Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 184
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَتَفَكَّرُوْا : وہ غور نہیں کرتے مَا بِصَاحِبِهِمْ : نہیں ان کے صاحب کو مِّنْ : سے جِنَّةٍ : جنون اِنْ : نہیں هُوَ : وہ اِلَّا : مگر نَذِيْرٌ : ڈرانے والے مُّبِيْنٌ : صاف
کیا انہوں نے غور نہیں کیا ؟ کہ ان کے رفیق محمد ﷺ کو (کسی طرح کا بھی) جنون نہیں ہے۔ تو وہ ظاہر ظہور ڈر سنانے والے ہیں۔
184۔ 186۔ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابوالشیخ میں قتادہ سے روایت ہے کہ ایک روز صفا پہاڑ پر چڑھ کر آنحضرت نے اہل مکہ کو بلایا اور اسلام لانے کی نصیحت ان کو کی ایک نے ان میں سے آنحضرت کو دیوانہ کہا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ اہل مکہ خود دیوانے اور ناسمجھ ہیں جو نبی کو دیوانہ بتلاتے ہیں جن بتوں کو یہ لوگ پوجتے ہیں نہ انہوں نے کوئی زمین پیدا کی نہ کوئی آسمان پیدا کیا خدا کی پیدا کی ہوئی زمین اور آسمان کے عجائبات پر غور کرنے سے خود بخود معلوم ہوتا ہے کہ وہی وحدہ لاشریک عبادت کے قابل ہے سوا اس کے اور کسی کی عبادت دیوانہ پن ہے اور نبی وقت جن باتوں کو نصیحت کرتے ہیں وہ بڑی سمجھ کی باتیں ہیں دیوانوں کی باتیں نہیں ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل کی معراج کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ معراج کی رات آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے اول آسمان کے نیچے کچھ گرد غبار اور دہواں دیکھا حضرت جبرئیل سے میں نے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے انہوں نے جواب دیا کہ یہ شیاطین اکٹھے ہو کر آسمان کے نیچے اس لئے آڑ کردیتے ہیں کہ زمین پر کے لوگوں کو آسمان کے عجائبات نظر نہ آویں عجائبات نظر نہ آویں یہ آڑ نہ ہوتی تو شاید لوگوں کو زیادہ عجائبات نظر آتے۔ عمادالدین حافظ ابن کثیر نے اگرچہ اس حدیث کے ایک راوی علی بن زید پر اعتراض کیا ہے 2 ؎ لیکن ترمذی نے علی بن زید کو صدوق کہا ہے 3 ؎ ہے اور صدوق کی روایت قابل اعتبار ہے۔ مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ابوسعید خدری ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقبیٰ کی جزا وسزا کا ذکر رہتا تھا اس لئے وہ منکر حشر لوگ آپ کی باتوں کو وہمی اور خیالی باتیں جان کر آپ کو دیوانہ کہتے تھے اللہ کے رسول نے معجزہ کے طور پر اس حدیث میں یہ بھی جتلا دیا کہ اہل مکہ کی جس گستاخی کا ذکر آیت میں ہے وہ کچھ اہل مکہ پر یا زمانہ نبوت پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک جگہ اور ہر ایک زمانہ کے دنیا دار لوگ کثرت سے ذکر الٰہی میں مصروف رہنے والوں کو دیوانہ کہویں گے عرب میں یہ ایک دستور تھا کہ قوم میں کوئی شخص سب قوم کے لوگوں سے پہلے اگر کسی دشمن کے لشکر کو آتے ہوئے دیکھ لیتا تھا تو قوم کے لوگوں کو ہوشیار کردینے کی غرض سے اپنے کپڑے اتار کر ایک لکڑی کے سرے پر باندھ لیتا اور اس لکڑی کو جھنڈی کی طرح ہلاتا تھا ایسے شخص کو عرب کے محاورہ میں ننگا ڈرانے والا کہتے تھے اور اس کے ڈرانے کو ایک بڑا ڈر خیال کرتے تھے صحیح بخاری ومسلم میں ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اس محاورہ کے موافق اپنے آپ کو نذیر عریاں فرمایا 4 ؎ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قریش کو عذاب دوزخ سے جو ڈراتے ہیں اس کو یہ لوگ معمولی ڈر نہ خیال کریں بلکہ نذیر عریاں کے ڈرانے کی طرح اس کو ایک یقینی سمجھیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو صاف ڈرانے والا جو فرمایا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے باقی تفسیر ان آیتوں کی آیت ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس کی تفسیر میں اور آیتوں کی تفسیر میں تفصیل سے گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے لیکن لوگوں کے دوزخی اور جنتی ہونے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کے نوشتہ پر نہیں رکھا بلکہ ہر شخص کو فطرت اسلام پر اس نے پیدا کیا ہے ہر ایک کا ٹھکانا دوزخ اور جنت دونوں جگہ میں بنایا ہے ہر ایک کو نیک راہ پر لگانے کے لئے رسول بھیجے گئے آسمانی کتابیں نازل کی گئیں معرفت الٰہی حاصل کرنے کے لئے بےگنتی قدرت الہی کی نشانیاں دنیا میں پیدا کی گئیں باوجود اس کے نیک راہ چھوڑ کر جو لوگ ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں وہ وہی لوگ ہیں جو علم الٰہی میں دوزخی قرار پاچکے ہیں نہ ان کو ہدایت کا کوئی طریقہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ ان کو مجبور کیا جاکر نیک راہ پر لانا انتظام الہی میں داخل ہے کیونکہ دنیا نیک وبد کی جانچ کے لئے پیدا کی گئی ہے کسی کو کسی کام پر مجبور کرنے کے لئے نہیں پیدا کی گئی۔ صحیح بخاری وترمذی میں عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو اپنے مرنے کا وقت معلوم نہیں 5 ؎ کہ ناگہانی طور پر کس وقت موت سر پر آن کھڑی ہو اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو قبر کا مردہ سمجھے۔ ان آیتوں میں موت کا جو ذکر ہے حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے :۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثرر ج 2 ص 670۔ 2 ؎ تہذیب التہذب ج 7 ص 323۔ 3 ؎ الترغیب والترہیب ج 1 ص 271 الترغیب فی الاکثار عن ذکر اللہ۔ 4 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 1081 کتاب الا عتصام و صحیح مسلم ج 2 ص 248 باب شفقتہ ﷺ ۔ 5 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 681 باب قولہ اللہ یعلم ماتحمل کل انثی الخ۔
Top