Tafseer-e-Baghwi - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
تو (اے گروہ جن وانس ! ) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
13 ۔” فبای آلاء ربکما تکذبان “ مراد جن وانس ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ان مذکورہ اشیاء میں سے اور اس آیت کا اس سورت میں تکرار کیا ہے نعمت کو پختہ کرنے اور اس کے ذریعے نصیحت کی تاکید کے لئے عرب کی عادت کے مطابق کہ وہ ابلاغ واشباع میں ایسا کرتے ہیں۔ مخلوق پر اپنی نعمتوں کو گنوایا ہے اور ہر دو نعمتوں کے درمیان وہ بات ذکر کی ہے جو ان کو اس پر تنبیہ کردے۔ جیسے آدمی کا قول اس کو جو اس کی طرف احسان کرے اور اس پر لگاتار انعامات کرے اور وہ اس کا انکاروکفر کرے۔ ” الم تکن فقیرا فاغنیتک افتنکر ھذا ؟ “ کیا تو فقیر نہیں تھا میں نے تجھے مال دار کیا، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے ؟ کیا تو ننگا نہیں تھا تو میں نے تجھے کپڑے پہنائے، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے ؟ کیا تو رسوا نہیں تھا تو میں نے تجھے عزت دی کیا تو اس کا انکار کرتا ہے ؟ اور اس تکرار کی مثل کلام میں عرب شائع ذائع (کثیر) ہے اور تثنیہ کے لفظ سے خطاب کیا ہے۔ عرب کی عادت کے مطابق کہ وہ واحد کو تثنیہ کے لفظ سے خطاب کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ” القیافی جھنم “ ہے۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم پر سورة الرحمن پڑھی حتیٰ کہ اس کو ختم کیا، پھر فرمایا مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں خاموش دیکھتا ہوں ؟ ” رقبۃ “ جن تم سے زیادہ اچھا جواب دینے والے تھے جب بھی میں ان پر یہ آیت ایک مرتبہ پڑھتا۔ ” فبای آلاء ربکما تکذبن “ تو وہ کہتے اے ہمارے رب ! تیری نعمتوں میں سے کسی کو ہم نہیں جھٹلاتے۔ پس تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں۔
Top