Mafhoom-ul-Quran - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر اللہ کے حکم سے اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے
مومن کے لیے آخرت کا زادراہ تشریح : یہ آیات انسانوں کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا ایک چھوٹا سا منشور ہے آئین ہے جو ہم انسانوں کے لیے آسانیاں اور سکون مہیا کرتا ہے۔ یہی فرق ہے کافر کی زندگی اور مسلمان کی زندگی میں مثال کے طور پر میں پنڈت جواہر لال نہرو کا ایک چھوٹا سا حصہ ان کی آپ بیتی میں سے بتاتی ہوں یہ انہوں نے آزادی سے 12 سال پہلے 1935 ء میں جیل میں قید ہونے کے دوران لکھی تھی۔ ، میں محسوس کرتا ہوں کہ میری زندگی کا ایک باب ختم ہوگیا اور اب اس کا دوسرا باب شروع ہوگا۔ اس میں کیا ہوگا ؟ اس کے متعلق میں کوئی قیاس نہیں کرسکتا، کتاب زندگی کے اگلے اوراق سر بمہر ہیں۔ (Nehru-Autobiography, London 1935, P597) جب ان کی زندگی کا اگلا دور شروع ہوا تو وہ دنیا کے تیسرے بڑے ملک کے وزیر اعظم بنے۔ اور اب بھی یہی خیال ان کے ذہن میں گھوم رہا تھا کہ ابھی زندگی کے مزید کچھ اوراق بند ہیں یہی خیال لے کر ہر انسان پیدا ہوتا ہے لہٰذا جنوری 1964 ء کے پہلے ہفتے میں مستشرقین کی بین الاقوامی کانگریس کی بین الاقوامی کانفرنس نئی دہلی میں ہوئی جس میں ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے بارہ ڈیلی گیٹ شریک ہوئے، پنڈت نہرو نے اس موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ، میں ایک سیاست دان ہوں اور مجھے سوچنے کے لیے وقت کم ملتا ہے پھر بھی بعض اوقات میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ آخر یہ دنیا کیا ہے، کس لیے ہے، ہم کیا ہیں، اور ہم کیا کر رہے ہیں، میرا یقین ہے کہ کچھ طاقتیں ہیں جو ہماری تقدیر بناتی ہیں،۔ (National Herald, Jan, 6, 1964) مولانا وحیدالدین خان صاحب اس کا تجزیہ یوں کرتے ہیں۔ ، یہ ایک عدم اطمینان ہے جو ان تمام لوگوں کی روحوں پر گہرے کہر کی طرح چھایا رہتا ہے، جنہوں نے اللہ کو اپنا الہ اور معبود بنانے سے انکار کیا، دنیا کی مصروفیتوں اور وقتی دلچسپوں میں عارضی طور پر کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اطمینان سے ہم کنار ہیں، مگر جہاں یہ مصنوعی ماحول ختم ہوا، حقیقت اندر سے زور کرنا شروع کردیتی ہے اورا نہیں یاد دلاتی ہے کہ وہ سچے اطمینان سے محروم ہیں۔ خدا سے محروم قلوب کا یہ حال صرف ایک دنیوی بےاطمینانی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک دائمی مسئلہ ہے یہ دراصل اس تاریک اور بےسہارا زندگی کے آثار ہیں، جس کے کنارے وہ کھڑا ہے یہ اس ہولناک زندگی کی ابتدائی گھٹن ہے، جس میں ہر آدمی کو موت کے بعد داخل ہونا ہے اور اس خطرے کا پیشگی الارم ہے، جس میں اس کی روح کو بالاخر مبتلا ہونا ہے، مختصر یہ کہ وہ اس جہنم کا دھواں ہے جو ہر کافر و مشرک کے لیے تیار کی گئی ہے گھر میں آگ لگ جائے تو اس کا دھواں سوتے ہوئے آدمی کے دماغ میں گھس کر اس کو آنے والے خطرے سے باخبر کرتا ہے، اگر یہ دھوئیں کی گھٹن سے جاگ گیا تو خود کو بچا لے گا لیکن جب شعلے قریب آجائیں تو وہ انتباہ کا وقت نہیں ہوتا بلکہ وہ ہلاکت کا فیصلہ ہوتا ہے جو اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمہاری بےحسی اور بیخبر ی نے تمہارے لیے مقدور کردیا ہے کہ تم آگ میں جلو،۔ (مذہب اور جدید چیلنج) یہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ بے خدا تہذیب، بےربط معیشت، تمدن، بےبنیاد زندگی اور بےاصول معاشرے نے انسان کو ہر قسم کی بےسکونی، بےرہروی، بد کرداری اور بد نظمی میں مبتلا کردیا ہے۔ صنعتی ترقی، سائنسی اصلاحات، مال کی ہوس اور ترقی کی دوڑنے انسانی معاشرے کو پوری طرح مادی اور انفرادی خوشیاں حاصل کرنے کے چنگل میں پھنسا دیا ہے۔ جو معاشرے میں بےانصافی، بد دیانتی، چوری، قتل، فساد اور رشوت کا بول بالا کرتا ہے۔ اور یہی خود غرضانہ انفرادی خوشی حاصل کرنے کی جدوجہد انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی پہچان دی ہے۔ کہ وہ بہترین مخلوق ہے، عقل رکھتی ہے، علم اس کو دیا گیا ہے۔ جس میں سب سے پہلے اس کو اس کے خالق کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اکیلا ہے اسی نے اس کو بنایا ہے اور اس کے لیے پوری کائنات بنائی ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ وہ بڑا بےنیاز ہے، اپنے بندوں پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ یہاں صرف ان تین صفات کو بیان کیا جاتا ہے جو سورة التغابن کے آخر میں بیان کی گئی ہیں یعنی عالم الغیب والشھادۃ۔ (1) صرف اللہ کی ہی ذات بابرکت اور واحد ہے جو یہ طاقت رکھتا ہے کہ ظاہر باطن، ماضی، حال، مستقبل زمان ومکان کا اور انسان کا، سب کچھ اسی کے علم میں ہے۔ ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں۔ نہ کبھی ہوا نہ ہو سکے (2) العزیز ہے یعنی وہ اپنے علم و عرفان میں بےمثال اور وہ پوری طرح ہر چیز پر غلبہ رکھتا ہے۔ (3) الحکیم۔ حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت ہی ہے جو اس نے انسانی جسم بنایا نظام کائنات کس حکمت اور اندازے سے بنایا کہ اس کو پوری طرح سمجھ لینا انسان کی عقل سے باہر ہے۔ ہے کوئی ایسا جو ریت کا ایک ذرہ یا ایک تنکا بھی اپنی قدرت و حکمت سے بنا سکے ؟ ہرگز نہیں اور یہ عین حقیقت ہے۔ اس کے اسی طرح کے 99 صفاتی نام ہیں۔ اسی لیے سب سے پہلا حکم بندے کی بہتریوں کے لئے اس نے یہی دیا کہ سب سے بےنیاز ہو کر صرف اللہ کی عبادت کرو یعنی اپنے دکھ سکھ اور ہر پریشانی میں اسی کا سہارا مضبوطی سے تھام لو۔ پھر جو رسول اس نے ہدایت کے لیے بھیجا ہے اس کی فرمانبراداری کرو کیونکہ وہی تمہیں قرآن کے احکامات سے آگاہ کرے گا۔ قران کے احکامات جو تمہیں ایسی زندگی گزارنے کے آسان طریقے بتاتا ہے کہ تم دنیا کی تمام آسائشوں سے پاک صاف پرسکون زندگی گزار سکو گے جو تمہـیں گناہوں سے بچا کر جنت میں جگہ دلانے کا ذمہ دا رہے۔ اس سورت کے آخر میں چند اصول اخلاق بتائے گئے ہیں ملاحظہ ہوں۔ جیسے توحید پر ایمان، رسالت پر ایمان، آخرت پر ایمان، جنت اور دوزخ پر یقین، بیوی بچوں کے غلط مطالبات اور خواہشات سے خود کو بچانا، مال و اولاد کی محبت میں اللہ کو اور اس کے احکامات کو نہ بھلانا، عام زندگی میں عفو در گزر سے کام لینا، تقوی اختیار کرنا۔ اللہ کی راہ میں اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے مال خرچ کرنا، بخل سے بچنا، اللہ کو قرض حسنہ دینا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا۔ اس سورت کے شروع میں بھی چند حقائق بتائے گئے ہیں مثلاً یہ کہ تمام انسانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بےسہارا نہیں ان کو ایک بڑا مضبوط، معقول اور ہمیشہ رہنے والے اللہ کا سہارا ملا ہوا ہے۔ اور یہ کہ انسان کی زندگی بےمقصد نہیں، کائنات صرف کھیل تماشہ نہـیں۔ انسان کی زندگی اور کل کائنات بامقصد اور حکمت کے تحت ہے۔ انسان زندگی کے گزرانے میں آزاد اور خود مختار ہے مگر حیوانوں کی طرح آزاد نہیں اس کی جواب دہی ضرور ہوگی کیونکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنی پوری زندگی کا حساب کتاب دے کر انعام یا سزا ضرور ملے گی۔ اس لیے اخلاقی، تمدنی، سماجی اور معاشرتی اصول جو بتائے گئے ہیں قران و سنت میں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے اس میں کسی ایسی بات کا حکم ہرگز نہیں دیا گیا جس پر عمل کرنا انسان کے لئے مشکل یا ناممکن ہو۔ بلکہ سب کچھ خود انسان کی زندگی میں بھلائی اور آخرت میں یقینی نجات کا ہی باعث ہوگا۔ یہ تمام احکامات ہر مرد، عورت، بچے، بوڑھے اور جوان کے لئے ہیں چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ یارتبہ سے تعلق رکھتاہو۔ امیر ہو غریب ہو یادرمیانے درجے کا ہو۔ کیونکہ امیری، غریبی، شہرت، صحت، سکون، پریشانی، رحمت یا زحمت۔ ہر صورت میں انسان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے فرائض کو شکر، صبر، نیک نیتی، خلوص محبت اور قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے پورا کرتا ہے۔ یا کہ ان تمام مندرجہ بالا حدود سے علیحدہ ہو کر زندگی گزارتا ہے۔ جو بھی انسان کرتا ہے خود اپنے لیے کرتا ہے۔ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔ ، اللہ کے دوستوں کو غم لاحق ہوگا اور نہ کوئی پریشانی،۔ (سورۃ یونس :62) اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مسلمان ہے وہ نہ کبھی بیمار ہوسکتا ہے نہ غریب اور نہ ہی کمزور۔ یہ تمام حالات تو زندگی کا لازمہ ہیں۔ کیونکہ صحت کی قدر بیماری سے اور مال و اولاد کی قدر غریب و بےاولادی سے ہی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی حالت میں خود کو بےسہارا اور پریشان نہیں ہونے دیتاکیون کہ وہ جانتا ہے اس کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اللہ کی مرضی سے ہو رہا ہے اور جو ہو رہا ہے کسی نہ کسی مصلحت کے تحت ہو رہا ہے۔ اس لیے اس کے صبر و سکون کا انعام اسے ضرور ملے گا۔ یہاں بھی اور وہاں بھی کہ جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہوگی۔ حدیث میں آیا ہے، ہوشیار بنئے دور اندیش بنئے : ایک صحابی ؓ نے عرض کیا :، اے اللہ کے رسول ﷺ ! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دوراندیش ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کے لیے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے، جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی اور آخرت کا اعزازو اکرام بھی،۔ (معجم الصغیر، طبرانی) یا اللہ مجھے اپنا شکر گزار بنا، اپنا ذکر کرنے والا، اپنے سے ڈرنے والا، اپنا فرمانبردار، اپنی طرف عاجزی کرنے والا، زاری کرنے والا، رجوع کرنے والا، یا اللہ میری توبہ قبول کرنا، میرے گناہوں کو دھو ڈال، میری زبان کو سچا بنا، میرے دل کو ہدایت دے اور میرے سینے سے ہر قسم کی برائی دور کر دے۔ آمین ثم آمین خلاصہ سورة التغابن اس سورة مبارکہ کے خاص مضامین یوں ہیں 1 ۔ یہ کائنات یونہی نہیں بن گئی بلکہ اس کا خالق ومالک اللہ ہے۔ جو الہ العلمین ہے قادر مطلق ہے۔ 2 ۔ یہ کائنات اور انسان بےمقصد نہیں پیدا کیے گئے 3 ۔ انسان کو خلائق مجبور میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ عقل و ارادہ دے کر پیدا کیا گیا ہے۔ 4 ۔ انسان نہ تو مجبور ہے اور نہ ہی مکمل طور پر آزاد بلکہ اس کو جواب دینا ہوگا اپنی پوری زندگی کے اعمال کا۔ 5 ۔ اللہ عالم الغیب والشھادۃ ہے اس لیے جوابدہی بڑی سخت ہوگی پورے انصاف کے ساتھ۔ 6 ۔ قوموں کی تباہی دو وجہ سے ہوئی۔ ایک خود ساختہ اصول حیات بنا کر خوار ہونا اور دوسرا آخرت سے انکار۔ 7 ۔ مومن کا بھروسہ پوری طرح اللہ پر ہونا چاہیے۔ 8 ۔ مومن کا مرنا جینا، مال اولاد اور سب کچھ اللہ کے لیے ہونا چاہیے 9 ۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق احکامات الٰہی کی پوری پوری تعمیل کرے۔ اللہ ان پر کار بند رہنے کی توفیق دے آمین۔ الحمدللہ سورة تغابن مکمل ہوئی۔
Top