Mufradat-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝ 14 ۙ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ صلل أصل الصَّلْصَالِ : تردُّدُ الصّوتِ من الشیء الیابس، ومنه قيل : صَلَّ المسمارُ ، وسمّي الطّين الجافّ صَلْصَالًا . قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ، مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، والصُّلْصَلَةُ : بقيّةُ ماءٍ ، سمّيت بذلک لحکاية صوت تحرّكه في المزادة، وقیل : الصَّلْصَالُ : المنتن من الطین، من قولهم : صَلَّ اللحمُ ، قال : وکان أصله صَلَّالٌ ، فقلبت إحدی الّلامین، وقرئ : (أئذا صَلَلْنَا) أي : أنتنّا وتغيّرنا، من قولهم : صَلَّ اللّحمُ وأَصَلَّ. ( ص ل ل ) اصل میں صلصان کے معنی کسی خشک چیز سے آواز آنا کے ہیں اسی سے صل المسار کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی میخ کو کسی چیز میں ٹھونکنے سے آواز پیدا ہونا کے ہیں اور ( کھنکنے والی ) خشک مٹی کو بھی صلصال کہاجاتا ہے قرآن پاک میں ہے : مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] کھنکنے والی خشک مٹی یعنی سنے ہوئے گارے سے ۔ اور صلصلۃ کے معنی باقی ماندہ پانی کے میں کیونکہ مشکیزہ میں باقی ماندہ پانی کے ہلنے سے کھنکناہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ صلصان کے معنی سڑی ہوئی مٹی کے ہیں اور یہ صل اللحم سے مشتق ہے جس کے معنی گوشت کے بدبودار ہوجانے کے ہیں صلصان اصل میں صلال ہے ایک لام کو صاد سے بدل دیا گیا ہے اور آیت کریمہ :(أئذا صَلَلْنَا) کیا جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے ۔ میں ایک قرات صللنا بھی ہے یعنی جب ہم گل سٹر گئے اور یہ ) صل اللحم واصل کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ فخر الفَخْرُ : المباهاة في الأشياء الخارجة عن الإنسان کالمال والجاه، ويقال : له الفَخَرُ ، ورجل فَاخِرٌ ، وفُخُورٌ ، وفَخِيرٌ ، علی التّكثير . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان/ 18] ، ويقال : فَخَرْتُ فلانا علی صاحبه أَفْخَرُهُ فَخْراً : حکمت له بفضل عليه، ويعبّر عن کلّ نفیس بِالْفَاخِرِ. يقال : ثوب فَاخِرٌ ، وناقة فَخُورٌ: عظیمة الضّرع، كثيرة الدّر، والفَخَّارُ : الجرار، وذلک لصوته إذا نقر كأنما تصوّر بصورة من يكثر التَّفَاخُرَ. قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] . (خ ر ) الفخر ( ن ) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال وجاہ وغیرہ اور اسے فحر ( بفتح الخا ) بھی کہتے ہیں اوت فخر کرنے والے کو فاخر کہا جاتا ہے اور فخور وفخیر صیغہ مبالغہ ہیں یعنی بہت زیادہ اترانے والا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان/ 18] کہ خدا کسی اترانے والے کو خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔ فخرت فلان علٰی صاحبہ افخرہ فخرا ایک یکو دوسرے پر فضیلت دینا اور ہر نفیس چیز کو فاخر کہا جاتا ہے چوب فاخر قیمتی کپڑا اور جس اونٹنی کے تھن تو بڑے بڑے ہوں مگر دودھ بہت کم دے اسے فخور کہتے ہیں ۔ الفخار منکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی کوئی بہت زیادہ فخر کررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے
Top