Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
(اے پیغمبر اسلام ! اس دنیا میں) کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں آتی اور جو اللہ پر ایمان لے آتا ہے وہ اس کے دل کو (راہ) ہدایت دکھا دیتا ہے اور اللہ کو ہر بات کا علم ہے
ہر آنے والی مصیبت اللہ کے اذن سے آتی ہے اور ایمان ہدایت قلبی کا نام 11 ؎ ( اصاب) کی اصل ص و ب ہے ۔ اس کے معنی میں وہ پہنچا ، وہ آ پڑا ۔ اس نے پا لای ۔ اصابۃ سے جس کے معنی پا لینے کے ہیں ۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ( ما اصاب) نہیں پہنچتی ۔ وہ لوگ جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں ان کے راستے کا سب سے بڑا خطرہ اور سب سے بڑا پتھر جو ہر وقت ان کے راستے میں موجود ہوتا ہے اور کبھی بھی ان کے راستے سے وہ نہیں ہٹتا اور ہر وقت مزاحم ہوتا رہتا ہے اس کو دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جب انسان اس بات پر ایمان لے آئے کہ جو کچھ ہوگا اللہ کے حکم سے ہوگا اور جو ہوا وہ اللہ ہی کے حکم سے ہوا اور اس کے احکام تکوینی کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتے پھر اس کی رضا کو حاصل کرنے والے کے راستے سے جو چیز بھی مزاحم ہوتی ہے وہ ہو اور جو خطرہ آتا ہے وہ آئے اگر رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اس کا آنا ضروری ہے تو ہمارے سرما تھے پر ، ہم کو سو بار قبول ہمیں اس راہ کو جاری رکھنا ہے اور مزاحمتیں ہٹانا ہمارا کام نہیں بلکہ ان مزاحمتوں کی پرواہ نہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہی امتحان ہے اور اس میں ہم فیل نہیں ہونا چاہتے بلکہ اس کو پاس کرنا چاہتے ہیں اور اگر اس کو پاس کرتے کرتے ہم پاس ہی ہوجاتے ہیں تو اس میں گھبرانے کی بات کیا ہے ؟ یہی تو وہ گوہر جو ہمارا مقصود ہے ، اسی کی تلاش میں تو ہم اس راہ پر گامزن ہیں ، یہی تو ہمارا مطلوب ہے پھر اس سے ہم گھبرائیں گے تو آخر کیوں ؟ کیا ہم اللہ کے حکم سے باہر نکلنے کے لیے اس راستے پر گامزن ہوئے ہیں ؟ نہیں اور ہرگز نہیں ہم اللہ کے حکم سے باہر نہیں نکلنا چاہتے بلکہ اس کے مطابق اس عارضی زندگی کو گزارنا چاہتے ہیں اور اس راستے میں حائل ہونے والی چیز سے ہم قطعا ًڈرانے والے نہیں کیونکہ ایمان جس چیز کا نام ہے وہ یہی ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ اللہ کے حکم سے ہوگا پھر آخر ڈر اور خطرہ ہم کو ہوگا تو کیوں ؟ زیر نظر آیت میں (باذن اللہ) کے مفہوم کو ذہن نین کرنے کی کوشش و سعی کرو تاکہ یہ مفہوم آپ کے ذہن میں فٹ ہوجائے۔ خوب یاد رکھو کہ ( باذن اللہ) کا لفظ کسی انہوں نے کام پر نہیں بولا جاتا بلکہ ہونے کام پر بولا جاتا ہے لیکن ہمارے مفسرین نے ہمیشہ اس کے متعلق یہی خیال کیا ہے کہ یہ نہ ہونے والے کاموں پر یا ان ہونے والے کاموں پر بولا جاتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ انسان کا کام پیدا کرنا نہیں لیکن اللہ چاہے تو وہ پیدا کرسکتا ہے۔ انسان کا کام اندھوں کو بینا کرنا نہیں لیکن ( باذن اللہ) انسان اندھوں کو بینا کرسکتا ہے۔ انسان مردوں کو زندہ نہیں کرسکتا لیکن (باذن اللہ) مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان بذاتہٖ کچھ بھی نہیں کرسکتا جو کرتا ہے وہ اللہ کے اذن ہی سے کرتا ہے اور اللہ کا اذن اسی چیز کے متعلق ہوتا ہے جس چیز کی صلاحت انسان میں اللہ نے ودیعت کی ہے اور جو انسان کے اختیار و بس کا نہیں اللہ کبھی اس کے متعلق کسی بھی انسان کو اذن نہیں دیتا۔ ( باذن اللہ) کے معنی یہ سمجھنا کہ اللہ کے کرنے کے جو کام ہیں ان کو اللہ جس بندے سے کرانا چاہے اس کو اذن دے دیتا ہے اور وہ ان کو کرلیتا ہے کسی حال میں صحیح نہیں ہوسکتے۔ زیر نظر آیت میں ( باذن اللہ) کا مفہوم بالکل واضح ہوگیا ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کے راستے میں نکل کھڑا ہوتا ہے پھر جو کچھ اس کو پیش آتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اس کا کام راستے کی چیزوں یعنی مشکلات کو دور کرنا نہیں بلکہ ہر حال میں راستہ پر چلتے رہنا ہے اگر اس طرح چلنے میں اس کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو آئے ، اس کو گھبرا کر دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی مصیبت کو مصیبت نہیں سمجھنا چاہئے سب سے زیادہ جو کچھ ہو سکتا ہے وہ یہی ہے کہ اس کی جان چلی جائے گی تو اللہ کی راہ میں جان کا چلا جانا اس کا اصل مقصود ہے پھر جب اس کو وہ حاصل ہوگیا تو یہ تو اس کی خوش قسمتی کی بات ہے۔ اس سے جو گھبراتا ہے وہ تو کبھی اللہ کی راہ میں گامزن کہلا ہی نہیں سکتا وہ تو دنیا دار ہے اور جو کچھ کر رہا ہے محض دنیا داری کے لیے کررہا ہے اور دین کا تو اس نے خواہ مخواہ ڈھونگ رچایا ہے۔ جو شخص ایمان لانے کے دعویٰ میں سچا ہے اس کی تو نشانی ہی یہ ہے کہ اس کے دل میں اس بات کا خطرہ کبھی پیدا نہیں ہوا کہ کہیں میری جان ہی نہ چلی جائے۔ اس کا دل تو مطمئن ہوتا ہے اس بات پر کہ اگر میری جان چلی جائے تو مجھے میرا گوہر مقصود مل گیا اور میری ذمہ داری پوری ہوگئی اور اللہ تعالیٰ ہر انسان کے دل کی گہرائیوں میں جو کچھ ہے اس کو جانتا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے مخفی نہیں ہے۔ زیر نظر آیت کو ایک بار نہیں بار بار پڑھو اور اس کو سمجھنے کی پوری پوری کوشش کرو ۔ یہ مردوں کو ثواب پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ زندوں کو سیدھی راہ پر لگانے کے لیے آئی ہے۔ ملائیت نے اس کو پیٹ کا دھندا بنا لیا ہے۔ اس میں سمجھایا گیا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے ؟ اور پھر بتایا گیا ہے کہ یہ دارالمحن ہے ۔ اس میں داخل ہو کر مصائب و آلام سے کسی کو مفسر نہیں ہے۔ یہاں کیا ہے ؟ بتایا جا رہا ہے کہ بیماریاں ہیں ، صدمے ہیں ، تجارت و زراعت میں کمائیاں ہیں اور خسارے ہیں ۔ انسان کے لیے عزیز ترین مقصد میں انتہائی مساعی کے باوجود ناکامیاں ہیں اور یہ وہ حالات ہیں جن سے کم و بیش ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے لیکن آلام و مصائب کے ہجوم پر ہر شخص کا ردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا وہ لوگ جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ان حالات میں ایک بےبس اور محض مجبور تنکا محسوس کرتے ہیں جسے ہوا کے جھونکے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دھکیل کر پھینک رہے ہیں ۔ اس وقت جس ذہنی پستی اور اخلاقی انحطاط کا یہ لوگ مظاہرہ کرتے ہیں اسے دیکھ کر ایک انسان پسینہ سے شرابور ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھیں جھک جاتی ہیں لیکن جن کا ایمان محکم ہوتا ہے ان کے قدموں میں ذرا برابر بھی لچک نہیں آتی اور خصوصاً ان کی حالت اس وقت دیکھنے واولی ہوتی ہے جب وہ کسی مصیبت کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور لوگ ان پر ترس رکھا رہے ہوتے ہیں اور وہ ہیں کہ مسکراتے چلے جاتے ہیں ، لوگوں کی آنکھیں نم ہوتی ہیں لیکن ان کے چہروں پر خوشی کی لہریں دوڑ رہی ہوتی ہیں اور بڑی سے بڑی آندھیاں بھی ان کے یقین کی شمع کو گل نہیں کرسکتیں اور وہ پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ؎ تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ فرمایا اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم بےآسرا اور بےسہارا نہیں ہیں ۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام ان کا آسرا و سہارا ہے۔ پھر اس سے بڑا آسرا اور سہارا کیا ہوگا اور ان کو اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ان کا پروردگار ان کی حالت سے اچھی طرح واقف ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے ۔ اگر اس نے یہ چاہا ہے تو ہم کو ایک بار کیا سو بار قبول ہے۔ ہم نہیں جانتے اس کی حقیقت کو وہی جانتا اور سمجھتا ہے کہ اس میں ہماری کونسی بہتری پنہاں ہے اور کس مصلحت کے تحت یہ ہوا ہے یا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دل کبھی مضطرب اور بےچین نہیں ہوتے ، وہ پکارتے ہیں اور اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ( رب اسبحن احب الی مما یدعوننی الیہ) ” اے میرے رب ! مجھے قید اس سے بہتر ہے جس طرح یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں “ اس لیے مصائب و آلام کو دیکھ کر ان کے دل کبھی بےچین نہیں ہوتے۔ آزمائش کی اس پر خار وادی کو بڑے صبر و تحمل اور سکون و وقار کے ساتھ طے کرتے چلے جا تے ہیں ۔ ایمان باللہ میں کس بلا کی قوت ہے اس قوت کے بل بوتے پر انسان کس طرح ثابت قدمی اور جوان مردی کا مظاہرہ کرتا ہے اس کے لیے آپ لوگ فرعون کے ساحروں کے روپ پر ذرا نگاہ ڈالو کہ فرعون ان کو دھمکیاں دے رہا ہے ” اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمت کٹوا دوں گا اور پھر اس ہی پر بس نہیں کروں گا بلکہ آگے بڑھ کر تم کو سولی چڑھا دوں گا ۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ فرعون یقینا ایسا کر دے گا کیونکہ اس کے ظلم کی داستانیں تو اس سے بہت آگے بڑھ چکی تھیں لیکن وہ ایمان جو ان کے دلوں میں یکا یک پیدا ہوگیا تھا اگرچہ ابھی نوزائیدہ تھا لیکن اس کی طاقت کا اندازہ کرو کہ وہ بےدھڑک پکار اٹھتے ہیں کہ ( فاقض ما انت قاض) اے فرعون ! کر جو تو کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔ تیرا فصلہ تو آخری زندگی کے متعلق ہو سکتا ہے جو عارضی زندگی دنیا کی زندگی ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ( انا امنا بربنا لیغفرلنا خطایانا) ” ہم تو اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہ معاف فرما دے “۔ اگر اس نے ہمارے ایمانوں کی صفائی کے لیے یہی چاہا ہے جو تو کہہ رہا ہے تو ایک بار نہیں ہم کو سو بار قبول ہے اور اب پڑھو ( ومن یومن باللہ یھد قلبہ) کہ اس ایمان کا نشہ انسان کو کس قدر مست کردیتا ہے اور یہ کہ ایمان کا چاشنی جو صحیح معنوں میں چکھ لیتا ہے اس کا دل کس طرح مطمئن ہوجاتا ہے خصوصاً اس وقت جب زندگی کا کارواں لالہ زاروں اور مرغزاروں سے نکل کر خار زاروں اور اد اس و ویران ریگ زاروں سے گزرنے لگے تو ان کے چہروں پر اس وقت بھی طمانیت کا نورجھلک رہا ہوتا ہے ۔ ان کے دل دلوں میں یہ سما چکا ہوتا ہے کہ ہماری حالت سے ہمارا اللہ خوب واقف ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
Top