Mualim-ul-Irfan - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
پیدا کیا اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے جیسا کہ ٹھیکرہ ہوتا ہے
ربطہ آیات اس سورة مبارکہ میں کائنات اور بالخصوص انسانوں پر ہونے والے انعامات الٰہیہ کا ذکر ہورہا ہے۔ چناچہ گذشتہ درس میں روحانی انعامات میں سے سب سے بڑی نعمت قرآن حکیم کا تذکرہ ہوا۔ اس کے بعد اللہ نے خود انسانی جسم کی تخلیق کا ذکر کیا کہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور کمال درجے کی قوت گویائی بھی عطافرمائی۔ پھر اللہ نے شمس و قمر ، پودوں اور درختوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ بھی انعاماتِ الٰہیہ میں شامل ہیں جو اللہ نے انسانوں کی مصلحت کی خاطر پیدا فرمائے ہیں پھر اللہ نے ترازو کا ذکر کیا جو کہ عدل کی علامت ہے ، لہٰذا اللہ نے عدل قائم کرنے کا حکم دیا ، اور فرمایا کہ ناپ تول میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرو کیونکہ اس سے معاشرہ میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اللہ نے زمین کی تخلیق کا ذکر کیا کہ یہ بھی انسانوں کی مصلحت کی خاطر پیدا کی گئی ہے۔ اللہ نے اس میں پھل اور غلہ اگایا ہے۔ جو انسانوں اور جانوروں کی خوراک ہے۔ ان انعامات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اے انسانو ! اور جنو ! اللہ نے تمہیں بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے ، تم اس کی کس کس نعمت کی ناقدری کروگے۔ تخلیق انسانی گذشتہ درس میں مطلق انسانی تخلیق کا ذکر ہوا خلق الانسان ( آیت۔ 3) یعنی اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے قوت گویائی عطا فرمائی اب آج کے درس میں انسان کے مادہ تخلیق کا ذکر ہورہا ہے خلق الانسان من صلصالٍ کا لفخار اللہ نے انسان کو ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ فخار اس ٹھیکرے کو کہتے ہیں جو مٹی سے بنایاجاتا ہے اور آگ میں پکنے کے بعد بجنے لگتا ہے۔ سورة الصفت میں فرمایا ہے انا خلقنھم من طینٍ لازبٍ ( آیت۔ 11) یعنی ہم نے نسل انسانی کو چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ دراصل اللہ نے بنی نوع انسان کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ، اور پھر اس نسل کو تناسل کے ذریعے پھیلا دیا۔ جب اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو صحیح حدیث کے مطابق فرشتے کو حکم دیا کہ تمام روئے زمین سے تھوڑی تھوڑی مٹی لے کر اس سے آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ تیار کیا جائے جس کی تعمیل کی گئی۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ نسل انسان کی مختلف رنگتیں ، ان کی نرم اور سخت مزاجی وغیرہ مٹی کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ چناچہ اس مٹی سے آد م (علیہ السلام) کا مجسمہ تیار کرکے رکھ دیا گیا۔ وہ خشک ہوگیا تو اس میں کھنکھناہٹ کی کیفیت پیدا ہوگئی ، جس کا اللہ نے یہاں ذکر کیا ہے۔ جنات کی تخلیق انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے جنات کی تخلیق کا بھی تذکرہ فرمایا وخلق الجان من مارج من نارٍ اور جنات کو اللہ نے شعلہ مارنے والی آگ سے پیدا کیا جس میں دھواں نہیں ہوتا۔ جن اللہ تعالیٰ کی لطیف مخلوق ہے جو انسانوں کو نظر نہیں آتی ، البتہ وہ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہاں ! اگر کوئی جن شکل تبدیل کرلے تو پھر انسانوں کو بھی نظر آجاتا ہے۔ مسلم اور مسند احمد وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ نے فرمایا خلقت الملٰئکۃ من نور۔ اللہ نے فرشتوں کو نورانی مادہ سے پیدا کیا۔ اللہ نے درجہ اوّل کے فرشتوں یعنی ملاء اعلیٰ کی جماعت اور عالم بالا کے فرشتوں کو اس نہایت ہی لطیف نورانی مادہ سے پیدا فرمایا۔ شاہ ولی اللہ صاحب (رح) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر نظر آنے والی آگ کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ جب آپ اس آگ کے قریب پہنچتے تو پتہ چلا کہ وہ آگ درخت پر ظاہر ہورہی ہے اور درخت کو جلانے کی بجائے اس میں مزید شادابی کا باعث بن رہی تھی جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے قریب جاتے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ، اور جب آپ پیچھے ہٹتے تو وہ پھر اپنی جگہ پر آجاتی یہ ہماری آگ جیسی تو نہیں تھی جو ایندھن کو جلانے سے پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ حجابِ نوری یا حجاب ناری تھا جو کہ بہت ہی لطیف چیز ہے۔ تو شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں کو اسی قسم کے کسی لطیف نورانی مادے سے پیدا فرمایا ہے۔ اس کے بعد دوسرے درجے کے فرشتے ہیں جن کو اللہ نے عام مثال کے لطیف مادے سے پیدا کیا ہے۔ اور پھر اس سے نچلے والے فرشتے ذرا کم لطیف مادے سے پیدا کیے گیے حتیٰ کہ اللہ نے جنات کو شعلہ مارنے والی آگ سے پیدا کیا۔ بہرحال اللہ نے فرشتوں کو نورانی مادے ، جنوں کو آگ سے اور انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ شاہ ولی اللہ (رح) کی حکمت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی حکمت اور فلسفہ کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ اجسام کے مختلف درجات ہیں ، اور سب سے موٹی چیز معدنی اجسام ہیں۔ جن میں سونا ، چاندی ، لوہا ، کوئلہ ، نمک وغیرہ شامل ہیں ، اور ان میں بھی روح ہوتی ہے اگرچہ وہ بہت کمزور ہوتی ہے۔ اس روح کا فائدہ یہ ہے کہ معدنی اشیاء اپنی صورت اور اپنے خواص کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح نباتات میں بھی روح ہوتی ہے جس کی بدولت پودے ، درخت اور سبزیاں نشونما پاتے ہیں اور اپنی صورت اور خواص کو برقرار رکھتے ہیں۔ پھر حیوانات میں ایسی روح ہوتی ہے کہ ان میں شعور بھی پایا جاتا ہے۔ حیوانات بھی اپنے ارادے سے حس و حرکت کرتے ہیں اور اپنے خواص کو بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ناطق مخلوق آتی ہے۔ ناطق مخلوق میں انسانوں کے علاوہ بعض دوسری انواع بھی شامل ہیں۔ انسانی اجسام میں مٹی ، آگ ، ہوا اور پانی وغیرہ بہت سے عناصر ہیں مگر ان میں باقی عناصر کی نسبت مٹی کی مقدار زیادہ ہے اور باقی عناصر معتدل ہیں ، تاہم انسانی جسم میں اعتدال پایاجاتا ہے مخلوق ناطق کی ایک قسم سفلی ملائکہ ہے جن کے اجسا م میں ہوا کی مقدار دوسرے عناصر کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض ناطق مخلوق میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ یہ مائی انسان ہیں جو پانی کے اندر رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک مخلوقِ ناطق وہ ہے جس میں آ گ کی مقدار زیادہ ہے اور باقی عناصر معتدل ہیں ۔ یہ جنات ہیں۔ پھر ایک ناطق مخلوق ملک علوی ہے جو افلاک کے مادہ سے پیدا ہوتی ہے یہ بھی لطیف مخلوق ہے۔ بہرحال اللہ نے انسانوں کو اپنی تخلیق کی یاد دلائی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ آگے پھر وہی جملہ دہرایا ہے فبایّ اـلا ربکما تکذبٰن اے جنو ! اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کا کفران کروگے ؟ الاء کا معنی نعمت ، احسان ، مہربانی ، قدرت اور کرشمہ بھی ہوتا ہے۔ اللہ نے مذکورہ تمام نعمتیں انسانوں کو عطا فرمائی ہیں اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر پوچھا ہے کہ بتلائو تم میری کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ مطلب یہ ہے کہ بالآخر تمہیں میری عطا کردہ نعمتوں کا اقرار کرنا ہی پڑے گا۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے سورة الرحمن تلاوت فرمائی اور پھر لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ، لوگو ! تم خاموش بیٹھے ہو ، تم سے تو جنات نے مجھے اچھا جواب دیا۔ فرمایا کہ جنات کی خواہش پر میری ان سے ملاقات ہوگئی ، پھر میں نے ان کو یہ سورة مبارکہ سنائی۔ جب بھی میں آیت فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن کی تلاوت کرتا تو جناب جواب دیتے بنعمک ربنا لا تکذب فلک الحمد یعنی اے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت کی ناشکرگزاری نہیں کرتے ، اور ساری تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ عربی ادب میں تکرار کا اسلوب کسی جملے کا بار بار دہرایا جانا عربی زبان کے عین مطابق ہے۔ عرب لوگ کسی اہم یا فکر انگیز بات کو اپنے کلام میں بار بار دہرایا کرتے تھے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ اسلوبِ کلام ہے۔ اس تکرار سے ذہنوں میں کمال درجے کی خوشی پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ بعض عرب شاعروں نے بھی اپنے کلام کو اس قسم کی تکرار سے مزین کیا ہے۔ مثلاً ایک مشہور عرب شاعر مہلہل ہوا ہے۔ اس کا بھائی اپنی قوم کا سردار تھا۔ جب وہ مر گیا تو شاعر نے اس کے مرثیے میں ایسے جملے کہے جن میں ایک بات کو بار بار دہرایا گیا ہے۔؎ الا ان لیس عدلاً من کلیبٍ اذا طرد الیتیم عن الجزور بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کلیب موجود نہیں ہے جس وقت کہ کسی یتیم کو اونٹ کے گوشت کے قریب نہیں آنے دیا جاتا۔ الا ان لیس عدلا من کلیب اذا ما ضیم جیران المجیر الا ان لیس عدلاً من کلیب اذا رجف العضاہ من الدبور افسوس کہ آج کلیب موجود نہیں ہے جبکہ آج پڑوسی پر ظلم کیا جارہا ہے۔ افسوس کہ آج کلیب موجود نہیں ہے جبکہ گرم ہوائوں کی وجہ سے عضاہ کے درخت ہل رہے ہیں ( یعنی خشک سالی کی وجہ سے محتاجوں کو کوئی کھلاتا پلات نہیں یہ کام کلیب کرتا تھا) ۔ الا ان لیس عدلاً من کلیبٍ اذا خرجت مخبّاۃ الخدور افسوس کہ آج کلیب موجود نہیں ہے جبکہ پرد ہ نشین عورتیں باہر نکلتی ہیں ( کسی سخت خطرے کے وقت ہی عورتوں کو باہر نکلنا پڑتا تھا۔ مگر شاعر کہتا ہے کہ ایسی مصیبت میں کلیب موجود نہیں ہے) الا ان لیس عدلاً من کلیب اذا ما اعلنت نجوی الامور افسوس کہ آج کلیب موجود نہیں ہے جب کہ سینوں کے راز کھولے جاتے ہیں یعنی جب صلح و جنگ کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس وقت کلیب کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک مشہور خاتون شاعرہ لیلی اخییہ نے بھی ایک سردار کے مرثیے میں اس قسم کی تکرار کی ہے۔؎ لنعم الفتیٰ کنت توب لم تک تسبق یوماً کنت فیہ اے توب تم کتنے اچھے جوان تھے کہ جس چیز کا قصد کرتے تھے اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا تھا۔ لنعم الفتیٰ توب کنت اتاک لکی تحمی و نعم المجامل لنعم الفتیٰ توب کنت صدور العوالی واستشال الاسافل ونعم الفتیٰ یاتوب جاراً وّ صاجاً ونعم الفتیٰ یاتوب حین تناضل لعمری لانت المرء ابکی لفقدہ ولولام فیہ ناقص الرأی جاھل تم کتنے اچھے جوان تھے اے توب ! کہ تو خوفزدہ آدمی کی حمایت کے لیے آتا تھا تو کتنا اچھا جوان تھا اے توب ! جب کہ نیزوں کے سینے آپس میں ملتے تھے ، تم کتنے اچھے نوجوان تھے ساتھی اور پڑوسی اور تم کتنے اچھے نوجوان تھے جب ہمارے درمیان دشمن سے مقابلہ کرتے تھے۔ مجھے میری جان کی قسم تم ایسے آدمی ہو جس کے گم ہونے پر میں روہوں اگرچہ کم عقل بیوقوف آدمی ملامت ہی کرے۔ الغرض ! قرآن پاک میں کسی جملے کا تکرار کوئی نئی چیز نہیں۔ بلکہ یہ عربی زبان کے اسلوب کے مطابق ہے اور اس تکرار سے کلام میں جوش پیدا ہوتا ہے اور یہ زیادہ اثر انگیز ثابت ہوتا ہے۔ مشرق و مغرب کا پروردگار آگے ارشاد خداوندی ہے رب المشرقین و رب المغربین اللہ تعالیٰ وہ ہے جو دو مشرقوں اور دو مغربوں کا پروردگار ہے۔ مشرق اور مغرب تو ایک ایک ہی ہے لیکن یہ قرآن کا اسلوب بیان ہے کہ اس نے مشرق و مغرب کے لیے واحد تثنیہ اور جمع تینوں صیغے استعمال کیے ہیں۔ یہاں تثنیہ کا صیغہ ہے تو سورة المزمل میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ رب المشرق و المغرب ( آیت۔ 9) یعنی وہ مشرق و مغرب کا پروردگار ہے ۔ اسی طرح سورة الصٰفت میں جمع کا صیغہ بھی آیا ہے رب السموت والارض وما بینھما ورب المشارق ( آیت۔ 5) وہ ارض و سما اور ان کے درمیان والی چیزوں کا بھی پروردگار اور تمام مشرقوں کا بھی پروردگار ہے۔ سورة المعارج میں بھی ہے۔ فلا اقسم برب المشرق والمغرب انا لقدرون (آیت۔ 40) ایک مشرقی سمت اور دوسری مغربی سمت تو واضح ہیں۔ البتہ جب دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موسم سرما اور گرما میں طلوع و غروب آفتاب کے مقامات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب جمع کا صیغہ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج ہر روز نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور نئی جگہ میں غروب ہوتا ہے۔ نظامِ شمسی کے مطابق سورج کی بارہ منزلیں یا بارہ برج ہیں۔ اور سورج سال بھر میں ان بارہ منزلوں میں چلتا ہے اس لحاظ سے ہم کئی مشرق اور کئی مغرب بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ صیغہ کوئی بھی استعمال ہو مطلب مفرد ہی ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ مشرق و مغرب کا پروردگار ہے اور آگے پھر وہی جملہ فرمایا فبایّ اٰلاء ربکما تکذبٰن اے جنو ! اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کی ناقدری کروگے ؟ دو متوازی دریا آگے اللہ نے اپنی ایک اور قدرت کاملہ کا ذکر کیا ہے مرج البحرین یلتقیٰن اس نے دو دریا اکٹھے اور متوازی چلا دئیے ہیں جو آپس میں ملے ہوئے ہیں بینھما برزخ لا یبغیٰن ان کے درمیان ایک ایسا قدرتی پردہ ہے کہ ان کا پانی آپس میں خلط ملط نہیں ہوتا۔ ایک دریا کا پانی میٹھا ہے اور دوسرے کا کڑوا مگر ایک کے پانی کا اثر دوسرے پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دونوں اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں یہ بھی اللہ نے انسانوں کی مصلحت ہی کیلئے پیدا کیے ہیں۔ انسان کے مفاد دونوں قسم کے پانی سے وابستہ ہیں اور یہ دونوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا فبایّ الاء ربکما تکذبٰن تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائوگے ؟ موتی اور مونگے آگے اللہ تعالیٰ نے ان دو دریائوں کے فوائد کے ضمن میں فرمایا یخرج منھما اللولو والمرجان ان دونوں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں مونگا سمندر میں پیدا ہونے والا ایک درخت ہے جس میں جانوروں کی طرح زندہ مادہ ہوتا ہے۔ اس درخت کو کاٹ کر حیوانی مادہ الگ کرلیاجاتا ہے۔ پھر اس میں سرخ پتھر کی طرح کا مادہ نکلتا ہے۔ جس کو مختلف دوائیوں میں کیمیائی جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ نیز یہ مادہ زینت کے کام بھی آتا ہے۔ لغت کے ماہرین ، صاحب مختار الصحاح اور قاموس والے کہتے ہیں کہ لؤلؤ کا معنی بڑا موتی اور مرجان کا معنی چھوٹا موتی ہے بعض نے اس کے برعکس بھی کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ بھی پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہر حال اللہ نے ہی یہ موتی اور مونگے سمندروں اور دریائوں میں پیدا کیے ہیں جن کو انسان کام میں لاتے ہیں۔ تاہم موتی عام طور پر کھارے پانی میں ہوتے ہیں۔ موتیوں کی پیدائش کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ بھی منقول ہے کہ سمندروں میں بڑے سیپوں کا منہ کھلا ہوا ہوتا ہے ، اور اگر بارش کا کوئی قطرہ براہ راست سیپ کے اندر چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی قدرت تامہ سے موتی بنا دیتا ہے جسے لوگ نکال کر زینت کے لیے یا دوائی کے جزو کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ بات حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے صحیح طور پر ثابت ہے۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس طرح رحم مادر میں قطرہ آب سے بچہ پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ بارش کے قطرہ آب کو موتی کی صورت میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس نعمت کے تذکرے کے بعد اللہ نے پھر وہی جملہ دہرایا ہے فبایّ اٰلاء ربکما تکذبٰن اے جنات اور انسانوں کے گروہ تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ کشتیوں کی نعمت آگے ایک اور انعام کا ذکر فرمایا ولہ الجرار المنشئت فی البحر کالا علام اور سمندروں اور دریائوں میں چلنے والی کشتیاں بھی اسی کی ہیں جن میں پہاڑوں جیسی بڑی بڑی موجیں اٹھتی ہیں۔ بظاہر تو کشتیاں اور جہاز انسان ہی بناتے ہیں اور چلاتے ہیں مگر حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فیضان ہے۔ جس نے کشتیوں کے لیے سامان اور قویٰ عطا فرمائے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے لیکر کشتی سازی اور کشتی رانی کا سلسلہ اللہ نے قائم کر رکھا ہے۔ پہلے بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں ، پھر سٹیمر جاری ہوئے اور اب لاکھوں سن وزنی جہاز معرض وجود میں آچکے ہیں۔ جن کے ذریعے بین البراعظمی نقل و حمل ہورہی ہے ، اور یہ سارا اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا ہی نتیجہ ہے۔ فرمایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ امام ابن کثیر (رح) نے اس مقام پر ایک روایت بیان کی ہے جسے ابن ابی حاتم (رح) نے عمیرہ ابن سوید (رح) سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کنت مع علی علی شاط الفرات یعنی میں حضرت علی ؓ کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا۔ اچانک کشتی نمودار ہوئی جس کے بادبان اٹھے ہوئے تھے۔ حضرت علی ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کشتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسی آیت کی تلاوت کی ولہ الجوار المنشئت فی البحر کا لاعلام سمندروں اور دریائوں میں چلنے والی کشتیاں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں ، وہ سمندر جن میں پہاڑوں جیسی موجیں اٹھتی ہیں۔ نیز فرمایا والذی انشاھا تجری فی بحورہ اس ذات پاک کی قسم جس نے ان کشتیوں کو پیدا کیا ہے۔ یہ اسی کے حکم ، توفیق اور مدد سے رواں دواں ہیں وگرنہ خدا تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو تو کشتی یا جہاز کسی وقت بھی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ اور پھر حضرت علی ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے حضرت عثمان ؓ کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان کے قتل میں کسی کی مدد کی ہے لوگ ہمیں اس قتل میں ملوث کرتے ہیں حالانکہ نحن براء ہم اس سے بری ہیں۔ لوگ ہم سے عثمان ؓ کا قصاص طلب کرتے ہیں۔ مگر ہم اس معاملہ میں بےگناہ ہیں ، دراصل عثمان ؓ کو سرکش لوگوں نے قتل کیا جن میں کوئی صحابی شامل نہیں تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے پاس فوج اور طاقت تھی مگر اس کو استعمال کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ امت کے خیر خواہ تھے اور مسلمانوں کی خونریزی نہیں چاہتے تھے۔ آپ کی صداقت کی یہی دلیل ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ خمینی جیسے آدمی بھی حضرت عثمان ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کو چباولچی ( غنڈہ ، بدمعاش) کا خطاب دیتے ہیں۔ بہرحال حضرت علی ؓ نے خدا کی قسم اٹھا کر کہا کہ وہ نہ خود حضرت عثمان کے قاتل ہیں اور نہ انہوں نے کسی قاتل کی مدد کی ہے۔
Top