Baseerat-e-Quran - Al-Insaan : 23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ
اِنَّا : بیشک ہم نَحْنُ نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَيْكَ : آپ پر الْقُرْاٰنَ : قرآن تَنْزِيْلًا : بتدریج
(اے نبی ﷺ ہم نے آپ پر اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔
لغات القرآن۔ شددنا۔ ہم نے مضبوط کیا۔ اسر۔ سارا بدن۔ ماتشائو ون ۔ تم نہ چاہو گے۔ تشریح : اصل میں جلد ہاتھ آجانے والے دنیاوی مفادات، اس کا لالچ، اخلاق اور عقائد کی گمراہی، غرور وتکبر یہ وہ چیزیں ہیں جو حق و صداقت کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب بھی کسی پیغمبر نے سچائی اور پیغام الٰہی کو ان دنیا پرستوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کو جھٹلانے اور بےحقیقت ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اللہ کے نبیوں کو طرح طرح سے ستایا اور ان کی ہر بات پر اعتراض کیا۔ یہی حالات اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس وقت پیش آئے جب آپ نے اللہ کا کلام کفار قریش کے سامنے پیش کیا۔ انہیں یہ اعتراض تھا کہ ہر پیغمبرپر جو بھی کلام نازل کیا گیا ہے وہ چند دنوں یا ہفتوں میں مکمل کردیا گیا لیکن یہ کیسا قرآن ہے کہ اس کی چند آیتیں نازل کی جاتی ہیں اور پورا قرآن ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ انہوں نے کہا (نعوذ باللہ) آپ اس قرآن کو خود سے گھڑ کر اس کو اللہ کا کلام کہہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کے ان اعتراضات کے جواب میں ان آیتوں کو پیش فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ” ہم نے ہی آپ پر اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے “ یعنی اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ زندگی کا ہر انداز قرآن کریم کے اصولوں میں ڈھلتا چلا جائے۔ لہٰذا جس موقع پر جتنی آیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کو نبی کریم ﷺ پر نازل کردیا جاتا ہے۔ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اللہ کے حکم پر ڈتے رہیے اور ان میں سے کافر اور گناہ گار کی بات نہ مانئیے۔ آپ صبح و شام اپنے پروردگار کا ذکر کرتے رہیے۔ راتوں کو اس کے سامنے سجدے کیجئے اور رات کے طویل وقت میں اس کی حمدو ثنا کیجئے۔ اور ان لوگوں کی پرواہ نہ کیجئے جو آخرت کی ابدی زندگی اور آگے آنے والے بھاری دن سے غافل ہو کر جلد حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو تو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھیا کہ اللہ ہی نے ان کو پیدا کیا۔ اسی نے ان کے جوڑ بند درست اور مضبوط کئے جن سے وہ زندگی بھر کام لیتے ہیں۔ یعنی دنیا میں کوئی کتنی ہی مضبوط مشین ہو وہ آخر کار گھس جاتی ہے لیکن اللہ نے انسان کو ایسے جوڑ بند عطا کئے جس سے وہ ایک طویل عرصہ تک کام لیتا ہے اور وہ مشینری چلتی رہتی ہے۔ فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو سب کچھ بدل کر رکھ دیں۔ ان کی جگہ کسی اور مخلوق کو لے آئیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو جو سراسر ہدایت اور رحمت ہے تھوڑ اتھوڑا کرکے نازل کرنا شروع کردیا ہے اس کی نصیحت اور خیر خواہی کے اصولوں سے جس کا دل چاہے اپنے پروردگار کی طرف راستہ بنالے یعنی اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرلے۔ لیکن ہدایت اللہ نے اپنی ہاتھ میں رکھی ہے وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں وہی ہوتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے اور جسے چاہے جنت کی ابدی راحتوں کا مستحق بنادیتا ہے۔ لہٰذا راہ ھق میں چلنے میں ہر وقت اللہ کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے۔ حد سے بڑھنے والے ظالموں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ نے شدید عذاب تیار کر رکھا ہے۔ مفسرین نے سورة الدھر کی آیت نمبر 25 اور 26 کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ان آیتوں میں پانچ وقت کی نمازوں کا صاف اشارہ موجود ہے۔ صبح و شام اور رات کے طویل حصے میں اللہ کا ذکر اور اس کی حمدو ثنا کرنے کا بہترین طریقہ نماز ہے۔ نبی کریم ﷺ اور مومنین کے لئے یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ دین حق کو پہنچانے میں جب بھی مشکلات پیش آئیں تو ہر مخالفت کا مقابلہ عبادت سے کیا جائے اور ان لوگوں کی زیادہ پرواہ نہ کی جائے جو اپنے دنیاوی مفادات اور لالچ کی وجہ سے حق و صداقت کی مخالفت کرتے ہیں۔
Top