Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ " ہمارے دل بند ہیں " (نہیں) بلکہ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے ان کے کفر کی بناء پر پس یہ لوگ کم ہی ایمان لاتے ہیں،1
248 یہود کے عجب و استکبار کا ایک نمونہ : سو یہ ان کے اسی مذکورہ بالا استکبار کا ایک نمونہ اور ثبوت ہے، جس کی بناء پر انہوں نے کلمہء حق کے لئے اپنے دلوں کے دروازے بند کردیئے تھے اور " غلف " یا تو جمع ہے " اغلف " کی، جیسے " حمر " جمع ہے " احمر " کی اور " صفر " جمع ہے " اصفر " کی، اور " اغلف " ایسی شے کو کہتے ہیں، جو کسی پردہ اور غلاف میں ڈھکی اور چھپی ہوئی ہو۔ مطلب ان کے کہنے کا یہ تھا کہ ہمارے دل پردوں میں بند اور محفوظ ہیں۔ آپ کی بات ان تک نہیں پہنچ سکتی، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِی اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنََا اِلَیْہِِ } ۔ (حٰمٓ السجدۃ :5) اور یا " غلف " جمع ہے " غلاف " کی، جیسے " کتب " جمع ہے " کتاب " کی۔ صرف اتنا ہوا کہ " غُلْفٌ " میں لام کے ضمہ کو تخفیف کیلئے سکون سے بدل دیا گیا۔ اور " غلاف " کے معنی ظرف اور برتن کے آتے ہیں۔ تو اب معنی یہ ہوگا کہ ان لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے دل چونکہ علوم و معارف سے بھرے ہوئے برتن ہیں، لہذا ہمیں تمہاری بات سننے کی ضرورت نہیں۔ مجاہد ( (رح) ) اور قتادہ ( (رح) ) وغیرہ نے پہلے معنی اختیار کئے ہیں، اور حضرت ابن عباس ؓ نے دوسرے۔ اسی لئے آپ " غلف " کو " غُلُف " پڑھتے تھے یعنی لام کے ضمہ (پیش) کے ساتھ۔ بہرکیف لفظ " غلف " میں یہ دونوں احتمال موجود ہیں، اور دونوں ہی یہود کے اس استکبار کے نمونے ہیں جو ان کیلئے لعنت و پھٹکار، اور شقاوت و حرماں نصیبی کا باعث بنا، اور یہ ہمیشہ کیلئے محروم اور " مغضوب علیہم " قرار پاگئے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ 249 یہود پر اللہ کی لعنت و پھٹکار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نہیں بلکہ ان لوگوں پر اللہ کی لعنت و پھٹکار ہے ان کے کفر کی بنا پر۔ یعنی معاملہ اس طرح نہیں جس طرح یہ لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں، کہ ان کے دل بند اور محفوظ ہیں، یا ان کے دل علوم و معارف کے بھرئے ہوئے برتن ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان پر لعنت اور پھٹکار پڑگئی اللہ پاک کے اس قانون عدل و انصاف کی بنا پر، جو کہ اسباب و مسببات کی اس دنیا میں جاری اور کارفرما ہے، کہ انہوں نے جب اپنے ارادہ و اختیار سے حق اور ایمان کی بجائے کفر و انکار کا راستہ اپنالیا، تو اس کے نتیجے میں یہ اس انجام سے دوچار ہوئے، اور ان کو یہ بھگتان بھگتنا پڑا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ورنہ اس واہب مطلق ۔ جل و علا ۔ نے تو اپنی رحمت عامہ سے ان کو بھی دوسرے تمام انسانوں کی طرح فطرت سلیمہ پر پیدا فرمایا تھا۔ مگر جب انہوں نے خود راہ راست کو ترک کر کے الٹے راستے کو اختیار کیا، تو یہ لوگ اس لعنت و پھٹکار کے حقدار بن گئے۔ سو جب انہوں نے ٹیڑھے پن کو اختیار کیا تو ان کو اسی کے حوالے کردیا گیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، کہ جب انہوں نے بدی کے راستے کو اپنایا تو اس نے ان کو اسی راہ پر چھوڑ دیا، کیونکہ ہدایت کی دولت ایسے لوگوں کو نہیں مل سکتی، جو اس کی طلب سے محروم اور اس سے منہ موڑے ہوئے ہوں ۔ فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزََاغََ اللّٰہُ قُلُوْبََہُمْ ۔ تو اس طرح ان بدبختوں نے اپنی فطری استعداد کو خود ضائع کردیا، اور کان آنکھ وغیرہ قواء علم و ادراک کو انہوں نے اپنے اوپر خود بند کردیا ۔ والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ { اُوْلٓئِکَ الَّذِیْنََ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٰٓی اَبْْْصَارَہُمْ } ۔ (محمد : 23) اور یہ اسی لعنت و پھٹکار کا اثر و نتیجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اس ہولناک نقصان و خسران پر افسوس کرنے کی بجائے الٹا اس پر فخر جتلاتے ہیں، سو ایسے ہی ہوتی ہے خداوند قدوس کی بےآواز لاٹھی کی مار ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 250 ایمان قلیل سے مراد اور اس کا حکم ؟ : " قَلِیْلاً " یہاں پر ایمان کی صفت بھی ہوسکتا ہے، یعنی " اِیْمَانًا قَلِیْلاً " اور مراد اس ایمان قلیل سے ان کا وہ نام نہاد ایمان ہے جو یہ اپنی کتاب کے کچھ حصے پر رکھتے تھے، اور کچھ پر نہیں رکھتے تھے، جس کا ذکر ابھی اوپر آیت نمبر 80 میں بھی آچکا ہے اور جس کا یہ لوگ زبانی کلامی دعوی بھی کرتے تھے۔ مگر ان کا یہ ایمان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اول تو اس لئے کہ ایمان ایسی چیز ہے ہی نہیں جو تقسیم و تجزیہ کے قابل ہو کہ کچھ چیزوں کو مان لو اور کچھ کو نہ مانو۔ اور دوسرے اس لئے کہ ان کا یہ ماننا بھی ہوائے نفس کے تابع ہے کہ جو چیز خواہشات نفس کے مطابق پائی مان لی اور جو اس کے خلاف ہوئی نہ مانی۔ اس طرح یہ امر تو اتباع ھدیٰ سرے سے ہے نہیں بلکہ یہ اتباع ھویٰ ہے جو کہ حق کی ضد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس لئے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہاں پر قلت بمعنی عدم کے ہے۔ یعنی تم لوگ سرے سے ایمان رکھتے ہی نہیں ہو ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس دین کے کچھ حصے کو ماننا اور کچھ کو نہ ماننا کفر ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور محض زبانی کلامی دعوے کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک ایمان کی حقیقت دل میں اتری ہوئی نہ ہو اور عمل و کردار سے اس کی تصدیق نہ ہوتی ہو، مگر افسوس کہ آج کتنے ہی نام نہاد مسلمان بھی ایسے ہیں جو اس یہودی بیماری میں بری طرح مبتلا ہیں، وہ ایمان کے بلند بانگ دعوے تو بہت کرتے ہیں، مگر عمل کے لحاظ سے ان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ الا ماشاء اللہ ۔ وہ طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے، سود کھاتے، جواء کھیلتے، شراب پیتے اور طرح طرح کے مکر و فریب سے دوسروں کا حق مارتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسرا احتمال " قَلِیْلاً " کے اس لفظ میں یہ ہے کہ یہ ایمان کی نہیں لوگوں کی صفت ہو، یعنی بہت کم لوگ ان میں ایسے ہیں جو ایمان لاتے ہوں، اکثریت ان میں بےایمانوں ہی کی ہے۔ اور یہ قرآن پاک کے عدل و انصاف کا ایک مظہر ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا کہ سب ہی یہود بےبہبود کو ان کے ظلم وعدوان کی بناء پر ایک ہی لاٹھی سے ہانک دے، بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ ان کی اکثریت اگرچہ بےایمانوں بدکاروں کی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو میانہ رو، اور سچے ایمان و یقین کی دولت سے بہرہ ور و سرشار ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر بھی ارشاد فرمایا۔ (المائدۃ۔ 96) ۔
Top