Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 184
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَتَفَكَّرُوْا : وہ غور نہیں کرتے مَا بِصَاحِبِهِمْ : نہیں ان کے صاحب کو مِّنْ : سے جِنَّةٍ : جنون اِنْ : نہیں هُوَ : وہ اِلَّا : مگر نَذِيْرٌ : ڈرانے والے مُّبِيْنٌ : صاف
اور کیا وہ غور فکر نہیں کرتے کہ ان کے رفیق پر کوئی جنون طاری نہیں ہے وہ تو صاف صاف طریقے سے ڈرانے والے ہیں۔
تشریح آیت نمبر 184 تا 186 وقت کے دھارے کے خلاف جب بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے جو قائم شدہ نظام وقت سے ٹکراتی ہے اور ان لوگوں کے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے جنہوں نے مذہب کے نام پر دوسروں کو بیوقوف بنایا ہوا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس شخص کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں جو اس دعوت کو لے اٹھتا ہے تاکہ لوگ اس کی باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظرا نداز کردیں ۔ یہی صورت حال اس وقت پیش آئی جب خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد ﷺ نے بتوں کو پوجنے والے اور رسموں کو مذہب کا نام دینے والوں کو للکارا۔ حضرت قتاوہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے کوہ صفاہ پر چڑھ کر قریش کے تمام قبیلوں کو ایسے الفاظ سے پکارا جیسے دشمن کے خطرہ کے وقت بو لے جاتے تھے ۔ مکہ کے تمام لوگ اس تصور کے ساتھ پہاڑ پہر پہنچ گئے کہ شاید کسی دشمن نے مکہ پر حملہ کردیا ہے ۔ جب سب جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے ہر قبیلے کو نام بنام پکار کر ان کو عذاب الہٰی سے ڈرایا، موت ، قیامت اور زوال و فنا کا نقشہ کھینچ کر فکر آخرت کی طرف متوجہ فرمایا۔ یہ سن کر بعض منکرین اور کفار مکہ نے کہا (نعوذباللہ) ان کو جنون ہوگیا ہے یہ روایت اور بھی متعدد طریقوں سے قرآن کریم میں اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ وہی لوگ جو آپ کے عقل و فہم کے قائل تھے صادق وا مین کہنے سے جن کے منہ سوکھتے تھے جیسے ہی ان کی رسموں اور بتوں اور چلتے دھارے کے خلاف بات کہی گئی تو انہوں نے اللہ کے پیارے نبی ﷺ پر جنون کا الزام لگا دیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس بات پر غور و فکر نہیں کرتے کہ ان کے رفیق حضرت محمد ﷺ کسی جنون مین مبتلا نہیں ہیں بلکہ وہ تو تمہارے برے انجام سے ڈرانے والے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کا زمانہ اور ایک لمحہ ان کے سامنے تھا۔ چالیس سال تک آپ نے ان کے اندر اپنی زندگی کا وقت گذرا تھا۔ ہمیشہ آپ کو صادق و امین ، دانشمند اور سلیم الفطرت سمجھتے رہے اب جو انہوں نے حق و صداقت کی باتیں شروع کیں تو انہوں نے آپ ﷺ پر طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں یہاں تک کہ آپ کے خلاف جنونی ہونے کا دعویٰ کرنے لگے اللہ نے فرمایا ہے کہ جس ساری زندگی تمہارے درمیان گذری ہے ان پر اس طرح کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے ۔ اس بات پر تو تمہارا دل بھی گواہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کی عقل و حکمت کے سامنے تم اور سار دنیا کے عقلا اور حکما حیران و ششدر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس احمقانہ انداز فکر پر فرمایا ہے کہ اگر تم کائنات کے حسن انتظام پر غور و فکر کرو تو یہ بات تمہاری سمجھ میں آجائے گی۔ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اللہ ہی ہے۔ اس کی ہر چیز اس کے خالق ہونے پر گواہ ہے۔ یہ زندگی کا مختصر سا عرصہ ہے جس میں غور فکر کر کے اللہ پر ایمان لے آنے والے ہی کامیاب و با مراد ہوں گے۔ لیکن جنہوں نے اس وقت کو غفلت میں گذار دیا ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوگی ۔ فرمایا کہ ہمارا نبی تمہارے سامنے اسی حقیقت کو رکھ رہا ہے ۔ اگر تم اس کے بعد بھی ایمان نہیں لائو گے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بھٹکنا ہی تمہارا مقدر بن چکا ہے۔ تم دوزخ میں جانے پر تلے بیٹھے ہو۔ رسول ﷺ کے سوا اور کون ہے جو تمہیں راہ ہدایت دکھا سکے۔ جس کو اللہ ہی بھٹکا دے اس کو راستہ ملنا مشکل ہے۔
Top