Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 184
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَتَفَكَّرُوْا : وہ غور نہیں کرتے مَا بِصَاحِبِهِمْ : نہیں ان کے صاحب کو مِّنْ : سے جِنَّةٍ : جنون اِنْ : نہیں هُوَ : وہ اِلَّا : مگر نَذِيْرٌ : ڈرانے والے مُّبِيْنٌ : صاف
کیا انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا ؟ کہ ان کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ تو بس ایک کھلا ہوا ہوشیار کرنے والا ہے۔
اگلی آیت کریمہ میں قریش نے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے کے لیے ایک اشغلاء چھوڑا تھا اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْاسکتۃ مَا بِصَاحِبِہِمْ مِّنْ جِنَّۃٍط اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ (الاعراف : 184) ” کیا انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا ؟ کہ ان کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ تو بس ایک کھلا ہوا ہوشیار کرنے والا ہے “۔ نبی کریم ﷺ نے جب اہل مکہ کے سامنے اللہ کے دین کی دعوت پیش کی تو شروع شروع میں تو قریش مکہ نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن رفتہ رفتہ جب اس دعوت نے نفوذ اختیار کرنا شروع کیا اور لوگ آہستہ آہستہ اس سے متاثر ہونے لگے اور ہر گھرانے اور خاندان میں یہ دعوت اپنے حامی پیدا کرنے لگی تو اب ان کو فکر ہوئی لیکن ان کے لیے مشکل یہ تھی کہ اس دعوت کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ اگرچہ نہایت بہترین عربی زبان جانتے تھے اور ان میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر بھی پائے جاتے تھے اور ان کی فصاحت و بلاغت میں بھی کوئی شبہ نہ تھا لیکن قرآن کریم کے سامنے ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں۔ آنحضرت ﷺ کی دل آویز شخصیت آپ کا بےعیب کردار آپ کی خاندانی وجاہت آپ کا زور بیان آپ کا دلوں میں اتر جانے والا اخلاق بجائے خود اپنے اندر بےپناہ دعوتی اثر رکھتا تھا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جب آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو چھوٹے بڑے اپنا دل تھام کر رہ جاتے قریش کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہم آخر اس دعوت کا راستہ کیسے روکیں آخر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں بھی قرآن پڑھا جائے اس کے قریب شور مچائو تاکہ لوگ قرآن کو سن نہ سکیں اور جہاں حضور ﷺ دعوت پیش کریں اس کا تمسخر اڑائو تاکہ لوگ اسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے محض ایک مذاق سمجھیں لیکن جب اس کے باوجود بھی دعوت کے اثرات رکنے کی بجائے مزید آگے بڑھنے لگے تو اب انھوں نے بہت سوچ بچار کے بعد آنحضرت ﷺ کی ذات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ آپ ﷺ کو ساحر یعنی جادو گر کہا گیا لیکن جب یہ بات نہ چل سکی تو پھر آپ ﷺ کو مجنون اور دیوانہ کہا جانے لگا۔ قرآن کریم نے ان کے اس الزام اور ان کی اس حرکت کا نہایت سنجیدگی اور دلیل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس جواب کو واضح کروں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ آنحضرت ﷺ کو کس بنیاد پر مجنون اور پاگل قرار دیتے تھے یا یہ کہتے تھے کہ آپ ﷺ میں جنون کے آثار پائے جاتے ہیں اور کبھی کبھی آپ سے اس کا اظہار بھی ہونے لگتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن کریم نے دو باتوں کی طرف راہنمائی کی ہے پہلی بات یہ کہ قریش دیکھ رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ ان کے سامنے جو دعوت پیش کر رہے ہیں وہ کسی طرح بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں حضور جیسے جیسے دعوت میں تیزی پیدا کرتے جا رہے ہیں ویسے ویسے قریش کی جانب سے مخالفت میں شدت پیدا ہوتی جار ہی ہے اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ حضور یا تو مایوس ہو کر دعوت بند کردیتے اور یا دعوت کی تیزی میں کمی کردیتے لیکن آپ نے اس کے بالکل برعکس دعوتی کوششوں میں اضافہ فرما دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اب آپ صرف دعوت ہی پیش نہیں فرماتے تھے بلکہ یہ وارننگ بھی دیتے تھے کہ اگر تم نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو یاد رکھو تمہارا انجام وہی ہوگا جو اس سے پہلے قوم عاد وثمود کا ہوچکا ہے تم دنیا میں ہی اللہ کے عذاب کی گرفت میں آجاؤ گے اور اگر پروردگار نے تمہیں مزید ڈھیل دے بھی دی تو قیامت کے عذاب سے تم کسی طرح نہیں بچ سکتے۔ آپ کا تمام مخالفتوں اور اذیتوں کے باوجود نہایت ہمدردی ‘ غم گساری اور جان کا ہی کے ساتھ ایک ایک شخص تک دعوت پہنچانا اور اس کے اذیت ناک رویے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خون جگر پی پی کر راہ راست پہ لانے کی کوشش کرنا یہ ایک ایسا طرز عمل تھا جو ایک طرف اگر قریش کے لیے ناقابلِ فہم تھا تو دوسری طرف عام افراد کے لیے اثر انگیز تھا ایک خالی الذہن آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ یہ ہمارے شہر کا ایک عالی نسب شخص جسے ہم سے کوئی غرض نہیں وہ ہم سے کسی معاوضہ کا طالب نہیں وہ محض ہماری بھلائی کے لیے جس طرح دکھ اٹھا اٹھا کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر ہماری ہدایت کے لیے کوششیں کر رہا ہے آخر اس میں کوئی تو صداقت ہوگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے اس رویہ کے باعث پہلے سوچنے پر مجبور ہوتے اور پھر ایمان کی طرف بڑھنے لگتے۔ قریش کو اس صورت حال نے پریشان کردیا کہ آخر لوگوں کو اس دعوت کے اثر سے کیسے بچایا جائے انھوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ دیکھو تم محمد ﷺ کی دل آویز شخصیت اور اس کے خیر خواہانہ رویے پر نہ جاؤ بلکہ یہ دیکھو کہ وہ جس طرح بار بار تمہیں عذاب سے ڈرا رہا ہے اور کبھی آنے والی قیامت کی خبریں دیتا ہے اور پھر تم ہزار انکار کرو وہ کبھی اپنی بات کہنے سے نہیں رکتا۔ کسی عقلمند آدمی کا یہ رویہ تو نہیں ہوتا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا فوبیا ہوگیا ہے اور اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اس نے ایک جنون کی شکل اختیار کرلی ہے وہ اپنی ذات میں چاہے کتنا ہی عظیم سہی لیکن بڑے بڑے لوگ بھی بعض دفعہ اختلالِ دماغ یا وہم کا شکار ہوجایا کرتے ہیں چناچہ یہ بھی ایسے ہی کسی عارضہ میں مبتلا ہے جو باتیں وہ محض اپنے جنون کی وجہ سے کہہ رہا ہے تم اسے چنداں اہمیت نہ دو اور مجنون سمجھ کر اس کی بات کو ٹال دو اس طرح قریش نے وقتی طور پر آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم نے دو باتیں اس سلسلے میں ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ تم جس شخص کے بارے میں جنون کا الزام لگا رہے ہو وہ کوئی اجنبی آدمی تو نہیں کسی دوسرے ملک یا کسی دوسرے شہر سے تو نہیں آیا وہ کسی دور کے خاندان سے تعلق بھی نہیں رکھتا تمہارے اپنے شہر کا رہنے والا ہے ‘ تمہارے ہی قبیلے قریش کا ایک معزز فرد ہے ‘ تمہارے سامنے اس کا بچپن ‘ اس کا لڑکپن ‘ اس کا بےداغ شباب گزرا تم ہمیشہ اس کے بےداغ کردار ‘ اس کی اصابت رائے ‘ اس کی سلامت روی ‘ اس کی صداقت شعاری ‘ اس کی بےغرضی ‘ اس کی پاک بازی اور اس کی دانش و بینش کی پختگی کے ہمیشہ گواہ رہے ہو وہ جوان تھا تو تمہارے بڑے بوڑھے اپنے جوان بیٹوں کو اس کا حوالہ دے دے کر سمجھایا کرتے تھے ‘ بنی ہاشم اس کی ذات اور اس کے طور اطوار پر فخر کیا کرتے تھے وہ عملی زندگی میں داخل ہوا اور تجارتی اسفار کیے تو اس کی تجارت کی دھوم مچ گئی اور اسی شہرت کی وجہ سے حضرت خدیجہ ( رض) نے اپنا مال تجارت لے جانے کے لیے ان سے درخواست کی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تعمیر کعبہ کے وقت تم میں اس بات پر اختلاف پیدا ہوا کہ حجر اسود کو کون اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کرے ؟ یہ چونکہ ایک یاد گار بن جانے والا عمل تھا اور اس کے سبب سے ایک افتخار اور اعزاز ملنے والا تھا تو اس لیے ہر قبیلہ کے سردار کی خواہش تھی کہ یہ عزت میرے حصے میں آئے چناچہ جب سب نے اسے حاصل کرنے پر اصرار کیا تو نوبت خون ریزی تک پہنچ گئی قریب تھا کہ تلواریں بےنیام ہوجاتیں کہ کسی نے مشورہ دیا کہ تم یہ معاملہ اللہ پر چھوڑو اور اس بات پر راضی ہوجاؤ کہ صبح سب سے پہلے جو شخص حرم میں داخل ہو اسے منصف بنا لیا جائے اور اس کے فیصلے کو قبول کرلیا جائے۔ چناچہ صبح کے وقت اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ رسول ﷺ سب سے پہلے حرم میں داخل ہوئے آپ کو دیکھ کر تمام سردرانِ قریش خوشی سے چیخ اٹھے کہ الامین آگیا اور الصادق آگیا ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں چناچہ آپ نے نہایت تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کیا جس سے تمام سردارانِ قریش کو برابر کی عزت ملی اور ایک بڑا خطرہ جو بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا ٹل گیا۔ آپ نے اپنی چادر زمین پر بچھائی اس پر حجر اسود رکھا فرمایا کہ تمام سردار چادر کے پلو پکڑ کر اوپر اٹھائیں جب حجر اسود اتنا بلند ہوگیا کہ اسے اٹھا کر اپنی جگہ پر نصب کیا جاسکتا تھا تو آپ نے خود اٹھا کر اسے نصب فرمادیا۔ کہنا یہ ہے کہ جس ذات عزیز کے بارے میں نبوت سے پہلے تمہارے یہ تصورات تھے کہ تم اس کے سیرت و کردار اور اس کی اصابتِ فکر کے بارے میں دو رائے نہیں رکھتے تھے بلکہ پورا مکہ بیک زبان اس کی عقل و دانش کا معترف اور اس کے بےداغ سیرت و کردار کا گواہ تھا آج آخر ایسی بات کیا ہوگئی ہے کہ تم نے اس کو مجنون قرار دینا شروع کردیا ہے۔ تمہارا یہ رویہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دماغ میں تو کوئی جنون نہیں البتہ تمہاری نیت میں فتور ضرور ہے۔ رہی یہ بات کہ تمہاری ساری مخالفتوں اور اذیتوں کے باوجود حضور ﷺ اپنی دعوتی کاوشوں میں کمی کرنے کی بجائے روز بروز اضافہ فرماتے جارہے ہیں تم ان سے بد سلوکی کرتے، گالیاں بکتے اور مذاق اڑاتے ہو اور ہر ممکن طریق سے ان کی دعوت کو بےاثر کرنے کی کوشش کرتے ہو لیکن ان کے اندر کوئی منفی رویہ پیدا نہیں ہوتا جس طرح ایک ماں اپنے بگڑے ہوئے بچہ کی بد تمیزیاں دیکھ کر ناراض ہونے کی بجائے آنکھوں میں آنسو بھر کر پھر اسے پکار کے اور سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ بھی ان کی ساری بد تمیزیوں کے باوجود اپنی اصلاحی کوششوں کو کسی طرح بھی روکنے کو تیار نہیں ہوتے تھے تو اس کا سبب کوئی جنون نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نذیر مبین بنا کر بھیجا ہے۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ کسی طرف سے خطرہ محسوس کرتے تھے کہ شائد رات کی تاریکی یا ہماری غفلت میں فلاں قبیلہ ہم پر حملہ کر دے تو اس قبیلے سے آگاہ رہنے کے لیے کسی شخص کو مقرر کردیا جاتا تھا تاکہ وہ کسی بلند جگہ سے اس قبیلہ کی نگرانی کرے اور جب بھی اسے خطرہ کا احساس ہو وہ اپنی قوم اور اپنے قبیلے کو فوراً آگاہ کرے۔ چناچہ جب اسے خطرہ کا یقین ہوجاتا اور وہ دیکھتا کہ فلاں قبیلہ ہم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو وہ کپڑے پھاڑ کر چیختا ہوا اپنی قوم کی طرف بھاگتا اور انھیں آنے والے خطرے سے آگاہ کردیتا قوم چونکہ اس سے بیخبر ہوتی لیکن یہ خبر دار کرنے والا چونکہ اس خطرہ کو دیکھ چکا ہوتا اس لیے اپنی ساری صلاحیتیں اپنی قوم کو بچانے کے جذبے سے بروئے کار لاتا ‘ چیختا چلاتا جو بھی اس سے ہوسکتا وہ قوم کو اس خطرے سے بچانے اور خبردار کرنے کے لیے کر گزرتا ایسے شخص کو عرب نذیر عریان یعنی برہنہ خبردار کرنے والا کہتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے اسی تصور کے حوالے سے انھیں بتلایا ہے کہ ہمارے پیغمبر کی تمہارے لیے بےچینی اور بےکلی صرف اس لیے ہے کہ وہ نذیر مبین یعنی کھلا کھلا ڈرانے والا اور خبردار کرنے والا ہے۔ وہ جن خطرات سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے جس عذاب سے تمہیں ڈرا رہا ہے جس آنے والی قیامت سے تمہیں ہوشیار کر رہا ہے یہ اس کے لیے دیکھی بھالی حقیقتیں ہیں وہ ان خطرات کا پوری طرح یقین رکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اگر تم نے غفلت نہ چھوڑی اور ان خطرات سے بچنے کی کوشش نہ کی تو آخر تم تباہ ہوجاؤ گے ہونا تو یہ چاہیے کہ تم اس کے اس خیر خواہانہ جذبے اور اس کے ہمدرادانہ رویے کی قدر کرو اور اس کی دعوت کو قبول کر کے اپنی زندگی بنا لو لیکن تم نے اس کی بجائے اسے مجنون کہنا شروع کردیا ہے ہر پیغمبر اللہ کی جانب سے جب مبعوث ہوتا ہے تو وہ اللہ کی جانب سے ان صفات کا حامل ہو کر آتا ہے اور آنحضرت ﷺ تو تمام صفات ِ نبوت کے جامع تھے اور آپ نے جب عام دعوت کا آغاز کیا ہے تو اس کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا ہے اس میں اسی حقیقت کا اظہار کیا گیا تھا آپ نے کوہ صفا کی بلندی پر چڑھ کر تمام قبائل کو پکارا لوگ جب پہاڑ کے دامن میں جمع ہوگئے تو آپ نے سب سے پہلے ان سے یہی بات پوچھی کہ اے آل غالب تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے ؟ تم مجھے ایک سچا آدمی سمجھتے ہو یا جھوٹا ؟ جب سب نے آپ کی سچائی کا اقرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم واقعی مجھے ایک سچا آدمی سمجھتے ہو تو میں تمہیں اگر یہ کہوں کہ فوجِ گراں پشت کوہ صفا پر پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پا کر تو بتائو تمہارا کیا جواب ہوگا ؟ کہا تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور ا میں ہے کہا گر مری بات یہ دل نشیں ہے تو سن لو خلاف اس میں ہرگز نہیں ہے کہ سب قافلہ ہے یاں سے ہے جانے والا ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا اس میں آپ غور کیجیے کہ آنحضرت ﷺ ایک بلند جگہ پر کھڑے ہیں اور تمام لوگ پستی میں بیٹھے ہیں اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ میں نبوت کے بلند مقام سے بول رہا ہوں جس سے میں سامنے بھی دیکھ رہا ہوں اور پیچھے بھی۔ تم اس پہاڑ کے پیچھے کچھ نہیں دیکھ سکتے میں تمہیں دیکھ کر بتاسکتا ہوں کہ کوئی حملہ آور ہے کہ نہیں۔ چناچہ زندگی کے اس پہاڑ کے پیچھے دیکھ کر میں تمہیں بتارہا ہوں کہ یہ قافلہ یہاں سے ایک نہ ایک دن چلا جائے گا یعنی سب کو ایک نہ ایک دن موت کا شکار ہونا ہے اور اس کے بعد اللہ کے روبرو حاضری ہوگی۔ حاصل کلام یہ کہ آنحضرت ﷺ چونکہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ آپ اللہ کی جانب سے جس عظیم منصب پر فائز ہوئے ہیں اس کی خصوصیت یہ ہے کہ نبی جو بات کہتا ہے وہ پورے یقین سے اور دیکھ کر کہتا ہے اس لیے جب لوگ اس کی بات کو قبول نہیں کرتے تو اس کی بےچینی اور بےکلی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے وہ دیکھ رہا ہوتا ہے خطرہ ان کے سر پر کھڑا ہے اور اگر انھوں نے اس کی فکر نہ کی تو یہ خطرے کا شکار ہوجائیں گے وہ جیسے جیسے انکار کرتے ہیں یہ ویسے ویسے خطرے کو محسوس کر کے بےچین ہوتا جاتا ہے۔ قریش مکہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ حضور ﷺ کی یہ بےچینیاں اس لیے نہیں ہیں کہ آپ پر جنون کا اثر ہے بلکہ اس لیے ہیں کہ آپ کو اللہ نے نذیر مبین بنا کر بھیجا ہے۔ دوسری بات جس سے قریش مکہ کی مخالفت اور آپ کو مجنون کہنے کی حقیقت واضح ہوتی ہے اس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔
Top