Taiseer-ul-Quran - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
(اے محمد ﷺ ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے
ترجمہ : بیشک ہم نے قرآن کو آپ ﷺ پر بتدریج نازل کیا نحن، ان کے اسم کی تاکید ہے یا فصل کے لئے ہے (نزلنا علیک الخ) ان کی خبر ہے یعنی ہم نے قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا، پس تو اپنے رب کے حکم پر اس کے پیغام کو پہنچا کر قائم رہ اور ان کفار میں سے کسی گنہگار اور ناشکرے کی بات نہ مان یعنی عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن مغیرہ کی جنہوں نے نبی ﷺ سے کہا تھا کہ تم اپنی اس تحریک سے باز آجائو اور یہ بھی درست ہے کہ ہر گنہگار اور کافر مراد ہو یعنی ان میں سے تو کسی کی بات نہ مان اس گناہ اور کفر کے معاملہ میں جس کی طرف یہ آپ ﷺ کو دعوت دے رہے ہیں، اور اپنے رب کے نام کا نماز میں صبح و شام ذکر کیا کر یعنی فجر اور ظہر اور عصر میں اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدہ کر یعنی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھ، اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر (یعنی) رات میں نفل نماز پڑھا کر جیسا کہ سابق میں گزر چکا ہے، دو تہائی یا نصف رات یا ایک تہائی رات، بیشک یہ لوگ دنیا کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑ دیتے ہیں سخت دن کو، یعنی قیامت کے دن کو، کہ اس کے لئے عمل نہیں کرتے ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے اعضاء و مفاصل کو مضبوط کیا اور ہم جب چاہیں ان کے بدلے تخلیق میں ان جیسے (دیگر لوگ) لے آئیں اس طریقہ پر کہ ان کو ہلاک کردیں تبدیلا تاکید ہے اور اذا، ان کی جگہ واقع ہوا ہے جیسا کہ ” ان یشایذھبکم “ میں، مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا، اور اذا، یقینی الوقوع کے لئے استعمال ہوتا ہے، بیشک یہ سورت مخلوق کے لئے نصیحت ہے پس جو چاہے طاعت کے ذریعہ اپنے رب کی راہ اختیار کرے اور تم طاعت کے ذریعہ راستہ نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے (تشائون) تاء اور یاء کے ساتھ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اپنے فعل کے بارے میں علم و حکمت والا ہے جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلے اور وہ مومنین ہیں اور ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ کافر ہیں (الظالمین) کا ناصب فعل مقدر ہے اور وہ اعد ہے جس کی تفسیر اعدلھم کر رہا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : تاکید لاسم ان، اوفصل، اس عبارت کا مقصد انا نحن نزلنا الخ کی دو ترکیبوں کی طرف اشارہ کرنا ہے، (1) نحن، انا کی ضمیر کی تاکید ہے اور تاکید مؤکد سے مل کر مبتداء اور نزلنا اس کی خبر (2) انا مبتداء اول نحن ضمیر فصل، مبتداء ثانی نزلنا خبر مبتداء ثانی وہ اپنی خبر سے مل کر جملہ ہو کر، مبتداء اول کی خبر۔ قولہ : ان ھولاء یحبون العاجلۃ یہ ما قبل مذکور امرونہی کی علت ہے، یعنی آپ ﷺ مذکورین سے اعراض اور توجہ الی ذکر اللہ اس لئے کیجئے کہ ان لوگوں کے توجہ الی اللہ نہ کرنے کی وجہ دنیا طلبی اور آخرت سے بےخوفی ہے۔ قولہ : ویذرون وراء ھم یوما ثقیلا، ورائھم، یوما سے حال مقدم ہے اس لئے کہ دراصل وراء ھم، یوما نکرہ کی صفت ہے یوما ثقیلا موصوف صفت سے مل کر یذرون کا مفعول ہے۔ قولہ : وقعت اذا موقع ان اس عبارت کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اذا امور محققہ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا تو یہ امر محتمل ہوا نہ کہ محقق اور امور محتملہ کے لئے ان آتا ہے نہ کہ اذا ؟ جواب : اذا بمعنی ان ہے مجازاً ۔ قولہ : ذلک ای اتخاذ السبیل۔ قولہ : ناصبہ فعل مقدر یہ ما اضمر عاملہ علی شریطۃ التفسیر کے قبیل سے ہے یعنی الظالمین فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے ای اعد الظلمین اعدلھم۔ تفسیر و تشریح فاصبر لحکم ربک الخ یعنی آپ ﷺ کے رب نے جس کار عظیم پر آپ کو مامور کیا ہے اس کی راہ میں سختوں اور تکالیف پر صبر کرو، آپ ﷺ پر اس سلسلہ میں جو حالات بھی آئیں انہیں پامردی سے برداشت کرو، اور اس معاملہ میں کسی منکر حق کی بات نہ مانو خواہ وہ تمہیں کتنا ہی لالچ دے یا ڈرائے۔ کہا گیا ہے کہ آثم سے مراد عتبہ بن ربیعہ اور کفور سے مراد ولید بن مغیرہ ہے اس لئے کہ ان دونوں نے آپ ﷺ سے کہا تھا کہ اگر تم اپنے اس تبلیغی مشن کو ترک کردو تو ہم تم کو مالا مال کردیں گے اور عرب کی حسین ترین عورت سے شادی کردیں گے اور اپنا بادشاہ تسلیم کرلیں گے۔ تمت
Top