Siraj-ul-Bayan - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو اور کافروں کی طرف سے فتنہ میں پڑنے کا تمہیں خوف ہو تو نماز میں سے کچھ کم کردینا گناہ نہیں ہے ۔ بیشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں ۔ (ف 1)
فلسفہ صلوۃ خوف : (ف 1) ان آیات میں صلوۃ خوف کا ذکر ہے کہ جب میدان جنگ ہو ، دشمن کی طرف سے زبردست خطرہ ہو تو اس وقت فریضہ نماز کس طرح ادا کیا جائے ؟ مقصد یہ ہے کہ جنگ و جہاد مقصود بالذات نہیں ، دین کا اصل و اساس عبادت ونیاز مندی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ نماز و عبادت کو بہرحال محفوظ رکھا جائے ، جہاد تو اس لئے ہے کہ مسلمان کو خدا کی عبادت کا آزادانہ حق ہو ۔ یعنی مسلمان میدان جنگ میں نماز پڑھ کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ بجز خدائے قہار کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور کوئی جنگ اور لڑائی اسے غیر اللہ کی پرستش پر مجبور نہیں کرسکتی ۔ صلوۃ خوف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عین اس وقت جب حیوانی قوتیں بزور ہوتی ہیں اور جب دونوں طرف غیظ وغضب کے شعلے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں ، اتنا خدا پرست اور حق و انصاف کے سامنے جھک جانے والا ہوتا ہے کہ ” نماز “ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ اس کا دل ان حالات میں بھی ملکی قوتوں سے معمور ہوتا ہے ۔ جس مذہب میں تلوار کے سایہ میں بھی شوق عبادت کی تکمیل ضروری ہو ، کیا وہ مادی وحیوانی مذہب ہو سکتا ہے ؟ حل لغات : طائفۃ : گروہ ۔
Top