Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 184
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ
: کیا
لَمْ يَتَفَكَّرُوْا
: وہ غور نہیں کرتے
مَا بِصَاحِبِهِمْ
: نہیں ان کے صاحب کو
مِّنْ
: سے
جِنَّةٍ
: جنون
اِنْ
: نہیں
هُوَ
: وہ
اِلَّا
: مگر
نَذِيْرٌ
: ڈرانے والے
مُّبِيْنٌ
: صاف
کیا انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا ؟ کہ ان کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ تو بس ایک کھلا ہوا ہوشیار کرنے والا ہے۔
اگلی آیت کریمہ میں قریش نے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے کے لیے ایک اشغلاء چھوڑا تھا اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْاسکتۃ مَا بِصَاحِبِہِمْ مِّنْ جِنَّۃٍط اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ (الاعراف : 184) ” کیا انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا ؟ کہ ان کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ تو بس ایک کھلا ہوا ہوشیار کرنے والا ہے “۔ نبی کریم ﷺ نے جب اہل مکہ کے سامنے اللہ کے دین کی دعوت پیش کی تو شروع شروع میں تو قریش مکہ نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن رفتہ رفتہ جب اس دعوت نے نفوذ اختیار کرنا شروع کیا اور لوگ آہستہ آہستہ اس سے متاثر ہونے لگے اور ہر گھرانے اور خاندان میں یہ دعوت اپنے حامی پیدا کرنے لگی تو اب ان کو فکر ہوئی لیکن ان کے لیے مشکل یہ تھی کہ اس دعوت کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ اگرچہ نہایت بہترین عربی زبان جانتے تھے اور ان میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر بھی پائے جاتے تھے اور ان کی فصاحت و بلاغت میں بھی کوئی شبہ نہ تھا لیکن قرآن کریم کے سامنے ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں۔ آنحضرت ﷺ کی دل آویز شخصیت آپ کا بےعیب کردار آپ کی خاندانی وجاہت آپ کا زور بیان آپ کا دلوں میں اتر جانے والا اخلاق بجائے خود اپنے اندر بےپناہ دعوتی اثر رکھتا تھا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جب آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو چھوٹے بڑے اپنا دل تھام کر رہ جاتے قریش کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہم آخر اس دعوت کا راستہ کیسے روکیں آخر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں بھی قرآن پڑھا جائے اس کے قریب شور مچائو تاکہ لوگ قرآن کو سن نہ سکیں اور جہاں حضور ﷺ دعوت پیش کریں اس کا تمسخر اڑائو تاکہ لوگ اسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے محض ایک مذاق سمجھیں لیکن جب اس کے باوجود بھی دعوت کے اثرات رکنے کی بجائے مزید آگے بڑھنے لگے تو اب انھوں نے بہت سوچ بچار کے بعد آنحضرت ﷺ کی ذات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ آپ ﷺ کو ساحر یعنی جادو گر کہا گیا لیکن جب یہ بات نہ چل سکی تو پھر آپ ﷺ کو مجنون اور دیوانہ کہا جانے لگا۔ قرآن کریم نے ان کے اس الزام اور ان کی اس حرکت کا نہایت سنجیدگی اور دلیل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس جواب کو واضح کروں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ آنحضرت ﷺ کو کس بنیاد پر مجنون اور پاگل قرار دیتے تھے یا یہ کہتے تھے کہ آپ ﷺ میں جنون کے آثار پائے جاتے ہیں اور کبھی کبھی آپ سے اس کا اظہار بھی ہونے لگتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن کریم نے دو باتوں کی طرف راہنمائی کی ہے پہلی بات یہ کہ قریش دیکھ رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ ان کے سامنے جو دعوت پیش کر رہے ہیں وہ کسی طرح بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں حضور جیسے جیسے دعوت میں تیزی پیدا کرتے جا رہے ہیں ویسے ویسے قریش کی جانب سے مخالفت میں شدت پیدا ہوتی جار ہی ہے اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ حضور یا تو مایوس ہو کر دعوت بند کردیتے اور یا دعوت کی تیزی میں کمی کردیتے لیکن آپ نے اس کے بالکل برعکس دعوتی کوششوں میں اضافہ فرما دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اب آپ صرف دعوت ہی پیش نہیں فرماتے تھے بلکہ یہ وارننگ بھی دیتے تھے کہ اگر تم نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو یاد رکھو تمہارا انجام وہی ہوگا جو اس سے پہلے قوم عاد وثمود کا ہوچکا ہے تم دنیا میں ہی اللہ کے عذاب کی گرفت میں آجاؤ گے اور اگر پروردگار نے تمہیں مزید ڈھیل دے بھی دی تو قیامت کے عذاب سے تم کسی طرح نہیں بچ سکتے۔ آپ کا تمام مخالفتوں اور اذیتوں کے باوجود نہایت ہمدردی ‘ غم گساری اور جان کا ہی کے ساتھ ایک ایک شخص تک دعوت پہنچانا اور اس کے اذیت ناک رویے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خون جگر پی پی کر راہ راست پہ لانے کی کوشش کرنا یہ ایک ایسا طرز عمل تھا جو ایک طرف اگر قریش کے لیے ناقابلِ فہم تھا تو دوسری طرف عام افراد کے لیے اثر انگیز تھا ایک خالی الذہن آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ یہ ہمارے شہر کا ایک عالی نسب شخص جسے ہم سے کوئی غرض نہیں وہ ہم سے کسی معاوضہ کا طالب نہیں وہ محض ہماری بھلائی کے لیے جس طرح دکھ اٹھا اٹھا کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر ہماری ہدایت کے لیے کوششیں کر رہا ہے آخر اس میں کوئی تو صداقت ہوگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے اس رویہ کے باعث پہلے سوچنے پر مجبور ہوتے اور پھر ایمان کی طرف بڑھنے لگتے۔ قریش کو اس صورت حال نے پریشان کردیا کہ آخر لوگوں کو اس دعوت کے اثر سے کیسے بچایا جائے انھوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ دیکھو تم محمد ﷺ کی دل آویز شخصیت اور اس کے خیر خواہانہ رویے پر نہ جاؤ بلکہ یہ دیکھو کہ وہ جس طرح بار بار تمہیں عذاب سے ڈرا رہا ہے اور کبھی آنے والی قیامت کی خبریں دیتا ہے اور پھر تم ہزار انکار کرو وہ کبھی اپنی بات کہنے سے نہیں رکتا۔ کسی عقلمند آدمی کا یہ رویہ تو نہیں ہوتا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا فوبیا ہوگیا ہے اور اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اس نے ایک جنون کی شکل اختیار کرلی ہے وہ اپنی ذات میں چاہے کتنا ہی عظیم سہی لیکن بڑے بڑے لوگ بھی بعض دفعہ اختلالِ دماغ یا وہم کا شکار ہوجایا کرتے ہیں چناچہ یہ بھی ایسے ہی کسی عارضہ میں مبتلا ہے جو باتیں وہ محض اپنے جنون کی وجہ سے کہہ رہا ہے تم اسے چنداں اہمیت نہ دو اور مجنون سمجھ کر اس کی بات کو ٹال دو اس طرح قریش نے وقتی طور پر آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم نے دو باتیں اس سلسلے میں ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ تم جس شخص کے بارے میں جنون کا الزام لگا رہے ہو وہ کوئی اجنبی آدمی تو نہیں کسی دوسرے ملک یا کسی دوسرے شہر سے تو نہیں آیا وہ کسی دور کے خاندان سے تعلق بھی نہیں رکھتا تمہارے اپنے شہر کا رہنے والا ہے ‘ تمہارے ہی قبیلے قریش کا ایک معزز فرد ہے ‘ تمہارے سامنے اس کا بچپن ‘ اس کا لڑکپن ‘ اس کا بےداغ شباب گزرا تم ہمیشہ اس کے بےداغ کردار ‘ اس کی اصابت رائے ‘ اس کی سلامت روی ‘ اس کی صداقت شعاری ‘ اس کی بےغرضی ‘ اس کی پاک بازی اور اس کی دانش و بینش کی پختگی کے ہمیشہ گواہ رہے ہو وہ جوان تھا تو تمہارے بڑے بوڑھے اپنے جوان بیٹوں کو اس کا حوالہ دے دے کر سمجھایا کرتے تھے ‘ بنی ہاشم اس کی ذات اور اس کے طور اطوار پر فخر کیا کرتے تھے وہ عملی زندگی میں داخل ہوا اور تجارتی اسفار کیے تو اس کی تجارت کی دھوم مچ گئی اور اسی شہرت کی وجہ سے حضرت خدیجہ ( رض) نے اپنا مال تجارت لے جانے کے لیے ان سے درخواست کی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تعمیر کعبہ کے وقت تم میں اس بات پر اختلاف پیدا ہوا کہ حجر اسود کو کون اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کرے ؟ یہ چونکہ ایک یاد گار بن جانے والا عمل تھا اور اس کے سبب سے ایک افتخار اور اعزاز ملنے والا تھا تو اس لیے ہر قبیلہ کے سردار کی خواہش تھی کہ یہ عزت میرے حصے میں آئے چناچہ جب سب نے اسے حاصل کرنے پر اصرار کیا تو نوبت خون ریزی تک پہنچ گئی قریب تھا کہ تلواریں بےنیام ہوجاتیں کہ کسی نے مشورہ دیا کہ تم یہ معاملہ اللہ پر چھوڑو اور اس بات پر راضی ہوجاؤ کہ صبح سب سے پہلے جو شخص حرم میں داخل ہو اسے منصف بنا لیا جائے اور اس کے فیصلے کو قبول کرلیا جائے۔ چناچہ صبح کے وقت اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ رسول ﷺ سب سے پہلے حرم میں داخل ہوئے آپ کو دیکھ کر تمام سردرانِ قریش خوشی سے چیخ اٹھے کہ الامین آگیا اور الصادق آگیا ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں چناچہ آپ نے نہایت تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کیا جس سے تمام سردارانِ قریش کو برابر کی عزت ملی اور ایک بڑا خطرہ جو بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا ٹل گیا۔ آپ نے اپنی چادر زمین پر بچھائی اس پر حجر اسود رکھا فرمایا کہ تمام سردار چادر کے پلو پکڑ کر اوپر اٹھائیں جب حجر اسود اتنا بلند ہوگیا کہ اسے اٹھا کر اپنی جگہ پر نصب کیا جاسکتا تھا تو آپ نے خود اٹھا کر اسے نصب فرمادیا۔ کہنا یہ ہے کہ جس ذات عزیز کے بارے میں نبوت سے پہلے تمہارے یہ تصورات تھے کہ تم اس کے سیرت و کردار اور اس کی اصابتِ فکر کے بارے میں دو رائے نہیں رکھتے تھے بلکہ پورا مکہ بیک زبان اس کی عقل و دانش کا معترف اور اس کے بےداغ سیرت و کردار کا گواہ تھا آج آخر ایسی بات کیا ہوگئی ہے کہ تم نے اس کو مجنون قرار دینا شروع کردیا ہے۔ تمہارا یہ رویہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دماغ میں تو کوئی جنون نہیں البتہ تمہاری نیت میں فتور ضرور ہے۔ رہی یہ بات کہ تمہاری ساری مخالفتوں اور اذیتوں کے باوجود حضور ﷺ اپنی دعوتی کاوشوں میں کمی کرنے کی بجائے روز بروز اضافہ فرماتے جارہے ہیں تم ان سے بد سلوکی کرتے، گالیاں بکتے اور مذاق اڑاتے ہو اور ہر ممکن طریق سے ان کی دعوت کو بےاثر کرنے کی کوشش کرتے ہو لیکن ان کے اندر کوئی منفی رویہ پیدا نہیں ہوتا جس طرح ایک ماں اپنے بگڑے ہوئے بچہ کی بد تمیزیاں دیکھ کر ناراض ہونے کی بجائے آنکھوں میں آنسو بھر کر پھر اسے پکار کے اور سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ بھی ان کی ساری بد تمیزیوں کے باوجود اپنی اصلاحی کوششوں کو کسی طرح بھی روکنے کو تیار نہیں ہوتے تھے تو اس کا سبب کوئی جنون نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نذیر مبین بنا کر بھیجا ہے۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ کسی طرف سے خطرہ محسوس کرتے تھے کہ شائد رات کی تاریکی یا ہماری غفلت میں فلاں قبیلہ ہم پر حملہ کر دے تو اس قبیلے سے آگاہ رہنے کے لیے کسی شخص کو مقرر کردیا جاتا تھا تاکہ وہ کسی بلند جگہ سے اس قبیلہ کی نگرانی کرے اور جب بھی اسے خطرہ کا احساس ہو وہ اپنی قوم اور اپنے قبیلے کو فوراً آگاہ کرے۔ چناچہ جب اسے خطرہ کا یقین ہوجاتا اور وہ دیکھتا کہ فلاں قبیلہ ہم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو وہ کپڑے پھاڑ کر چیختا ہوا اپنی قوم کی طرف بھاگتا اور انھیں آنے والے خطرے سے آگاہ کردیتا قوم چونکہ اس سے بیخبر ہوتی لیکن یہ خبر دار کرنے والا چونکہ اس خطرہ کو دیکھ چکا ہوتا اس لیے اپنی ساری صلاحیتیں اپنی قوم کو بچانے کے جذبے سے بروئے کار لاتا ‘ چیختا چلاتا جو بھی اس سے ہوسکتا وہ قوم کو اس خطرے سے بچانے اور خبردار کرنے کے لیے کر گزرتا ایسے شخص کو عرب نذیر عریان یعنی برہنہ خبردار کرنے والا کہتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے اسی تصور کے حوالے سے انھیں بتلایا ہے کہ ہمارے پیغمبر کی تمہارے لیے بےچینی اور بےکلی صرف اس لیے ہے کہ وہ نذیر مبین یعنی کھلا کھلا ڈرانے والا اور خبردار کرنے والا ہے۔ وہ جن خطرات سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے جس عذاب سے تمہیں ڈرا رہا ہے جس آنے والی قیامت سے تمہیں ہوشیار کر رہا ہے یہ اس کے لیے دیکھی بھالی حقیقتیں ہیں وہ ان خطرات کا پوری طرح یقین رکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اگر تم نے غفلت نہ چھوڑی اور ان خطرات سے بچنے کی کوشش نہ کی تو آخر تم تباہ ہوجاؤ گے ہونا تو یہ چاہیے کہ تم اس کے اس خیر خواہانہ جذبے اور اس کے ہمدرادانہ رویے کی قدر کرو اور اس کی دعوت کو قبول کر کے اپنی زندگی بنا لو لیکن تم نے اس کی بجائے اسے مجنون کہنا شروع کردیا ہے ہر پیغمبر اللہ کی جانب سے جب مبعوث ہوتا ہے تو وہ اللہ کی جانب سے ان صفات کا حامل ہو کر آتا ہے اور آنحضرت ﷺ تو تمام صفات ِ نبوت کے جامع تھے اور آپ نے جب عام دعوت کا آغاز کیا ہے تو اس کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا ہے اس میں اسی حقیقت کا اظہار کیا گیا تھا آپ نے کوہ صفا کی بلندی پر چڑھ کر تمام قبائل کو پکارا لوگ جب پہاڑ کے دامن میں جمع ہوگئے تو آپ نے سب سے پہلے ان سے یہی بات پوچھی کہ اے آل غالب تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے ؟ تم مجھے ایک سچا آدمی سمجھتے ہو یا جھوٹا ؟ جب سب نے آپ کی سچائی کا اقرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم واقعی مجھے ایک سچا آدمی سمجھتے ہو تو میں تمہیں اگر یہ کہوں کہ فوجِ گراں پشت کوہ صفا پر پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پا کر تو بتائو تمہارا کیا جواب ہوگا ؟ کہا تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور ا میں ہے کہا گر مری بات یہ دل نشیں ہے تو سن لو خلاف اس میں ہرگز نہیں ہے کہ سب قافلہ ہے یاں سے ہے جانے والا ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا اس میں آپ غور کیجیے کہ آنحضرت ﷺ ایک بلند جگہ پر کھڑے ہیں اور تمام لوگ پستی میں بیٹھے ہیں اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ میں نبوت کے بلند مقام سے بول رہا ہوں جس سے میں سامنے بھی دیکھ رہا ہوں اور پیچھے بھی۔ تم اس پہاڑ کے پیچھے کچھ نہیں دیکھ سکتے میں تمہیں دیکھ کر بتاسکتا ہوں کہ کوئی حملہ آور ہے کہ نہیں۔ چناچہ زندگی کے اس پہاڑ کے پیچھے دیکھ کر میں تمہیں بتارہا ہوں کہ یہ قافلہ یہاں سے ایک نہ ایک دن چلا جائے گا یعنی سب کو ایک نہ ایک دن موت کا شکار ہونا ہے اور اس کے بعد اللہ کے روبرو حاضری ہوگی۔ حاصل کلام یہ کہ آنحضرت ﷺ چونکہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ آپ اللہ کی جانب سے جس عظیم منصب پر فائز ہوئے ہیں اس کی خصوصیت یہ ہے کہ نبی جو بات کہتا ہے وہ پورے یقین سے اور دیکھ کر کہتا ہے اس لیے جب لوگ اس کی بات کو قبول نہیں کرتے تو اس کی بےچینی اور بےکلی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے وہ دیکھ رہا ہوتا ہے خطرہ ان کے سر پر کھڑا ہے اور اگر انھوں نے اس کی فکر نہ کی تو یہ خطرے کا شکار ہوجائیں گے وہ جیسے جیسے انکار کرتے ہیں یہ ویسے ویسے خطرے کو محسوس کر کے بےچین ہوتا جاتا ہے۔ قریش مکہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ حضور ﷺ کی یہ بےچینیاں اس لیے نہیں ہیں کہ آپ پر جنون کا اثر ہے بلکہ اس لیے ہیں کہ آپ کو اللہ نے نذیر مبین بنا کر بھیجا ہے۔ دوسری بات جس سے قریش مکہ کی مخالفت اور آپ کو مجنون کہنے کی حقیقت واضح ہوتی ہے اس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔
Top