Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 184
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَتَفَكَّرُوْا : وہ غور نہیں کرتے مَا بِصَاحِبِهِمْ : نہیں ان کے صاحب کو مِّنْ : سے جِنَّةٍ : جنون اِنْ : نہیں هُوَ : وہ اِلَّا : مگر نَذِيْرٌ : ڈرانے والے مُّبِيْنٌ : صاف
کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے وہ تو بس ایک کھلا ہوا ہوشیار کرنے والا ہے۔
اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا ۫مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۔ صاحبہم سے مراد نبی ﷺ ہیں۔ اس لفظ کے استعمال سے قریش کو اس امر واقعہ کی طرف توجہ دلانا ہے کہ یہ پیغمبر ان کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں بلکہ ان کے دن رات کے ساتھی ہیں۔ ان کا بچپن ان کی جوانی سب انہی کے اندر اور انہی کے ساتھ گزری ہے۔ ہر دور اور ہر مرحلہ میں انہوں نے ان کو دیکھا اور آزمایا اور ہر طرح کے حالات میں ان کو جانچا اور پرکھا ہے۔ پھر آخر یہ اس امر پر کیوں نہیں غور کرتے کہ جو شخص ہمیشہ اپنی سلامت روی، اپنی صداقت شعاری، اپنی بےغرضی، اپنی پاکبازی، اپنی فکر و رائے کی اصابت اور اپنی دانش و بینش کی پختگی کے اعتبار سے ساری قوم میں گل سرسبد رہا دفعۃ وہ اب خطبی اور دیوانہ کیسے بن گیا ؟ آخر ان میں دیوانوں اور خبطیوں کی سی کون سی بات ان کو نظر آئی ؟ یہ دیوانے اور خطبی نہیں ہیں بلکہ جس طرح ایک نذیر عریاں، خطرے کے دید بان سے اپنی قوم کو دشمن کے حملہ سے ہوشیار کرتا ہے اوسی طرح یہ خدا کے نذیر مبین ہیں جو آنے والے وقت اور تم پر نازل ہونے والے عذاب سے تم کو ڈرا رہے ہیں۔ ان کے اندر تمہیں ہوشیار و بیدار کرنے کے لیے جو بےقراری و بےچینی ہے اور انہوں نے تمہارے پیچھے اپن رات دن جو ایک کر رکھے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے دماغ میں کوئی خلل ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس عطیم خطرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے اور جو تمہیں بےبصیرتی کے سبب سے نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ جنون نہیں بلکہ حقیقت کا سچا احساس اور اپنی قوم کی محبت کا بےپایاں جذبہ ہے جو انہیں ہلکان کیے ہوئے ہے۔ یہ تمہاری انتہائی بلادت، ناسپاسی اور سنگ دلی ہے کہ تم اس کو خبط اور جنون قرار دیتے ہو یہ واضح رہے کہ قریش آنحضرت ﷺ کو جو مجنون کہتے تھے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ فی الواقع آپ کو کوئی مجنون سمجھتے تھے۔ آخر قریش کے ذہین لوگ اتنے کو دن کیسے ہوسکتے تھے کہ وہ آنحضرت ﷺ جیسے پیکر متانت اور رزانت کو مجنون کہیں ؟ پھر وہ کہتے تو ان کی بات کو لائق اعتنا کون مانتا ؟ اصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو رات دن جو اس بات کی لگن تھی کہ اپنی قوم کو اس آنے والے عذاب سے ڈرائیں جو سنت الٰہی کے بموجب، رسول کی تکذیب کی صورت میں، لازماً ان پر آ دھمکتا، یہ چیز قریش کے لیڈروں کو بہت عجیب معلوم ہوتی، ان کی سمجھ میں یہ بات کسی طرح نہیں آتی تھی کہ آخر ان پر عذاب کدھر سے آجائے گا اور کیوں آجائے گا۔ لیکن آنحضرت ﷺ جیسے صاحب کردار شخص کا اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر، رات دن ان کو اس عذاب سے ڈرانا اور اس جزم و یقین کے ساتھ ڈرانا کہ گویا آنے والے طوفان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں، ایسی صورت حال نہیں تھی جس کو قریش کے لیڈر نظر انداز کرسکین۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس کی کوئی توجیہہ تلاش کریں۔ اس کی کوئی توجیہہ تلاش کرنا یا گھڑنا ان کی سیاسی مصلحت کا بھی تقاضا تھا اس لیے کہ ان کے اندر جو لوگ خالی الذہن تھے، کسی پندار یا کسی خود غرضی میں مبتلا نہ تھے، وہ آنحضرت ﷺ کی بےلوثی اور دردمندی سے متاثر ہوتے تھے۔ ان کو اس اثر سے بچانے اور اپنی سیادت کی دھاک قائم رکھنے کے لیے انہوں نے یہ اشغلا چھوڑا کہ جس طرح بھلے چنگے آدمی کو بھی بسا اوقات کسی چیز کا خبط اور سودا ہوجایا کرتا ہے رات دن اس پر وہی دھن سوار رہتی اور اٹھتے بیٹھتے ہر جگہ اسے وہی چیز نظر آتی ہے اسی طرح محمد ﷺ کو بھی نعوذ باللہ عذاب اور قیامت کا سودا لاحق ہوگیا ہے، ان کی یہ چیز پروا کرنے کی نہیں ہے، قرآن نے یہاں قریش کی اسی طفل تسلی کی تردید کی ہے کہ جس شخص تم مدت العمر کے تجربہ سے جانتے ہو کہ توازن فکر و عمل اور اعتدال ذہن و مزاج کے اعتبار سے تمہاری پوری قوم میں کوئی اس کا ثانی نہ ہوا آج تم اس کو خطبی اور دیوانہ قرار دیتے ہو جب وہ سن و سال اور رشد و کمال دونوں کی پختگی کا ایک پیکر ہے۔ نادانو، یہ دیوانہ نہیں بلکہ ایک کھلا ہوا ہوشیار کرنے والا اور ڈرانے والا ہے جو آنے والے طوفان کو اپنی دونوں آنکھوں دیکھ رہا ہے تو، ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا،۔
Top