Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
(اے محمد ﷺ ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے
23۔ 31۔ اوپر نیک و بد لوگوں کا اور جنت اور دوزخ کا حال تھا اس قسم کی آیتیں آنحضرت ﷺ سے حشر کے منکر لوگ جب سنتے تو یہ کہتے کہ محمد ﷺ نے یہ خلاف عقل باتیں اپنی طرف سے بنا لی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ ان لوگوں کو تو ایک سیدھی سی بات بتا دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ قرآن کو کلام انسان جانتے ہیں تو ایک چھوٹی سی سورة یہ لوگ بھی بنا کر پیش کریں۔ جب اس بات سے یہ لوگ عاجز ہیں تو پھر ان لوگوں کا قرآن کو کلام انسان کہنا محض ان کی ہٹ دھرمی ہے۔ یہ کلام بلاشک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو سہج سہج ضرورت کے موافق ‘ اے نبی اللہ کے اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل فرمایا ہے۔ یہ جو فرمایا تو راہ دیکھ اپنے رب کے حکم کی اور ان گناہ گار ناشکر لوگوں کی باتوں کا کچھ خیال نہ کر۔ یہ راہ دیکھنے کا حکم جہاد کا حکم تھا جس کے نازل ہونے کے بعد آخر کو مکہ فتح ہوا اور اہل مکہ اسلام کے تابع ہوگئے تفسیر مقاتل میں 1 ؎ ہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن مغیرہ نے ایک روز آنحضرت ﷺ سے کہا تھا کہ اے محمد ﷺ تم یہ نئی دین کی باتیں دنیا کمانے کے لئے کرتے ہو تو ہم بہت سامان تمہارے لئے جمع کرسکتے ہیں اور مکہ میں جو عورت تمہاری پسند کی ہو اس سے تمہارا نکاح کرا سکتے ہیں یہاں تک کہ عتبہ اپنی بیٹی بغیر مہر کے آپ ﷺ کے نکاح میں دینے کو راضی ہوگیا۔ یہ عورت نہایت خوبصورت تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا کہ یہ لوگ آخرت کے تو منکر ہیں فقط دنیا پر ان لوگوں کا مدار ہے اور اللہ کے نزدیک دنیا کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لئے اے نبی اللہ کے تم ان لوگوں کی ایک نہ سنو اور لوگوں کی نصیحت اور اللہ کی عبادت میں جہاں تک ممکن ہو رات دن لگے رہو۔ اللہ تمہاری ہر طرح کی مدد کو کافی ہے۔ یہ گناہ گار کافر لوگ تمہاری کیا مدد کرسکتے ہیں۔ مقاتل بن سلیمان کی تفسیر کو امام شافعی (رح) نے معتبر کہا ہے۔ مستدرک 2 ؎ حاکم میں ابو سعید خدری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس طرح تم لوگ اپنے بیمار آدمی کو بد پرہیزی کی چیزوں سے بچاتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو دنیا کی ثروت سے بچاتا ہے۔ حاکم 3 ؎ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اس باب میں صحیح ابن حبان اور طبرنی وغیرہ میں متعبر سند سے اور بھی روایتیں ہیں۔ مستند 4 ؎ ابو یعلی ‘ طبرانی ‘ مستدرک حاکم میں معتبر سند سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حشر کے میدان میں سورج کے قریب آجانے سے گناہ گار لوگوں کو پسینے اور گرمی کی ایسی تکلیف ہوگی کہ وہ اس تکلیف سے دوزخ میں جانے کو اچھا گنیں گے اس سے خیال کیا جاسکتا ہے کہ جب اس دن کی ایک چھوٹی سی تکلیف ایسی بھاری ہوگی تو اور بڑی تکلیفوں کا کیا ٹھکانہ ہے۔ اسی واسطے اس دن کو بھاری فرمایا۔ حشر کی باتوں کو یہ لوگ خلاف عقل جو کہتے تھے اس کے جواب میں فرمایا کہ پانی جیسی پتلی چیز سے جب اللہ تعالیٰ نے ان کی ہڈی پسلی وغیرہ ی سب مضبوط چیزیں ان کی آنکھوں کے سامنے پیدا کردیں تو وہ جب چاہے ان کے غارت کرنے کے بعد ان جیسی اور مخلوق کو یا حشر کے دن انہی کو پیدا کرسکتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے جو چیز ایک دفعہ آچکی تو پھر دوبارہ اس کے پیدا ہوجانے کا انکار ‘ یہ خلاف عقل سلیم ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن تو اللہ کی طرف سے ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اس نصیحت کو سن کر اس کے موافق عمل کرے تاکہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ اچھا ہو مگر اتنی بات ہے کہ جو لوگ راہ پر آنے والے تھے وہ اور جو ان کے برعکس تھے وہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ کے علم ازلی میں چھانٹے جا چکے ہیں اس کے موافق جن کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے وہ باوجود نصیحت کے کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں اور مجبور کرکے ان کو راہ پر لانا اللہ کو منظور نہیں کیونکہ مجبوری کا ایمان مجبوری کی عبادت کچھ اس کی بارگاہ میں قبول نہیں۔ اس واسطے نتیجہ یہی ہوگا کہ ان میں کے بعض لوگ حالت شرک میں مریں گے اور اس کی سزا میں ان کو قیامت کے دن سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔ آیت ان الشرک لظلم عظیم کے موافق یہاں بھی ظلم کے معنی شرک کے ہیں۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 90 ج 4) (2 ؎ الترغیب والترہیب الترغیب فی الفقر وقلۃ ذات الید ص 226 ج 4۔ ) (3 ؎ الترغیب والترہیب ص 266 ج 4۔ ) (4 ؎ الترغیب والترہیب فصل فی الحشر وغیرہ ص 745 ج 4۔ )
Top