Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا
: اور جب
ضَرَبْتُمْ
: تم سفر کرو
فِي الْاَرْضِ
: ملک میں
فَلَيْسَ
: پس نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: کہ
تَقْصُرُوْا
: قصر کرو
مِنَ
: سے
الصَّلٰوةِ
: نماز
اِنْ
: اگر
خِفْتُمْ
: تم کو ڈر ہو
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَكُمُ
: تمہیں ستائیں گے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنَّ
: بیشک
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
كَانُوْا
: ہیں
لَكُمْ
: تمہارے
عَدُوًّا مُّبِيْنًا
: دشمن کھلے
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
سفر میں نماز کا حکم ارشاد باری ہے (واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصدوا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا۔ اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تمام میں اختصار کر دو ( خصوصاً ) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے) اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور قصر کو دو باتوں کی بنا پر مباح کردیا ہے۔ ایک تو سفر یعنی زمین میں قدم مارنے ( سفر کرنے ) کی بنا پر اور دوسری خوف کی بنا پر۔ آیت میں مذکور قصر کے مفہوم کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضر کی نماز چار رکعتیں اور سفر کی نماز دو رکعتیں اور خوف کی نماز ایک رکعت تمہارے نبی ﷺ کی زبان سے فرض کی ہے۔ یزید الفقیر نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ صلوۃ الخوف ایک ایک رکعت ہے مجاہد سے مروی ہے کہ چار کی تعداد قصر کر کے دو کردی گئی ہے۔ ابن جریج نے طائوس سے، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ نماز میں قصر خوف اور قتال کی صورت میں ہوتی ہے نماز ہر حالت میں پڑھے گا خواہ سوار ہو پیدل۔ رہ گئی یہ بات کہ حضور ﷺ اور لوگوں یعنی صحابہ کرام نے سفر میں جو دو رکعتیں پڑھی ہیں تو وہ قصر نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت کے مطابق جو اس روایت کے علاوہ ہے جس کا ذکر ہم نے قصر کے سلسلے میں کیا ہے، قصر صرف حدود یعنی صفت صلوۃ میں ہے نیز یہ کہ تم تکبیر کہتے ہوئے اپنا سر ذرا جھکا لو گے اور اشارہ سے کام لو گے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کی رو سے سب سے اولیٰ اور مناسب تاویل وہ ہے جو حضرت ابن عباس ؓ اور طائوس سے مروی ہے کہ قصر نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے کے اندر ہوتی ہے یعنی رکوع اور سجود ترک کر کے اشارے سے کام لیا جاتا ہے اور قیام ترک کر کے سواری پر سوار ہو کر نماز ادا کی جاتی ہے۔ نماز ک اندر پائوں سے چلنے کو بھی قصر کا نام دینا درست ہے۔ کیونکہ جب خوف کی حالت نہ ہو اس صورت میں نماز کے اندر پائوں سے چلنے کی بنا پر نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہ اور حضرت جابر ؓ سے صلوٰۃ الخوف کے متعلق ایک رکعت کی جو روایت ہے وہ اس پر محمول ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ صرف ایک رکعت پڑھے گا کیونکہ امام لوگوں کے دو گروہ بنائے گا جو گروہ امام کے ساتھ ہوگا وہ ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلا جائے گا پھر دوسرا گروہ آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے گا۔ اور امام سلام پھیر دے گا اس طرح ہر گروہ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھے گا اور پھر ایک رکعت خود ادا کرے گا۔ اس طرح حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت کہ نماز کی صفت میں قصر ہوتی ہے اس روایت کی مخالف نہیں ہوگی کہ صلوٰۃ الخوف ایک رکعت ہوتی ہے کیونکہ حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ روایتیں ہیں جو صلوۃ الخوف میں آپ کے طریق کار کو بیان کرتی ہے اگرچہ ان روایات میں بیان کردہ صورتوں میں بڑا اختلاف ہے۔ تا ہم یہ تمام رواتیں دو رکعتوں کی موجب ضرور ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس میں یہ بیان ہو کہ آپ نے صلوۃ الخوف ایک رکعت پڑھی ہے۔ البتہ ان روایات میں یہ بات ضرور بیان کی گئی ہے کہ ہر گروہ کے لیے امام کے ساتھ ایک رکعت ہے اور صرف اس ایک رکعت پر انحصار کیے بغیر دوسری رکعت کو خود ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر صلوٰۃ الخوف صرف ایک رکعت ہوتی تو اس کے متعلق حضور ﷺ اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے والوں کی نماز کی کیفیتوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ جب حضرت ابن عباس ؓ عنہ اور دیگر صحابہ نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے دو رکعیتیں ادا کی ہیں تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ خائف کی نماز کا فرض بھی غیر خائف کی نماز کے فرض کی طرح ہے نیز یہ کہ لوگوں کے لیے ایک ایک رکعت کی روایت اس معنی پر محمول ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھی تھی اور ایک ایک رکعت خود ادا کی تھی جیسا کہ تمام روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت میں جس قصر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے میں قصر ہے یا اس سے مراد پائوں سے چلنا اور دشمن کے مقابلہ میں اس طریقے پر آگے پیچھے ہونا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، نماز کی رکعتوں میں قصر نہیں ہے، نیز قصر کے سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ کے مسلک کا مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس سے رکعتوں کی تعداد کی کمی مراد نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کی دلیل وہ روایت ہے جس کے راوی مجاہد ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس ؓ عرض کیا کہ میں اپنے ایک رفیق کے ہمراہ سفر پر نکلا تھا، سفر کی دوران میں تو نماز پوری پڑھتا تھا لیکن میرا رفیق قصر کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ ” دراصل قصر تم کرتے تھے اور تمہارا رفیق پوری نماز پڑھتا تھا “۔ گویا حضرت ابن عباس ؓ نے اسے یہ بتایا کہ رکعتوں کی تعداد میں قصر نہیں ہوتی نیز سفر کے اندر دو رکعتیں قصر نہیں ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے سفیان نے زبیر الیامی سے نقل کیا ہے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کہ آپ نے فرمایا ” سفر کی نماز کی دو رکعتیں ہیں، عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز کی بھی دو دو رکعتیں ہیں ، تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کے مطابق نمازوں کی یہ صورتیں قصر نہیں ہیں بلکہ یہ پوری نمازیں ہیں۔ اس میں سفر کے اندر صلوٰۃ الخوف بھی داخل ہے کیونکہ حضرت عمر ؓ نے نماز کی ان صورتوں کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ قصر نمازیں نہیں ہیں بلکہ پوری نمازیں ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زیر بحث آیت میں مذکور قصر کا مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ نماز کی رکعتوں کی تعداد میں کمی مراد نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ ؓ سے مروی ہے کہ انوہں نے حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا تھا کہ اب نماز میں قصر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ دشمن کے خوف سے اب ہمیں امن نصیب ہوگیا ہے اور دوسری طرف ارشاد باری ہے ( فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا۔ ) حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا تھا کہ جس بات سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی ہوا تھا پھر میں نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا جس پر آپ نے فرمایا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا اصدقۃ) یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے اس لیے اس کا صدقہ قبول کرلو) حضور ﷺ کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکور قصر سے مراد رکعتوں کی تعداد میں قصر ہے اور صحابہ کرام نے آیت سے یہی مفہوم اخذ کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے یعنی نماز کی رکعتوں کی تعداد میں قصر اور نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے میں قصر جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم نے بیان کیا ہے، اس لیے اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت یعلیٰ ؓ کے خیال میں وہ بات گزری ہو جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے اور حضرت عمر ؓ نے حالت امن میں قصر کے حکم کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا ہو، نہ یہ کہ انہوں نے حضور ﷺ سے یہ کہا ہو کہ آیت میں مذکور قصر تعداد کے اندر ہے اور پھر حضور ﷺ نے انہیں وہ جواب دیا ہو جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ اس کی گنجائش ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آیت کا مفہوم کا حوالہ دیے بغیر حضور ﷺ سے دریافت کیا ہو کہ اب ہم کیسے قصر کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں امن نصیب ہوچکا ہے۔ ہماری اس توضیح کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ تمام غزوات کے دوران قصر کرتے رہے پھر آپ نے حج کے سفر میں قصر کیا تھا جب کہ وہ امن کا زمانہ تھا اور مشرکین سے قتال اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے خوف اور امن دونوں حالتوں میں سفر کے اندر دو رکعتوں کی فرضیت ساقت کردی ہے اور اب صرف دو رکعتوں کی فرضیت باقی رہ گئی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے بھی حضور ﷺ سے سفر کی نماز کے متعلق روایت کی ہے کہ یہ پوری نماز ہوتی ہے، قصر نماز نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ابتدا میں یہ خیال کیا ہو کہ خوف کی بنا پر قصر رکعتوں کی تعداد میں ہوتی ہے لیکن جب آپ نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ( صلوۃ السفر رکعتان تمام غیر قصر) تو آپ کو اس کا علم ہوگیا کہ آیت میں مذکور قصر سے مراد نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں قصر ہے۔ رکعتوں کی تعداد میں قصر نہیں ہے۔ جب ہماری مذکورہ بالا توضیح کی روشنی میں یہ بات درست ہوگئی کہ قصر سے مراد وہ مفہوم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو اس کے بعد آیت میں مسافر کے فرض پر کوئی دلالت موجود نہیں ہوگئی اور نہی اس بات کی دلالت پائی جائے گی کہ مسافر کو پوری نماز پڑھنے اور قصر کرنے کے درمیان اختیار ہے کیونکہ آیت میں سرے سے ان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ مسافر کے فرض نماز کے متعلق فقہاء میں اختالف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد کا قول ہے کہ مسافر کے لیے صرف دو رکعتیں فرض ہیں۔ البتہ مغرب کی تین رکعتیں فرض ہیں۔ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لیں اور دو رکعتوں کے بعد قعدہ نہیں کیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے ۔ اگر ان نے تشہد کی قعدہ اولیٰ کرلیا تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی جس طرح اس شخص کی نماز مکمل ہوجاتی ہے جس نے فجر کی نماز ایک سلام کے ساتھ جا رکعتیں پڑھ لی ہوں۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ حماد بن ابی سلیمان کا قول ہے کہ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لیں تو وہ نماز کا اعادہ کرے گا، حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس نے عمداً چار رکعتیں پڑھ لی ہوں تو سفر مختصر ہونے کی صورت میں نماز لوٹائے گا لیکن اگر سفر طول کھینچ لے تو چار رکعتیں پڑھ لینے کی صورت میں اعادہ نہیں کرے گا۔ ان کا قول ہے کہ اگر چار رکعتیں پڑھنے کی نیت سے نماز شروع کرے گا تو اسے نئے سرے سے نماز کی ابتدا کرنی ہوگی جس میں وہ دو رکعتوں کی نیت کرے گا۔ اگر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد تشہد پڑھے گا اور اس کے دل میں چار رکعتیں پوری کرنے کا خیال آنے پر چار رکعتیں پڑھ لے گا تو اس صورت میں وہ نماز کا اعادہ کرے گا، اگر مسافر نے دو رکعتوں کی بنیاد پر نماز شروع کرلی ہو پھر چار پڑھنے کی نیت کرلے اور دو رکعتوں کے بعد اس کی نیت بدل جائے اور وہ سلام پھیر لے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لی ہوں تو جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے اسے اعادہ کرنا ہوگا۔ لیکن اگر وقت نکل جائے تو اعادہ نہیں کرے گا۔ ان کا قول ہے کہ اگر مسافر چار کی نیت کے ساتھ فرض نماز شروع کرلے پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد اس کی نیت بدل جائے اور وہ سلام پھیر لے تو اس کی یہ نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر ایک مسافر مسافروں کی امامت کر رہا ہو اور دو رکعتوں کے بعد وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور مقتدیوں کی طرف سے سبحان اللہ کہہ کر اسے قعدہ میں واپس آنے کے اشارے کے باوجود وہ نہ بیٹھے تو مقتدی بیٹھ کر تشہد پڑھیں گے اور اس کی پیروی نہیں کریں گے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مسافر دو رکعتیں پڑھے گا۔ اگر وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا اور اسے پورا کرلے گا تو و اس تیسری رکعت کو کالعدم قرار دے کر سجدہ سہو کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مسافر کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کی گنجائش نہیں ہے الا یہ کہ وہ احرام کے ساتھ قصر کی نیت بھی کرلے۔ اگر احرام کے ساتھ قصر کی نیت نہیں کرے گا تو وہ اصل فرض کے مطابق چار رکعتیں پڑھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں ہم نے سابقہ سطور میں یہ بات واضح کردی ہے کہ آیت کے اندر رکعتوں کی تعداد میں قصر کرنے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف لوگوں کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ حضور ﷺ نے امن اور خوف کی دونوں حالتوں کے اندر اپنے تمام سفروں کے دوران قصر کیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسافر پر دو ہی رکعتیں فرض ہیں کیونکہ حضور ﷺ کا عمل یہی ہے اور اس کے ذریعے آپ نے آیت میں اللہ کی مراد کی وضاحت فرما دی تھی۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ میں نے امن کی حالت میں قصر کرنے کے متعلق حضور ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تھا۔ جواب میں آپ نے یہ فرمایا تھا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) ہم پر اللہ کا صدقہ نماز کی دو رکعتوں کی اسقاط کی صورت میں ہوا ہے اور یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو رکعتیں ہی فرض ہیں۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے ( فاقبلوا صدقتہ) اس بات کو واجت کردیتا ہے۔ کیونکہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے جب ہمیں قصر کرنے کا امر ہے تو اتمام یعنی پوری نماز پڑھنے کی ممانعت ہوگئی۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ مسافر کی نماز دو رکعتیں ہیں یہی اس کی مکمل نماز ہے۔ یہ قصر نہیں ہے۔ یہ بات تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوائی گئی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بتادیا کہ دو رکعتیں فرض ہیں اور یہ قصر نہیں ہے بلکہ یہ مکمل نماز ہے جس طرح آپ نے فجر ، جمعہ، عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازوں کے متعلق دو دو رکعتیں کا ذکر کیا اور اس بات کی حضور ﷺ کی طرف نسبت کردی۔ اس نسبت کی بنا پر حضرت عمر ؓ کے قول کی حیثیت حضور ﷺ کے قول جیسی ہوگئی کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے۔ یہ مکمل نماز ہے، قصر نہیں ہغ۔ یہ چیز قضر اور اتمام کے درمیان اختیار کی نفی کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ جب سفر پر نکلتے تو واپسی تک دو رکعتیں پڑھتے رہتے۔ علی بن زید نے ابو نضرہ سے اور انہوں نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضور ﷺ کی معیت میں حج ادا کیا تھا آپ مدینہ واپسی تک دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ مکہ مکرمہ میں اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا آپ وہاں بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے، آپ نے اہل مکہ کو چار رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہم مسافر لوگ ہیں “۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا۔ ” میں سفر کے اندر حضور ﷺ کے ہمراہ رہا۔ آپ نے دو رکعتیں سے زائد نہیں پڑھی، میں حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے ہمراہ بھی رہا۔ ان حضرات نے بھی دو سے زائد نہیں پڑھی حتیٰ کہ انہیں اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ) اللہ کے رسول کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونو موجود ہے۔ “ بقیہ بن الولید نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابان بن عبداللہ نے خالد بن عثمان سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے، انہوں نے حضرت عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا ( صلوۃ المسافر رکعتان حتیٰ یئوب الی اھلہ اور یموت) مسافر کی نماز دو رکعت ہے یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے یا اس کی وفات ہوجائے) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : ” میں نے منیٰ کے مقام پر حضور ﷺ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں “۔ موروق العجلی کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے سفر کی نماز کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :” دو دو رکعتیں ، اور جو شخص اس بارے میں سنت کی مخلفت کرے گا وہ کافر ہوگا۔ سفر کے اندر دو رکعتوں کی ادائیگی اور اس سے زائد کی نفی کے سلسلے میں حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے یہ متواتر روایتیں ہیں۔ ان میں دو طرح سے اس بات پر دلالت موجود ہے کہ یہی دو رکعتی مسافر پر فرض ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ کتاب اللہ میں نماز کا فرض مجمل ہے جسیے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور حضور ﷺ کا عمل جب بیان کے طورپر وارد ہو تو وہ آپ کے قولی بیان کی طرح ہوتا ہے اور ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا سفر کے اندر دو رکعت پڑھنا آپ کی طرف سے اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کی مراد بھی یہی ہے۔ جس طرح نماز فجر، نماز جمعہ اور باقی ماندہ تمام نمازوں کی ادائیگی کے متعلق آپ کا عمل بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مراد یہ ہوتی کہ مسافر کو پوری نماز پڑھنے اور قصر کرنے کے مابین اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے کرلے تو حضور ﷺ کے لیے یہ درست نہ ہوتا کہ آپ اپنے بیان کو صرف ایک پہلو یعنی قصر تک محدود رکھتے اور دسورے پہلو یعنی اتمام کا ذکر نہ کرتے اور اتمام کے سلسلے میں آپ کا بیان قصر کے سلسلے میں آپ کے بیان کے ہم وزن ہوتا۔ جب حضور ﷺ کی طرف سے ہماکے لیے قصر کا بیان آگیا، اتمام کا نہ آیا تو اس سے ہمیں یہ دلالت حاصل کہ کہ قصر ہی اللہ کی مراد ہے، اتمام مراد نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت کے سلسلے میں اللہ کی مراد دو باتوں میں سے ایک تھی یعنی یا تو روزہ چھوڑ دے یا روزہ رکھ لے تو حضور ﷺ کی طرف سے اس کا بیان کبھی روزہ رکھنے کی صورت میں وارد ہوا اور کبھی افطار یعنی روزہ چھوڑنے کی صورت میں۔ نیز حضرت عثمان ؓ نے جب منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو صحابہ کرام نے اسے ناپسند کیا اور اس پر تنقید کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : میں نے حضور ﷺ، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں پھر تمہاری راہیں مختلف ہوگئیں، میری تمنا ہے کہ ان چار رکعتوں میں سے میرے حصے میں دو رکعتیں آ جائیں جو اللہ کے ہاں قبول ہونے والی ہوں۔ ” حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : سفر کی نماز دو رکعت ہے جو شخص سنت کی مخالفت کرے گا وہ کافر ہوگا “۔ حضرت عثمان کا قول ہے : ” میں پوری نماز اس لیے پڑھتا ہوں کہ میں نے اس شہر یعنی مکہ مکرمہ میں اپنا گھر بسا لیا ہے اور میں نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے کہ (من تاھل ببلد فھو من الہ جو شخص کسی شہر میں اپنا گھر بسا لیتا ہے وہ اس شہر کا باشندہ ہوجاتا ہے۔ حضرت عثمان نے اتمام کی ممانعت میں صحابہ کرام کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ آپ نے یہ عذر پیش کیا کہ میں مکہ معظمہ میں گھر آباد کرچکا ہوں اس لیے میں اب اس شہر کے باشندوں میں سے ہوں۔ اہل مکہ کے متعلق ہمارا بھی یہی قول ہے کہ وہ قصر نہیں کریں۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سفر میں دو رکعتیں فرض کی ہیں اور حضر میں چار رکعتیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے کہ سب سے پہلے نماز کی فرضیت دو دو رکعتوں کی صورت میں ہوئی۔ پھر حضر یعنی اقامت کی حالت کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور سفر کی حالت کی نماز کو بحالہ باقی رہنے دیا گیا۔ حضت عائشہ ؓ نے یہ بیان کردیا کہ مسافر پر دراصل دو رکعتیں فرض ہیں اور مقیم پر چار رکعتیں فرض ہیں جس طرح فجر اور ظہر کی نمازوں کی فرضیت ہے اس لیے مسافر کی نماز میں اسی طرح اضافہ جائز نہیں جس طرح دوسری نمازوں میں اس کا جواز نہیں ہے۔ عقلی طور پر یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مسافر کے لیے آخری دو رکعتیں کے ترک کا جواز ہے اور ان دونوں رکعتوں کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اگر مسافر ان دونوں کی بھی ادائیگی کرلیتا ہے تو وہ گویا نئے سرے سے ابتداء کر کے ان کی ادائیگی کرتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں رکعتیں نفل ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے نماز کی یہ صورت تفصل نماز کی صورت ہے۔ وہ یہ کہ نمازی کو نفل نماز کی ادائیگی اور اس کے ترک کے درمیان اختیار ہوتا ہے اور ترک کی صورت میں اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ جن حضرات نے مسافر کے لیے قصر اور اتمام کے مابین اختیار ہونے کا قول کیا ہے انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کی راوی حضرت عائشہ ہیں۔ ان کا قول ہے کہ حضور ﷺ نے قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی۔ یہ روایت درست ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ادائیگی میں قصر کیا ہے اور حکم میں اتمام کیا ہے جس طرح حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ ” سفر کی نماز دو رکعت ہے، یہ مکمل نماز ہے ، قصر نہیں ہے، یہ بات تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوائی گئی ہے “۔ اس حضرات کا استدلال یہ بھی ہے کہ اگر مسافر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو اس پر اتمام لازم ہوگا یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اصل کے اعتبار سے اسے اختیار ہوتا ہے لیکن یہ استدلال فاسد ہے۔ اس لیے امام کی نماز میں دخول فرض کو بدل دیتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جمعہ کے روز عورت اور غلام پر چار رکعتوں کی فرضیت ہوتی ہے لیکن اگر یہ دونوں جمعہ کی نماز کی جماعت میں شامل ہوجائیں گے تو دو رکعتیں پڑھیں گے۔ یہ چیز اس پر دلالت نہیں کرتی کہ نماز جمعہ میں داخل ہونے سے پہلے ان دونوں کو چار اور دو کے درمیان اختیار تھا۔ ہم نے اپنی تصنیفات میں اس مسئلے پر متعدد مقامات میں سیر حاصل بحث کی ہے ایک مسافر مقیم امام کی نماز با جکاعت میں اگر شامل ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہوگا اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے کہ وہ مقیم کی نماز ادا کرے گا خواہ تشہد کے اندر وہ امام کے ساتھ آ کر شامل کیوں نہ ہوا ہو، سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر امام کے ساتھ اسے ایک پوری رکعت نہ ملے تو وہ دو رکعتیں پڑھے گا۔ پہلے قول پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ ( ماادرکتم فصلوا وما فاتکم ذاتموا، نماز کا جتنا حصہ تمہیں باجماعت مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرلو) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ( وما فتکم فاقضوا اور جو رہ جائے اسے کی قضا کرلو) حضور ﷺ نے امام کے ساتھ رہ جانے والے نماز کے حصے کو قضا کرنے کا حکم دیا اس لیے جس شخص کی چاروں رکعتیں رہ گئی ہوں وہ بھی ان کی قضا کرے گا۔ نیز امام کی نماز کے آخری حصے میں اس کی شمولیت درست ہوتی ہے۔ اور اگر امام کو سہو لاحق ہوگیا ہو تو اس پر بھی سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اور اگر خود اسے سہو لاحق ہوجائے تو امام کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔ اس لیے اتمام کے لحاظ سے بھی اس پر امام کی نماز کا حکم لازم ہوگا۔ نیز اگر مسافر اس حالت میں اقامت کی نیت کرے گا تو اس پر اتمام صلوٰۃ لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح امام کی نماز میں اس کے دخول کے ساتھ اس پر اس کا اتمام لازم ہوگا۔ تشہد میں امام کی نماز می اس کی شمولیت کی وہی حیثیت ہے جو نماز کی ابتدا میں اس کی شمولیت کی ہے جس طرح تشہد میں اقامت کی نیت کا وہی حکم ہے جو نماز کی ابتداء میں اقامت کی نیت کا ہے۔ واللہ اعلم۔ فصل ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مسافر کے لیے نماز کی قصر کے سلسلے میں جن دلائل پر ہم پچھلی سطور میں سحث کر آئے ہیں وہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر قسم کے مسافر کی نماز دو رکعت ہے خواہ کسی بھی مقصد کے تحت کوئی سفر کیوں نہ کر رہا ہو یعنی یہ تجارتی نوعت کا سفر ہو یا کوئی اور سفر۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں مروی آثار میں سفر کی کسی صورت میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک شخص بحرین کی طرف تجارت کی غرض سے سفر کیا کرتا تھا اس نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میں کتنی رکعت پڑھا کروں۔ آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ دو رکعتیں پڑھا کرو۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ یہ دونوں حضرات طائف کی طرف جب گئے تھے تو قصر پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ صرف حج یا جہاد کے سفر میں قصر کرو۔ عطاء سے مروی ہے کہ میرے خیال میں صرف وہی شخص قصر کرے جو اللہ کے راستے میں سفر کر رہا ہو۔ اگر یہ کہ جائے کہ حضور ﷺ نے صرف حج یا جہاد کے سفر میں قصر کیا تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ در اصل حضور ﷺ نے حج یا جہاد کے سوا اور کسی مقصد کے لیے کبھی سفر نہیں کیا تھا لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قصر صرف حج یا جہاد کے سفر تک محدود ہے۔ حضرت عمر ؓ کا یہ قول ہے کہ ” تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے سفر کی نماز دو رکعت ہے “۔ اس میں سفر کی تمام صورتوں کے لیے عموم ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) بھی سفر کی تمام صورتوں کے لیے عام ہے۔ اسی طرح آپ کا اہل مکہ سے یہ فرمانا کہ ” تم اپنی نماز پوری کرلو ہم مسافر لوگ ہیں “ اور یہ نہ فرمایا کہ ہم لوگ حج کے سفر میں ہیں “۔ اس بات کی دلیل ہے کہ قصر کا حکم تمام مسافروں کے لیے عام ہے۔ چونکہ اس حکم کا تعلق سفر کے ساتھ ہے اس لیے ضروری ہے کہ سفر کی تمام صورتوں کے لحاظ سے اس حکم میں کوئی فرق نہ کیا جائے جس طرح موزوں پر تین دنوں تک مسح کرنے کا حکم ہے۔ جو لوگ قول باری ( واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصدوا من الصلوٰۃ) کی تاویل میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد رکعتوں کی تعداد میں قصر ہے وہ بھی سفر کی تمام صورتوں میں قصر کے لیے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہیں جبکہ مسافر کو دشمن کا خوف لاحق ہو۔ پھر جب یہ بات صلوۃ الخوف میں اس صورت کے اندر ثابت ہے جب اس کا سفر تقرب الٰہی کے سوا کسی اور کام کے لیے ہو تو سفر کی تمام صورتوں مییں اس بات کا ثابت ہونا واجب ہے اس لیے کہ کسی نے بھی ان دونوں میں فرق نہیں کیا ہ اور ہم نے یہ بیان کردیا ہے قصر رکعتوں کی تعداد کے اندر نہیں ہوتی۔ ہم نے سفر کی تمام صورتوں میں قصر کے حکم کا جو ذکر کیا ہے بشرطیکہ سفر تین دنوں کا ہو، وہ ہمارے اصحاب ، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے ۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص شکار کے لیے سفر کررہا ہے جبکہ شکار ہی اس کا ذریعہ معاش ہو تو وہ قصر کرے گا لیکن اگر شوق پورا کرنے کی غرض سے گھر سے نکلا ہو تو مجھے اس کا قصر کرنا پسند نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی گناہ کی خاطر سفر کرے گا تو قصر نہیں کرے گا اور نہ ہی موزوں پر مسافروں کی طرح تین دنوں تک مسح کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا تھا کہ یہ بات مضطر یعنی وہ شخص جس پر اضطراری کیفیت طاری ہو اس کے بارے میں ہے۔ ڈرائیور کیسے قصرکریں کشتی کے ملاح کے متعلق اختلاف رائے ہے کہ آیا وہ کشتی کے اندر قصر پڑھے گا یا نہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب وہ کشتی میں سفر پر ہوگا تو قصر پڑھتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنے گائوں کے قریب پہنچ جائے پھر وہ پوری نماز پڑھے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کشتی کے اندر ہی اس کا بسیرا ہو اور بال بچوں کے ساتھ اس میں رہتا ہو تو کشتی کرائے پر دینے کی صورت میں وہ قصر پڑھے گا اور اس مقام پر واپس پہنچ کر پوری نماز پڑھے گا جہاں سے اس نے کشتی کرائے پر دی تھی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کشتی سا کا ٹھانہ اور گھر ہو اور اس کے سوا اس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو تو وہ اس کشتی میں مقیم کی حیثیت کا حامل ہوگا اس لیے کشتی میں رہتے ہوئے اتمام کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ملاح کا مالک سفینہ ہونا اسے سفر کے حکم سے خارج نہیں کرتا۔ جس طرح اونٹوں کا مالک اونٹوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے اس کی یہ حالت اسے سفر کے حکم سے خارج نہیں کرتی۔ ہم نے سورة بقرہ میں روزے کے احکام بیان کرتے وقت سفر کی مدت کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ ہمارے اصحاب نے سفر میں قصر کے لیے تین دن تین راتوں کی مدت کی شرط مقرر کی ہے سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک نے اس کے لیے اڑتالیس میل کی طرح رکھی ہے۔ اگر میلوں کا حساب نہ ہو سکے تو پھر ایک دن ایک رات کی مسافت کی شرط ہے جو قافلے والے طے کرتے ہیں۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کے نزدیک ایک پوریدن کی شرط ہے۔ امام شافعی کے نزدیک چھیالیس ہاشمی میلوں کی شرط ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے تین دنوں کی روایت منقول ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے ایک دن ایک رات کی روایت منقول ہے۔ اس مدت کے بارے میں فقہا میں اختلاف رائے ہے جس میں وہ اتمام کرے گا۔ ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے کہ مسافر اگر پندرہ دنوں کی اقامت کی نیت کرے گا تو اتمام صلوٰۃ کرے گا۔ اگر اس سے کم دنوں کی نیت ہو تو قصر کرے گا۔ امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ جب چار دنوں کے لیے اقامت کی نیت کرے گا تو نماز پوری پڑھے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر تیرہ دنوں کی نیت کرے گا تو اتمام کرے گا اور اگر اس سے کم کی نیت ہو تو قصر کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مسافر کا گزر اس شہر سے ہو جس میں اس کے اہل و عیال رہتے ہوں اور وہ اپنا سفرجاری رکھے تو جب تک وہ وہاں دس دنوں تک قیام نہیں کرے گا، قصر کرتا رہے گا ۔ اگر وہ وہاں دس دن یا اس سے زائد قیام کرے گا تو نماز پوری پڑھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ وسلم ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اس طرح وہاں سے نکلنے تک آپ کا قیام چار دنوں سے زیادہ رہا اور آپ قصر پڑھتے رہے، یہ چیز چار دنوں کی مدت کے اعتبار کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ نیز امام ابوحنیفہ نے عمر بن زر سے رایت کی ہے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا : جب تم کسی شہر میں مسافر بن کر پہنچو اور تمہارے دل میں وہاں پندرہ دنوں کے قیام کی نیت ہو تو پوری نماز ادا کرو اور اگر تمہیں پتہ نہ ہو کہ کب کوچ کرو گے تو قصر پڑھو “۔ سلف میں سے کسی سے بھی اس روایت کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ اس لیی اس کی حجیت ثابت ہوگئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ عطاء خراسانی نے سعید بن المسیب سے ان کا یو قول نقل کیا ہے کہ جو شخص سفر کی حالت میں کسی جگہ چار دن قیام کا ارادہ کرلے تو وہ پوری نماز ادا کرے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہسیم نے دائود بن ابی ہند کے واسطے سے سعید بن المسیب سیروایت کی ہے کہ مسافر جب پندرہ دن یا رات کی اقامت کرلے گا تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس سیکم کی صورت میں قصر کرے گا۔ اگر ہم سعید بن المسیب کی ان دونوں روایتوں کو ایک دوسرے کی متعارض قرار دیں تو یہ دونوں روایتیں ساقط ہوجائیں گی اور یوں سمجھ لیا جائے گا کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں ہے اور اگر تعارض کے بغیر ان سے روایت کا ثبوت ہوجائے تو اس کا حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے خلاف ہونا درست نہیں ہوگا۔ نیز اقامت اور سفر کی مدتوں کا تعین قیاس کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ اس کا تعین یا تو توقیف کے ذریعے ہوسکتا ہے یا اتفاق امت کے ذریعے۔ پندرہ دنوں کی مدت پر امت کا اتفاق موجود ہے اور اس سے کم کی مدت مختلف فیہ ہے اس لیے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ پندرہ دنوں کا قیام اقامت صحیحہ ہے اور اس سے کم کی مدت ثابت نہیں ہو سکے گی۔ اسی طرح سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ تین دنوں کا سفر درست سفر ہے جس کے ساتھ قصر کا حکم متعلق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روزہ چھوڑنے کا حکم بھی متعلق ہوتا ہے ۔ اس سے کم کی مدت مختلف فیہ ہے اس لیے وہ ثابت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
Top