Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کرلو، اگر ڈرو کہ تمہیں وہ لوگ فتنے میں ڈال دیں گے جنھوں نے کفر کیا۔ بیشک کافر لوگ ہمیشہ سے تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ۔۔ : قصر کا معنی کمی ہے، یہ کمی رکعات کی تعداد میں بھی مسنون ہے اور اگر خوف زیادہ ہو تو نماز کی ہیئت و شکل میں بھی کمی ہوسکتی ہے، مثلاً پیدل جاتے جاتے نماز پڑھ لینا۔ ظاہر ہے اس میں سجدہ اور رکوع تو پوری طرح ممکن نہیں، یا سواری پر اشارے سے نماز پڑھ لینا۔ (دیکھیے سورة بقرہ (239)۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن انیس ؓ کو خالد بن سفیان کے قتل کے لیے بھیجا تو عصر کا وقت قریب تھا، انھوں نے جاتے جاتے ہی نماز پڑھ لی۔ [ أبو داوٗد، صلاۃ السفر، باب صلاۃ الطالب : 1249 ] حافظ ابن حجر ؓ نے فتح الباری میں اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے جید کہا ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر ] عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔“ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : 687 ] عام سفر میں مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کے بجائے دو رکعت پڑھنا قصر ہے۔ ”تم پر کچھ گناہ نہیں“ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں، اس کی صرف اجازت ہے اور یہی اکثر علمائے سلف کا مسلک ہے، مگر چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ سفر میں قصر پڑھی ہے، لہٰذا آپ کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور اکثر محدثین ؒ کے نزدیک قصر افضل ہے۔ 2 سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے، جسے عرف میں سفر کہا جاتا ہو، اب رہی میلوں یا دنوں کی مقدار کی تعیین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی ﷺ کی کسی صریح حدیث میں۔ اس بنا پر جن ائمہ اور علماء نے کسی مقدار کی تعیین کی ہے، انھوں نے عموماً نبی ﷺ کے سفروں کو دیکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے کی ہے، تاہم سب سے قوی دلیل سفر کی مقدار کی تعیین میں صحیح مسلم (691) میں مروی حدیث انس ہے، جس کی رو سے تین فرسخ (9 کوس) تقریباً اکیس کلو میٹر سفر کرنا ہو تو شہر سے نکل کر قصر کرسکتے ہیں۔ 3 کسی صحیح حدیث میں نبی ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنتیں ادا کی ہوں، ہاں رات کے وتر اور صبح کی سنتیں آپ ﷺ ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زاد المعاد : 1؍456) صحابہ میں سے ابو بکر، عمر اور ابن عمر ؓ کا اسی پر عمل تھا۔ [ بخاری، التقصیر، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلاۃ : 1101 ] 4 مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کرے گا۔ موسیٰ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم ابن عباس کے ساتھ مکہ میں تھے تو میں نے کہا جب ہم آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں جب اپنی رہائش کی جگہوں میں جاتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا یہ ابوالقاسم ﷺ کی سنت ہے۔ [ أحمد 216؍1، ح : 1867 ] اس کی ہم معنی روایت صحیح ابی عوانہ (340؍2) میں ہے۔ ارواء الغلیل تحت حدیث (571) اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ۔۔ : یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس لیے اس میں نماز قصر کی اجازت کے ساتھ ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر، جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم کے بارے میں یہ آیت خاموش ہے، اسے نبی ﷺ نے اپنے قول و فعل سے واضح فرمایا ہے۔ عمر ؓ سے ایک شخص نے سوال کیا : ”کیا وجہ ہے کہ لوگ ہر سفر میں قصر کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں یہ حکم خوف کے ساتھ مقید ہے ؟“ تو عمر ؓ نے فرمایا : ”خود مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہ ایک صدقہ ہے، جو اللہ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔“ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : 686 ] ابن عباس ؓ فرماتے ہیں : ”نبی کریم ﷺ مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت رب العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ نے دو ہی رکعت نماز پڑھی۔“ [ تقصیر الصلاۃ فی السفر، بابٌ : 1436 ] انس ؓ بیان کرتے ہیں : ”ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپ نماز کی دو دو رکعتیں ادا فرماتے رہے، حتیٰ کہ ہم مدینہ واپس آگئے۔“ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ”آپ لوگوں نے مکہ میں کتنی دیر قیام کیا تھا انھوں نے جواب دیا : ”ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔“ [ بخاری، التقصیر، باب ما جاء فی التقصیر : 1081 ] ایک مرتبہ آپ نے مکہ میں انیس (19) دن بھی قیام کیا تھا۔ [ بخاری، المغازی، باب مقام النبی ﷺ بمکۃ زمن الفتح : 4298 ] جابر ؓ نبی کریم ﷺ سے یہ مدت صراحت کے ساتھ نہیں آئی کہ کتنے دن کسی جگہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر کرسکتا ہے۔ علماء کے اجتہادات مختلف ہیں بعض نے فرمایا انیس دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پوری بڑھے اس سے کم ہو تو قصر کرے بعض نے وہ مدت پنرہ دن بیان فرمائی بعض نے چار دن۔ مگر راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب تک کسی جگہ اقامت کا ارادہ نہ کرے قصر کرسکتا ہے۔ ثمامہ بن شراحیل فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر ؓ کے پاس گیا تو ہم نے عرض کیا : مسافر کی نماز کیسے ہے انھوں نے فرما ای دو دو رکعتیں سوائے مغرب کے کہ وہ تین رکعتیں ہے۔ میں نے کہا یہ باتئیں اگر ہم ذوالمجاز میں ہوں ؟ انھوں نے فرمایا : ذوالمجاز کیا ہے میں نے کہا ایک جگہ ہے جس میں ہم جمع ہوتے ہیں اور خریدو فروخت کرتے ہیں اور بیس راتیں یا پندرہ راتیں ٹھہرتے ہیں تو انھوں نے فرمایا یا ایھا الرجل (اے آدمی) میں آذر بیجان میں رہا، میں نہیں جانتا کہ انھوں نے چار مہینے کہا یا دو ماہ، تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ دو ، دو رکعت پڑھتے تھے اور میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے نبی اکرم ﷺ کو دو ، دو رکعت پڑھتے دیکھا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۂ حسنہ) (مسند احمد : 5552) وحسنہ محققوہ فی طبع الرسالۃ
Top