Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
اے پیغمبر ہم نے ہی آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْـنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلاً ۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تُطِعْ مِنْہُمْ اٰ ثِمًا اَوْکَفُوْرًا۔ (الدہر : 23، 24) (اے پیغمبر ہم نے ہی آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔ آپ اپنے رب کے حکم پر صبر کریں اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کی بات پر دھیان نہ دیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو صبر اور انتظار کی تلقین گزشتہ آیات میں منکرین کا انجام بھی بیان ہوا ہے اور مومنین کا بھی۔ ان دونوں کے درمیان چونکہ حد فاصل اور قول فیصل قرآن کریم اور اس کی لائی ہوئی تعلیم ہے اور اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو منکرین نے مخالفتوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ چناچہ اسی قرآن کریم کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے قریش کو سنایا جارہا ہے کہ ہم نے آپ پر جو قرآن کریم اتارا نہ آپ نے اس کی خواہش کی، نہ اس کے لیے دعا مانگی۔ قریش کا یہ کہنا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ قرآن کریم اتارا گیا ہوتا تو ایک ہی دفعہ نازل کیا جاتا۔ اسے سوچ سوچ کر تھوڑا تھوڑا تیار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کا ایک ہی دفعہ نازل نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ خود اسے سوچ سوچ کے بناتے ہیں اور جتنا تیار کرلیتے ہیں اتنا لوگوں کے سامنے لے آتے ہیں۔ چناچہ قریش کی اس ژاژخائی کو ختم کرنے اور ان کے اعتراضات کو رد کرنے کے لیے فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔ ایسا کیوں کیا ہے، یہ ہماری حکمت کا تقاضا ہے۔ اس سے پہلے مختلف مواقع پر اس کے فوائد اور منافع بھی ذکر کیے جا چکے ہیں۔ آیت کے الفاظ میں ایک تحکم اور جلال پایا جاتا ہے تاکہ قریش کو اس کا اندازہ ہو کہ ہم جو الٹی سیدھی مخالفت کررہے ہیں ہمیں اس کے نتائج کا اندازہ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا ہدف ذات محمد ﷺ ہے۔ حالانکہ اس کا ہدف وہ ہے جس نے اسے نازل کیا ہے۔ اور جس نے بھی اس کو ہدف بنا کر الٹی سیدھی حرکتیں کی ہیں اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کتنے بڑے خطرے کو انگیخت کررہا ہے۔ دوسری آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یعنی آپ کو آپ کے رب نے جس کارعظیم پر مامور کیا ہے اس کی مشکلات یقینا بہت زیادہ ہیں۔ آپ کو آئے دن قسم قسم کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ نہایت پامردی سے اسے برداشت کرتے جائیں اور اپنے فرض کی انجام دہی میں کبھی کمزوری نہ آنے دیں۔ یہ لوگ یقینا کوشش کریں گے کہ آپ کو کسی ترمیم و تغیر پر آمادہ کریں۔ اس کے لیے کبھی طاقت استعمال کریں گے اور کبھی طمع و لالچ کا راستہ اختیار کریں گے۔ آپ ان میں سے کسی بات کی طرف توجہ نہ دیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور بندوں کے حقوق تلف کرنے والا ہے۔ وہ کوئی بھی راستہ نکالنے کے لیے آپ سے معاملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ آپ کسی بات کو بھی صراحت سے بیان کرنے میں تأمل نہ کریں۔ اور ان کی خاطر سے کسی بات میں بھی نرمی پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آپ نہایت صبر کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھئے اور اپنے رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے پایہ استقلال میں کبھی نرمی کبھی کمزوری نہ آنے دیجئے۔
Top