Mazhar-ul-Quran - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
کوئی مصیبت1 نہیں پہنچتی مگر خدا کے حکم سے اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔
اجزائے ایمان اور مصیبت کے وقت صبر کرنے کا اجر۔ (ف 1) اوپر اللہ اور اللہ کے رسول و قرآن شریف پر ایمان لانے کا حکم فرما کر ان آیتوں میں تقدیر الٰہی پر ایمان لانے کا ذکر فرمایا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی، اور ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت علی کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا، ایماندار بننے کے لیے چار باتوں پر ہر آدمی کو ایمان لانا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ کا وحدہ لاشریک ہے۔ دوسرے یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور جو دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں لایا ہوں وہ سب برحق ہیں، تیسرے یہ کہ مرنے کے بعد قیامت کا آنا حق ہے۔ چوتھے تقدیر الٰہی کا دل میں پورا اعتقاد رکھنا، آیت اور حدیث یہ مطلب نکلا کہ مثلا آدمی کو کوئی تکلیف دنیا میں پہنچے تو آدمی دل میں پورا اعتقاد رکھے کہ مجھ کو یہ اللہ کے اس حکم کے موافق پہنچی ہے جو حکم دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے اور یہی اعتقاد دنیا کے باقی امور میں رکھنا چاہیے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی عبداللہ بن عمر بن العاص کی حدیث اس باب میں اوپر گذرچ کی ہے اس اعتقاد سے یہ فائدہ ہوگا کہ آدمی کے دل میں صبر کی ہمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوجائے گی جس سے دنیا میں تکلیف کی برداشت آسان ہوجائے گی اور صبر کا اجر ملے گا، یہی مطلب ومن یومن باللہ یھد قلبہ کا ہے مشرکین یہ کہتے تھے کہ اگر یہ اہل اسلام حق پر ہوتے ہیں تو ان کو یہ دنیا کی طرح طرح کی مصیبتیں نہ پہنچتیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائین اور فرمایا کہ جو لوگ حق پر ہیں ان کو دنیا کی مصیبتیں تقدیرالٰہی کے موافق اس مصلحت سے پہنچائی جاتی ہیں کہ وہ لوگ اللہ کی توفیق کی مدد سے ان مصیبتوں پر صبر کریں جس کے اجر می ان کے ثواب کا درجہ عقبی میں بڑھے، ابوہریرہ کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ بعض ایماندار لوگوں کو اللہ عقبی میں ایسا درجہ دینا چاہتے ہیں جو ان کے عملوں سے بڑھ کر ہے اس لیے ان کو دنیا میں کچھ مصیبتوں میں مبتلا فرماتا ہے اور پھر ان مصیبتوں پر صبر کریں توفیق عنایت فرماتا ہے تاکہ اس صبر کے اجر میں وہ لوگ اس بڑے درجہ تک پہنچ جائیں ۔ اس باب میں اور بھی حدیثیں ہیں یہ سب حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں ۔ واللہ بکل شئی علیم کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں اس لیے مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے اسی کے موافق وہ ان کو عقبی میں اجر عنایت فرمائے گا طبرانی کبیر میں حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا جب حشر کرنے والوں کو بےحساب اجرملے گا، تو جو لوگ دنیا میں عافیت سے رہے ہیں وہ یہ آرزو کریں گے کہ دنیا میں کوئی تکلیف پہنچتی ور اس تکلیف پر صبر کرتے تو اچھا ہوتا کہ آج اس صبر کا اجرملتا، مصیبت کے وقت بشریت کے سبب سے آدمی ذراگھبراتا ہے اسی لیے فرمایا کہ ایسے وقت میں اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کا پوراخیال رکھ کر کوئی بات خلاف شریعت نہ کی جائے اور دنیا عالم اسباب ہے اس میں تکلیف پہنچتی اور اس تکلیف پر صبر کرتے تو اچھا ہوتا کہ آج اس صبر کراجرملتا، مصیبت کے وقت بشریت کے سبب سے آدمی ذرا گھبرا جاتا ہے اسی لیے فرمایا کہ ایسے وقت میں اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کا پوراخیال رکھ کر کوئی خلاف شریعت نہ کی جائے اور دنیا عالم اسباب ہے اس میں تکلیف کا اگر سبب ہو تو اس سبب میں کوئی مستقل تاثیر نہ خیال کی جائے بلکہ ایسے وقت میں پورا بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے کسی سبب کو اس کی قدرت میں کوئی مستقبل دخل نہیں ہے وقت مصیبت ان اللہ واناالیہ راجعون، پڑھے اور اللہ کی عطا پر شکر اور مصیبت پر صبر کرے۔ بیچ میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے رسول کے ذمہ احکام الٰہی کا بیان کردینا ہے ان احکام کو جو مانے گا اسی کو بھلا ہے۔
Top