Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
(اے محمد ﷺ ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے
(76:23) نزلنا۔ ماضی جمع متکلم تنزیل (تفعیل) مصدر۔ بطور مفعول مطلق تاکیدا لایا گیا ہے۔ مراد یہ کہ قرآن مجید کو ہم نے آیت آیت کرکے نازل کیا۔ علامہ پانی پتی (رح) اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں :۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا :۔ مراد یہ ہے کہ آیت آیت کرکے نازل کیا یک دم مجموعہ نازل نہیں کیا۔ نحن مسند الیہ (مبتدائ) ہے نزلنا خبر فعلی ہے جملہ کو انا سے شروع کیا ہے نزلنا خود جمع متکلم ہے لیکن نحن کا اس پر اضافہ کرکے فاعل کی طرف فعل کی اسناد کو مکرر کردیا۔ یہ طرز کلام کلام کو بہت مؤکد کردیتا ہے اس میں اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تفریق کے ساتھ قرآن کو نازل کرنے میں حکمت اور مصلحت ہے (یک دم مجموعہ نازل کرنے سے وہ مصلحت اور فائدہ حاصل نہیں ہوتا) پھر فعل کی نسبت اپنی طرف کرنے سے اختصاص کا بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے (کہ ہم نے ہی نازل کیا ہے کسی دوسرے نے نہیں یہ فعل ہمارا ہی ہے) اور حکیم کا فعل پراز حکمت ہوتا ہے (خدا حکیم ہے اس کا یہ فعل حکمت سے خالی نہیں) ۔
Top