Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 184
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَتَفَكَّرُوْا : وہ غور نہیں کرتے مَا بِصَاحِبِهِمْ : نہیں ان کے صاحب کو مِّنْ : سے جِنَّةٍ : جنون اِنْ : نہیں هُوَ : وہ اِلَّا : مگر نَذِيْرٌ : ڈرانے والے مُّبِيْنٌ : صاف
کیا انہوں نے غور نہیں کیا ؟ کہ ان کے رفیق محمد ﷺ کو (کسی طرح کا بھی) جنون نہیں ہے۔ تو وہ ظاہر ظہور ڈر سنانے والے ہیں۔
تہدید بر عدم نظر وفکر وتذکریر موت قال اللہ تعالیٰ اولم یتفکرو ما بصاحبہم من جنۃ۔۔۔ الی۔۔۔ ویذورھم فی طغیانھم یعمھون (ربط) گزشتہ آیات میں گمراہوں اور آخرت سے غافلوں کی تہدید وتوبیخ کا ذکر تھا اب ان آیات میں ان کی غفلت اور گمراہی کے سبب کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ غور وفکر سے کام نہیں لیتے اس لیے کبھی نبوت رسالت کے بارے میں ان کو شبہ لاحق ہوتا ہے اور کبھی خداوند ذوالجلال کی الوہیت اور ربوبیت میں شبہ پیش آتا ہے اگر یہ لوگ حضور پر نور ﷺ کے حال اور معجزات میں غور کرتے تو آپ کی نبوت و رسالت میں ان کو شبہ نہ ہوتا اور اگر آسمان و زمین کی خلقت میں غور کرتے تو خدا کی وحدانیت میں کوئی شبہ نہ رہتا ان کو چاہئے کہ اس بات میں غور کریں کہ شاید ان کی موت اور ہلاکت کا وقت قریب آگیا ہے اس لیے ان کو چاہئے کہ موت آنے سپہلے سنبھل جائیں اور مابعد الموت کی تیاری کریں۔ ربط دیگر : گزشتہ آیات میں ان کے قصور کا بیان تھا اب ان آیات میں ان کے بیہودہ شبہات کا جواب ہے۔ ایک شبہ تو آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات کے متعلق کرتے تھے کہ یہ مدعی نبوت کوئی دیوانہ شخص معلوم ہوتا ہے اور دوسرا شبہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے متعلق تھا اب ان آیات میں ان بیہودہ شبہات کا جواب دیتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں کیا یہ نادان آنحضرت ﷺ کی طرف جنون کی نسبت کرتے ہیں اور انہوں نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ ان کے رفیق محمد ﷺ کو جنون سے ذرہ برابر کوئی مس بھی نہیں ہمیشہ سے آپ کے ساتھ رہے اور یہ لوگ آپ کے حال سے بخوبی واقف ہیں دنیاوی لذات سے کنارہ کش اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ ہیں دن رات حکمت وموعظمت کی باتیں بتلاتے ہیں آپ تو صرف صاف طور پر آئندہ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں اور ایسی علم و حکمت کی باتیں ایک مجنون سے سرزد نہیں ہوسکتیں جس کو یہ مجنون کہتے ہیں دل سے ان کو بھی یقین ہے کہ مجنون کی باتیں ایسی نہیں ہوتیں کیا ان لوگوں نے دیدہ عقل سے آسمانوں اور زمین کے ملک عظیم میں نظر نہیں کی یعنی نجوم اور کواکب اور شمس وقمر اور کوہ ودریا میں نظر نہیں کی اور ان کے علاوہ خدا تعالیٰ نے قسم قسم کی جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کو نہیں دیکھا جس سے صانع کی کمال قدرت اور مبدع کی جماع وحدت ان پر ظاہر ہوجاتی کیونکہ عالم کا ذرہ ذرہ اس کی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہے اور نہ ان لوگوں نے اس بات کا خیال کیا کہ شاید ان کی موت قریب آگئی ہو اور اس ڈر سے توبہ کرلیں کہ کہیں کفر کی حالت میں نہ مرجائیں پس اس قرآن کے بعد کون سی بات پر ایمان لائیں گے اس کے بعد تو قیامت تک کوئی کتاب نازل ہوئی ہی نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کی آخری کتاب ہے جس سے تمام پہلی کتابیں منسوخ ہوگئیں جس کو اللہ گمراہ کرے اور توفیق سے اس کو محروم کرے پس اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور ان معاندین کو خدا تعالیٰ گمراہی سے نکالتا نہیں بلکہ ان کو ان کی گمراہی اور سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے کہ اسی میں برابر سرگرداں اور حیران پھرتے رہیں اور راہ راست پر نہ آئیں اور آخرت پر ایمان نہ لائیں ان آیتوں میں استدراج کو بیان کیا جس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یہاں تک کہ وہ عیش و عشرت میں ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ دل کے اندھے ہوجاتے ہیں اور جس منع حقیقی نے یہ نعمتیں دی ہیں اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں بلکہ اس کو بھلا دیتے ہیں جب غفلت کی اس منزل میں پہنچ جاتے ہیں تو پکڑے جاتے ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ یہ سارا ماجرا از اول تا آخر قضاء وقدر میں طے ہوچکا ہے۔ اب ائندہ آیت میں مشرکین کے ایک احمقانہ سوال کو ذکر کر کے اس کا جواب دیتے ہیں۔
Top