Maarif-ul-Quran - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
(اے محمد ﷺ ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے
عظمت کلام رب العالمین وتاکید برپابندی احکام و دوام ذکر و بندگی : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” انا نحن نزلنا علیک القران ...... الی .......... عذابا الیما “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں انسانی تخلیق کا ذکر تھا اور یہ کہ اسکو عقل وفہم کی صلاحیتوں سے آراستہ کرکے ہدایت وگمراہی کا فرق بتادیا گیا لیکن اسکے بعد اسکی بدنصیبی ہے کہ وہ عقل و شعور کو بالائے طاق رکھ کر گمراہی میں پڑجائے اسکے بالمقابل سعادت و کامیابی ہے ان انسانوں کی جو خدا کو پہچان کر اس کی عبادت و بندگی میں مصروف ہوگئے ساتھ ہی ہر دو گروہ کے احوال بھی بیان کردیئے گئے اب ان آیات میں قرآن کریم کی عظمت اور احکام ہدایت کا کامل مجموعہ ہونا بیان کیا جارہا ہے اور یہ کہ اللہ کے احکام کی پابندی اور اس کے ذکر وتسبیح میں مصروف رہنا اور عبادت کا دوام ہی انسان کی نجات کا ذریعہ ہے اور آخرت کی کامیابی اور ابدی زندگی کی راحت اسی میں مضمر ہے اور یہ کہ انسان کی یہ بہت بڑی غلطی اور چوک ہے کہ دنیا کی محبت میں آخرت برباد کردے تو ارشاد فرمایا۔ بیشک ہم نے اتارا ہے آپ قرآن نہایت ہی محفوظ طریقہ پر اتارنا کہ ہر وحی اور آیت کے نزول کے ساتھ ایک پہرہ ہوتا ہے اور فرشتوں کی مکمل حفاظت ہوتی ہے جس کے بعد ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس میں کوئی پر بھی مارے اس کتاب الہی قرآن میں انسانی ہدایات کے جامع احکام نازل کیئے گئے جن کی اطاعت وپیروی انسان کو سعادت و کمال کے اعلی مقام تک پہنچانے والی ہے اگر کوئی قوم اس کتاب الہی پر ایمان نہیں لاتی اور اسکے احکام نہیں مانتی تو اے ہمارے پیغمبر آپ ﷺ اس پر بےچین ومضطرب نہ ہوں بس آپ انتظار کریں اپنے رب کے حکم کا اور اسکے فیصلہ کا جو اس نے حق کی فتح اور اپنے پیغمبر کی کامیابی کا کر رکھا ہے اور اس راہ میں مخالفت کرنے والے اگر مخالفت کرتے ہیں تو کرنے دیجئے آپ ﷺ کسی عارضی اور ظاہری مصلحت کے خیال سے ان میں سے کسی بھی نافرمان اور ناشکرگزار کی موافقت ہر گزنہ کیجئے، حق لوگوں پر خود واضح ہوجائے گا یہ مجرمین اگر آپ ﷺ سے چکنی چپڑی باتیں کریں یا دنیا کی دولت کا لالچ دین تو ہرگز انکی طرف توجہ بھی نہ دیجئے آپ نے جو فیصلہ کر رکھا ہے بس اسی کا انتظار کریں اور ذکر کرتے رہیں اپنے رب کے نام کا صبح وشام۔ حاشیہ (صبح وشام سے مراد ہمہ وقت ہے کیونکہ یہ اوقات خصوصیت سے انسان کے غفلت یا آرام یا کاروبار یا کھیل تماشے کے ہوتے ہیں تو انکو اہمیت کے لحاظ سے ذکر کردیا گیا اور (آیت) ” من الیل “ سے بظاہر تہجد کی نماز مراد ہے اور تہجد کے ساتھ تسبیح اور ذکر خداوندی کی تاکید اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ذاکرین کو تہجد کے علاوہ رات کا طویل حصہ ذکر وتسبیح میں گذارنا چاہئے۔ 12) اور رات کے حصوں میں سے کچھ حصہ میں بھی بس اسی کے لئے سر بسجود رہئے اور اسی کی تسبیح و پاکی بیان کرتے رہئے رات کے طویل حصہ تک شب کی تنہائی اور سکون میں ذکر اللہ کی حلاوت اور اسکے باطن پر عجیب کیفیت محسوس ہوگی اور اہل اللہ اس وقت وہ لذت محسوس کریں گے کہ دنیا کی کوئی لذیذ سے لذیذ چیز بھی اس سے زیادہ محبوب وپسندیدہ نہیں ہوسکتی۔ حاشیہ (چنانچہ مشہور ہے اہل اللیل فی لیلھم ھم الذین اہل العیش فی عیشھم کہ راتوں کو بیدار رہنے والے عابدین وذاکرین کو ذکر اللہ سے وہ لذت محسوس ہوتی ہے جو عیش پرستوں کو اپنے عیش عشرت میں نصیب نہیں ہوسکتی۔ 12) محبوب رکھتے ہیں جلدی حاصل ہونے والی چیز کو یعنی دنیا اور دنیا کی راحت ولذت اور چھوڑ رہے ہیں اپنے پیچھے ایک بہت ہی بھاری دن کو جس کی ہیبت وگرانی کسی سے برداشت نہ ہوگی غفلت و لاپرواہی سے اس دن کو بھلا دیا اور موجودہ لذتوں میں منہک ہو کر عذاب خداوندی کو دعوت دے رہے ہیں کس ظلم کی بات ہے کہ اپنے خالق کو بھلا دیا جائے ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے ہم نے ہی انکو پیدا کیا ہے اور مضبوط بنائے ہیں انکے جسم کے تمام جوڑ تو جس قدرت و حکمت سے ہم نے انکو پیدا کیا انکے جسم کی ہڈیاں اور جوڑ بڑی خوبی اور حکمت سے بنائے اسی قدرت سے ہم سب کچھ کرسکتے اور انکو فنا کرکے جب چاہیں انکے بدلے ان جیسے لوگ لے آئیں ہمیں اس ارادہ سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور یہ ظاہر ہے کہ جب ہم مجرمین ونافرمانوں کو ہلاک کرکے انکی جگہ دوسروں کو لائیں گے تو وہ ان جیسے مجرم ونافرمان نہیں ہوں گے بلکہ وہ مطیع وفرماں بردار ہوں گے، بہرحال یہ ایک پیغام نصیحت ہے جو ہم نے بڑی وضاحت سے دنیا کو پہنچا دیا اب جس کا دل چاہے گمراہی اختیار کرلے اور اصل راز یہ ہے کہ ہدایت وگمراہی قدرت کی طرف سے انسانوں کے لیے طے کردی گئی ہے اس لئے تم نہیں چاہو گے کوئی چیز مگر وہی جو اللہ چاہے اللہ بیشک سب کچھ جاننے والا بڑی ہی حکمتوں والا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کو اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے وہ اپنی استعداد وصلاحیت سے بتوفیق خداوندی ہدایت کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں اور رہا ظالموں کا معاملہ ؟ جو اپنی کجروی اور عقل و فطرت کے تقاضوں کو ٹھکرا کر گمراہی اختیار کرلیں اور نہ کسی ہادی کی بات کو سنیں اور نہ حق کو سمجھیں تو ان کے واسطے ایک درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے بس مرنے کی دیر ہے جسم سے روح نکلتے ہی ان مجرموں کو اپنا انجام نظر آجائے گا اور جس عذاب کا انکار کرتے تھے اسکی گرفت سے کسی طرح نہ بچ سکیں گے۔ فائدہ : سورت کی ابتداء اس بات سے تھی کہ انسان پر ایک ایسا وقت گذرا ہے کہ وہ نسیت ونابود تھا پھر اس کو حق تعالیٰ نے محض اپنی قدرت سے پیدا کیا کہ ایک قطرہ منی کو مختلف ادوار و مراحل سے نشوونما عطا کیا ہوش وحواش ادراک و شعور کی صلاحیتوں کے ساتھ اسے پیدا کیا اور اسکے سامنے دونوں راستے کھول کر رکھ دیئے گئے کہ یہ ہدا یت کا راستہ ہے اور دوسرا گمراہی کا اب اس کے بعد جو انسان اپنی فطری صلاحیت سے ہدایت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ آخرت میں جنت اور انعامات خداوندی کا مستحق ہے اور جو دیکھتی آنکھوں ہلاکت وگمراہی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو بس اسکے واسطے دردناک عذاب ہی ہونا چاہئے جو اسکے رب نے تیار کر رکھا ہے تو اس طرح سورت کا آغاز اور سورت کی انتہاء باہم نہایت ہی مربوط واقع ہوئی ہے اور یہ ربط قرآن کریم کے اعجاز اور کمال بلاغت کی دلیل ہے، تم بحمد اللہ تفسیر سورة الدھر۔
Top