Al-Quran-al-Kareem - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
1۔ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید کی آیت (22) کی تفسیر۔ 2۔ اِلَّا بِاِذْنِ اللہ ِ : اس سے پہلی آیات میں اللہ کی توحید ، رسولوں کی رسالت اور قیامت کا بیان تھا ، اس آیت میں تقدیر پر ایمان کا بیان ہے جس سے آدمی کے دل میں تکلیفیں برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت میں ایمان والوں کے لیے تسلی اور کفار کے اس اعتراض کا جواب بھی ہے کہ ایمان والوں پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں۔ فرمایا جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ کے اذن سے آتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلے سے مقدر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں مومن و کافر سب پر آتی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر امتحان اور آزمائش کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ مومن و کافر پر اس کا اثر اور نتیجہ مختلف ہوتا ہے ، مومن اپنے رب پر راضی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت کی روشنی ، یقین اور اطمینان کی نعمت اور آخرت میں جنت عطاء فرماتا ہے اور کافر اپنے رب پر ناراض ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے اندر ہر وقت پریشان اور سراپا شکوہ بنا رہتا ہے اور آخرت میں اس کے لیے جہنم ہے۔ 3۔ یعنی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اللہ کے حکم سے اور اس کے طے شدہ فیصلے اور تقدیر کے مطابق پہنچتی ہے۔ 4۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہ : یعنی جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ جان لے کہ یہ اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر سے ہے ، پھر اس پر صبر کرے ، ثواب کی نیت رکھے اور اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے فیصلے کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور دنیا میں اس کے ہاتھ سے جو کچھ نکلا یعنی اس سے جو کچھ لیا گیا اس کے بدلے میں اس کے دل میں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اور سچا یقین عطاء فرماتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ اس سے لیا گیا اس کی جگہ وہی یا اس سے بہتر چیز عطاء فرما دیتا ہے۔ اس آیت کی طرح سورة ٔ بقرہ (155 تا 157) میں مصیبت پر صبر کرنے والوں کو ”المھتدون“ (ہدایت والے) قرار دیا۔ طبریٰ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ”وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہٗ“ کے متعلق ابن عباس ؓ کا قول نقل فرمایا ہے :(یعنی یھد قلبہ للیقین فیعلم ان ما اصابہ لم یکن لیخطئہ وما اخطاہ لم یکن لیصیبہ) (طبریٰ 22، 21، ح : 3459)”یعنی (آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھے) اللہ تعالیٰ اس کے دل کو یقین کی ہدایت دیتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس پر جو مصیبت آئی وہ کسی صورت اس سے خطاب کرنے والی نہیں تھی اور جو خطاء کرگئی وہ کسی صورت اس پر آنے والی نہیں تھی“۔ اور اعمش نے ابو ظبیان سے بیان کیا کہ ہم علقمہ کے پاس تھے ، ان کے پاس یہ آیت پڑھی گئی :(وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہٗ) اور اس کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :”اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اس پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے تسلیم کرلیتا ہے۔“ (ابن جریر و ابن ابی حاتم بسند صحیح)۔ صہیب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(عجباً لا مر المومن ان امرہ کلہ خیبر و لیس ذاک لا حد الا للمومن ان اصابتہ سراء شکر ، فکان خیرا لہ و ان اصابتہ ضراء صبر ، فکان خیرالہ) (مسلم ، الزھد و الرقائق، باب المومن امرہ کلہ خیر : 2999)”مومن کے معاملے پر تعجب ہے ، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ، اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور وہ بھی اسے کے لیے خیر ہوتا ہے۔“ 3۔ وَ اللہ ُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پوری طرح علم ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی تقدیر پر ایمان رکھ کر صبر و شکر کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ، پھر وہ ایک کو اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔
Top