ نے جس کو جس طرح پیدا فرمانا چاہا پیدا فرما دیا، وجود بخشا یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کے ساتھ اور بہت سی نعمتیں ہیں ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ انسان اور جنات اپنے خالق جل مجدہ کے شکر گزار ہوں اور نعمتوں کی قدر دانی کریں اسی لیے اخیر میں فرمادیا ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ فرمایا (سو تم دونوں فریق انسان اور جن اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) ۔
Top