Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا
: اور جب
ضَرَبْتُمْ
: تم سفر کرو
فِي الْاَرْضِ
: ملک میں
فَلَيْسَ
: پس نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: کہ
تَقْصُرُوْا
: قصر کرو
مِنَ
: سے
الصَّلٰوةِ
: نماز
اِنْ
: اگر
خِفْتُمْ
: تم کو ڈر ہو
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَكُمُ
: تمہیں ستائیں گے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنَّ
: بیشک
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
كَانُوْا
: ہیں
لَكُمْ
: تمہارے
عَدُوًّا مُّبِيْنًا
: دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو ، پس تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ کم کر دو نماز میں سے۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ تمہیں فتنہ میں ڈالیں گے ، کفر کرنے والے لوگ بیشک کفر کرنے والے تماہرے کھلے دشمن ہیں
ربط آیات گزشتہ آیات میں جہاد اور مجاہدین کی فضیلت کا بیان تھا ، پھر ہجرت کی فرضیت اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے وعید کا تذکرہ تھا ، ہجرت اور جہاد کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جہاد میں خاص طور پر دشمن کے ساتھ مقابلے یا اس کے تعاقب میں بہت دور تک جانا پڑتا ہے۔ بہرحال ان دونوں امور کے لیے سفر کا اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اب اس رکوع میں دورانِ سفر نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے پہلی دو آیات کا تعلق اسی موضوع سے ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ پہلی آیات کا تعلق مطلقاً سفر کے ساتھ ہے ، خواہ وہ سفر کسی بھی نوعیت کا ہو اور دوسری آیت کا تعلق خوف کی حالت میں نماز پڑھنے سے ہے۔ سفر اور اس کے اثرات سفر ایک دشوار چیز ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے السفر قطعۃٌ من العذاب یمنع احدکم نومہ الخ یعنی سفر عذاب کا ٹکڑا ہے ، جو تمہاری نیند میں بھی خلل کا باعث بنتا ہے۔ دورانِ سفر انسان آرام و راحت سے محروم ہوجاتا ہے۔ کھانے پینے کا نظام متاثر ہوتا ہے ، گھر بار سے دور ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ تم میں جب کوئی سفر کرتا ہے تو کسی ضرورت کے تحت ہی کرتا ہے ، لہٰذا جب ضرورت پوری ہوجائے فلیعجل الی اہلہ تو فوراً اپنے گھر کی طرف واپس آجانا چاہئے۔ سفر بہرحال کلفت کا باعث ہے۔ سفر کی حالت میں بعض شرعی احکام بدل جاتے ہیں اور مسافر کو بعض رعائتیں حاصل ہوجاتی ہیں مثلاً روزہ افطار کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور چار رکعت والی نماز نصف رہ جاتی ہے۔ یعنی چار رکعت کی بجائے صرف دو رکعت پڑھی جاتی ہے… البتہ دو یا تین رکعت والی نماز پوری پڑھی جاتی ہے کیونکہ تین کا نصف ڈیڑھ ہے اور ڈیڑھ رکعت کی کوئی نماز نہیں ہے۔ لہٰذا یہ اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ تاہم ظہر ، عصر اور عشاء کی نمازوں میں دو رکعت کی تخفیف ہوجاتی ہے۔ ان میں قصر کرنے کا حکم ہے۔ شرعی سفر کی مسافت قرآن پاک یا فرمانِ رسول (علیہ السلام) میں شرعی سفر کو صراحت کے ساتھ متعین نہیں کیا گای۔ جس پر نماز قصر ہوجائے یا روزہ افطار کرنے کی اجازت ہو۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث… دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ شرعی سفر کے تعین کے لیے کئی عوامل کو دیکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس میں غورو فکر کی ضرورت ہے اس پمن میں جو کچھ اخذ کیا گیا ہے اس کا دارو مدار صحابہ کرام ؓ کے عمل پر ہے۔ چناچہ شرعی مسافت کے مسئلہ میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل ظواہر ، تین یا نو میل تک کی مسافت کو بھی شرعی سفر شمار کرتے ہیں حالانکہ چار ، پانچ یا چھ میل تو انسان اپنے گھر سے اپنے کھیت ، فیکٹری یا دفتر وغیرہ کے لیے بھی چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات آدمی حفظانِ صحت کی خاطر چار پانچ میل کی سیر کرلیتا ہے۔ تو اتنی قلیل مسافت کا سفر شرعی نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے کسی معتدبہ مسافت کا تعین کرنا پڑے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) چار برد کو شرعی سفر تسلیم کرتے ہیں ایک برد بارہ میل کا ہوتا ہے اور اس طرح شرعی سفر کی کم از کم مسافت 48 میل بنتی ہے۔ بعض علمائے کرام تین برید یعنی 36 میل کو شرعی سفر مانتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک شرعی سفر دراصل تین دن کی مسافت ہے۔ اوسط رفتار سے کوئی شخص پیدل یا اونٹ پر جتنا سفر تین دن میں طے کرتا ہے ، وہی شرعی سفر ہے۔ یہ عام طور پر بارہ تا سولہ میل یومیہ ہوتا ہے کیونکہ مسافر کو آرام بھی کرنا ہوتا ہے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے امام صاحب نے شرعی سفر کی مسافت چار برید یعنی اڑتالیس میل مقرر کی ہے اور اسی پر زیادہ علمائے حنفیہ کا اتفاق ہے۔ تاہم استاذ الاساتذہ مولانا عبدالحی لکھنوی (رح) ، امام اہل سنت والجماعت مولانا عبدالشکر لکھنوی (رح) اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری (رح) وغیرہم تین برید یعنی 36 میل کے قائل ہیں۔ سمندری سفر کے لیے بھی امام ابوحنیفہ (رح) تین دن مسافت ہی متعین کرتے ہیں۔ بادبانی کشتی تین دن میں اوسط رفتار سے جتنا سفر کرتی ہے۔ وہی سفر ہے ، خشکی کے نسبت آبی راستہ کے ذریعہ نسبتاً کم سفر طے ہوتا ہے جو کہ تقریباً بیس میل کے قریب بنتا ہے۔ لہٰذا دریائی یا سمندری شرعی سفر بیس میل ہوگا اس سے کم شرعی سفر شمار نہیں ہوگا۔ نماز میں قصر ارشاد ہوتا ہے واذا ضربتم فی الارض جب تم زمین میں سفر کرو فلیس علیکم جناحٌ ان تقصروا من الصلوٰۃ ِ تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں سے کچھ کم کر دو ۔ اس کمی سے مراد تعداد رکعت کی کمی ہے نہ کہ کسی ایک رکعت میں مطلوبہ قرأت میں کمی۔ اس طرح چار رکعت والی نماز کی صرف دو رکعت ادا کی جائیں گی۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ اصل نماز دو رکعت ہی تھی مگر اقامت کی صورت میں اسے چار کردیا گیا۔ چناچہ سفر کی حالت میں اسے اپنی اصل حالت دو رکعت پر برقرار رکھا گیا ہے۔ مسند احمد کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز بھی دو دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے اور مسافر کی نماز بھی دو ہی رکعت ہے یہ مکمل نماز ہے کیونکہ سفر میں اتنی ہی پڑھنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی مسافر شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے یا امامت کرا رہا ہے تو وہ چار کی بجائے دو رکعت پڑھے گا اور اگر مقیم امام کے پیچھے نماز ادا کر رہا ہے تو پھر اسے چار رکعت پوری کرنا ہوں گی ، حتیٰ کہ امام کے پیچھے اگر چوتھی رکعت میں آ کر شامل ہواتو پھر بھی اسے چار رکعت ہی پوری کرنا ہوں گی۔ خود امام ہونے کی صورت میں حضور ﷺ نے منیٰ اور عرفات میں دو دو رکعت ہی پڑھائیں اور مسافر امام کیل یے یہ بھی حکم ہے کہ وہ بلند آواز سے اعلان کر دے کہ ہم مسافر ہیں اتموا الصلوٰۃ تم اپنی نماز پوری کرلو۔ چناچہ حضور ﷺ نے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا ، مسافر نمازیوں نے بھی ایسا ہی کیا البتہ مقیم نمازیوں کے لیے چار رکعت مکمل کرنے کا حکم تھا۔ قصر کی شرعی حیثیت اب یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سفر میں قصر کرنا واجب ہے یا مستحب۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) اسے وجوب کا درجہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ قصر نہ کرنے والا مسافر گنہگار ہوگا۔ البتہ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ یہ مستحب ہے۔ گویا سفر می قصر کرنا افضل ہے۔ اگر پوری نماز پڑھ لے تو گنہگار نہیں ہوگا۔ حضرت عمر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ قصر کرنا صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ ہے ، اس صدقہ کو قبول کرنا چاہئے اور آدھی نماز پڑھنا چاہئے۔ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت یعلیٰ ابن امیہ ؓ نے حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں قصر کا حکم صرف خوف کی حالت میں ہے جب کہ حضور ﷺ نے امن کی حالت میں بھی قصر نماز پڑھی ، فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو پورے عرب میں غلبہ حاصل ہوگیا تھا مگر آپ نے دو سال بعد یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر بھی نماز دو رکعت ہی ادا فرمائی اس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے کہا ، بھائی ! میں نے بھی حضور ﷺ سے سنا ہے کہ بظاہر یہ آیت خوف کی حالت کے متعلق ہی ہے مگر درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے معافی اور صدقہ ہے اور اس کا قانون یہ ہے کہ صدقہ ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے ایک دفعہ دے کر اسے واپس نہیں لیا جاتا کہ یہ ایک کمینہ حرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو سب کریموں کا کریم ہے لہٰذا اس کی طرف سے سفر میں دو رکعت کی معافی کا صدقہ قبول کرنا چاہئے۔ وطنِ اصلی اور وطن اقامت کسی شخص کا وطن اصلی وہ مقام ہے ، جہاں وہ پیدا ہوا ، اس کا گھر بار ، بیوی بچے ، مکان ، زمین ، دکان ، فیکٹری ، دفتر وغیرہ اور وطن اقامت وہ جگہ ہے جہاں کوئی شخص شرعی سفر کر کے پندرہ دن یا زیادہ مدت کے لیے عارضی طور پر مقیم ہوتا ہے۔ نماز سے متعلق وطن اصلی اور وطن اقامت کا حکم یکساں ہے ہر دو مقامات پر انسان پوری ہی نماز ادا کریگا ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور بعض دوسرے صحابہ سے ثابت ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے اصلی وطن سے اڑتالیس میل یا یزادہ دور جاکر پندرہ دن سے کم مدت ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو وہ مسافر شمار ہوگا اور نماز قصرادا کریگا۔ حضرت عثمان ؓ حج کے لیے مکہ مکرمہ آئے تو انہوں نے منیٰ اور عرفات وغیرہ میں پوری نماز ادا کی ، تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ باقی صحابہ ؓ نے ان مقامات پر نماز قصر ادا کی ہے ، مگر آپ پوری نماز پڑھتے ہیں اس معاملہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بہت ناراض ہوئے کیونکہ مسافر کے لیے نماز قصر واجب ہے نہ کہ محض مستحب۔ اس پر حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ لوگو ! انی تاھلت بمکۃ منذ قدمت میں نے مکہ میں نکاح کرلیا ہے اور میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلّم سے سنا ہے آپ نے فرمایا من تاھل ببلدۃٍ فلیصل صلوٰۃ المقیم جو شخص کسی شہر میں نکاح کرلیتا ہے تو اسے وہاں پر مقیم کی نماز پڑھنی چاہئے چناچہ یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ سسرال میں جا کر پوری نماز ادا کرنی چاہئے۔ سنتوں کا مسئلہ چار فرض کی بجائے صرف دو ادا ہوں گے۔ اب رہا سنتوں کا مسئلہ کہ کیا یہ بھی پڑھی جائیں گی یا نہیں۔ یہ مسئلہ فتاویٰ عالمگیری میں بھی موجود ہے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے شرحم وطا میں بھی لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ سفر کی دو حالتیں ہوتی ہیں جب کوئی شخص فی الواقع سفرکر رہا ہوتا ہے تو وہ سفر جاری کہلاتا ہے اور جب دوران سفر کسی مقام پر قیام کرتا ہے تو وہ نزول ہوتا ہے۔ سفر جاری میں سنتوں کو ترک کردینا چاہئے اور نزول کی حالت میں اگر سنتیں پڑھ لے لو بہتر ہے ، ضروری نہیں۔ اگر نہ پڑھیگا تو کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ البتہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ فجر کی سنتیں سفر و حضر ہر حالت میں ادا فرماتے تھے۔ اور وتر چونکہ واجب ہیں ، آپ وہ بھی ضرور پڑھتے تھے۔ قصر لازم ہے۔ یہاں پر فلیس علیکم جناحٌ کے الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں یہ کہ نماز قصر کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ۔ دوران سفر نماز کم ہوجانے سے بعض اذہان میں یہ خیال آسکتا تھا کہ رکعتوں کی کمی کی وجہ سے شاید ثواب میں بھی کمی واقع ہو جائیگی تو اس شبہ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز کو کم کرنے میں کوئی حرج نہیں ، یہ تو میری طرف سے رعایت ہے ، لہٰذا اس سے ضرور فائدہ اٹھاؤ ۔ اس قسم کا طرز تخاطب دوران حج صفا مروہ کی سعی میں بھی آیا ہے۔ ” فلا جناح علیہ ان یطوف بھما “ یعنی صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ جب تم حج یا عمرہ کے لیے جاؤ تو ان دونوں کی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہاں بھی لوگوں کو شبہ پیدا ہوا تھا کہ صفا ومروہ کی سعی شاید زمانہ جاہلیت کی کوئی رسم ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے فلا جناح کے الفاظ استعمال کر کے سعی کا حکم دیا۔ بہرحال فرمایا نماز میں کمی ہوجانے سے کوئی حرج محسوس نہ کرو ، کیونکہ جس طرح عزیمت پر عمل درآمد باعث ثواب ہوتا ہے اسی طرح بعض اوقات رخصت پر عمل کرنا بھی ویسے ہی باعث اجر ہوتا ہے۔ خوف کی شرط آگے فرمایا ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا یعنی اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر تمہیں فتنے میں مبتلا کردیں گے۔ اگر اس حصہ آیت کو پچھلے حصے کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے تو یہ پہلے حصہ کی شرط بن جاتا ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ نماز قصر کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب کہ تمہیں کفار کی طرف سے خطرہ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جب خوف کی شرط نہ پائی جائیگی تو رعایت ختم ہو جائیگی۔ اس سلسلے میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ شرط اتفاقی ہے۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں کفار کی طرف سے عموماً خطرہ رہتا تھا کہ کہیں وہ مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچائیں چناچہ اس بات کا ذکر اگلی آیتوں میں آ رہا ہے اور وہاں یہ بھی حکم ہے کہ اس قسم کے حالات میں ہمیشہ ہتھیار بند رہو ، حالانکہ صحابہ کرام ؓ بعض اوقات ہتھیار اتار کر آرام بھی کرنا چاہتیت ہے۔ بہرحال مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ خفتم کا لفظ اتفاقی ہے۔ ضروری نہیں۔ لہٰذا جب خطرہ ٹل جائے اور امن وامان قائم ہوجائے ، تو قصر کرنا اس وقت بھی ردا ہے۔ مفسرین کریم یہ بھی فرماتے ہیں کہ واذا ضربتم سے من الصلوٰۃ تک جملہ مکمل ہوجاتا ہے اور اس میں نماز قصر کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ خوف کا تعلق اگلے جملہ ان یفتنکم الذین کفروا کے ساتھ ہے اور آخر میں فاحتاطوا کا لفظ محذوف ہے۔ اس طرح جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ اگر تمہیں کفار کی طرف سے فتنہ میں ڈالے جانے کا خوف ہو تو محتاط رہو اور ان کی ہر ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہو۔ لہٰذا آیت کے اس حصے کا قصر کے ساتھ تعلق باقی نہیں رہتا۔ قصر کا ذکر پہلے حصے میں مکمل ہوچکا ہے۔ فرمایا ان الکفرین کانوا لکم عدواً مبیناً بیشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں۔ ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا تمہارے لئے ہر حالت میں ضروری ہے خواہ سفر امن کا ہو یا خوف کا۔
Top