Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے اولاد آدم ! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنی آرائش لے لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے آگے مت بڑھو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
بےحیائی کی مذمت، اور طواف و نماز کے وقت ستر عورت کا خصوصی حکم مشرکین عرب طرح طرح کے شرکیہ عقائد و افعال اور بےشرمی کے اعمال میں مبتلا تھے ان کی یہ بےشرمی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ کعبہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے۔ مرد بھی ننگے اور عورتیں بھی ننگی۔ البتہ عورتیں یہ کرتی تھیں کہ اپنی شرم کی جگہ پر چھوٹا سا چیتھڑا لپیٹ لیتی تھیں اور طواف کرتے یوں کہتی ہوئی جاتی تھیں۔ الیوم یبدو بعضہ او کلہ وما بدا منہ لا احلہ۔ ان کی اس حرکت سے منع کرنے کے لیے آیت کریمہ (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) اور اس کے بعد والی آیت (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ ) نازل ہوئی۔ (رواہ مسلم عن ابن عباس) علامہ ابوبکر جصاص (رح) نے احکام القرآن ص 21 ج 3 میں لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے اس خیال خام میں مبتلا تھے کہ جن کپڑوں میں گناہ کیے ہیں ان میں طواف کرنا صحیح نہیں اور بعض حضرات نے بتایا کہ یہ لوگ تفاؤلاً ایسے کرتے تھے کہ جیسے ہم کپڑوں سے ننگے ہوگئے اسی طرح سے ہمارے اوپر کوئی گناہ بھی باقی نہیں رہا۔ (شیطان اپنے لوگوں کو کیسی پٹی پڑھاتا ہے) اسباب النزول للواحدی ص 222 میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے نقل کیا ہے کہ اہل عرب نے اپنے دین میں یہ بات نکال رکھی تھی کہ منیٰ سے واپس ہو کر جب طواف کرتے تھے تو دونوں کپڑے اتار کر رکھ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے آیت شریفہ (یَابَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) سے (لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) تک نازل فرمائی۔ لفظ (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) کا عموم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کے لیے مسجد میں جائیں (جو صرف مسجد حرام میں ہوتا ہے) یا نماز کے لیے جائیں (خواہ کسی بھی مسجد میں پڑھیں) تو لباس پہن کر جائیں۔ ستر عورت جس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں اس کا اہتمام کرنا تو فرض ہی ہے (خواہ گھر میں نماز پڑھے) لیکن ستر عورت سے زیادہ جو لباس زینت کے لیے پہنا جاتا ہے اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔ لباس زینت کا حکم : میلے کچیلے بد بو دار کپڑے پہن کر نماز پڑھنے لگے تو یہ نماز کی شان کے خلاف ہے اس لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ جو کپڑے پہن کر بازار میں اور احباب و اصحاب میں جانے سے دل منقبض ہوتا ہو اور نفس اپنی بےآبروئی محسوس کرتا ہو ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ ستر عورت بھی ہو اور نظافت بھی ہو مرغوب لباس ہو (جو خلاف شروع نہ ہو) ایسے لباس میں نماز پڑھیں۔ لفظ زِیْنَتَکُمْ میں ان سب امور کی طرف اشارہ ہے۔ فضول خرچی کی ممانعت : پھر فرمایا (وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) (اور کھاؤ اور پیو اور حد سے آگے نہ بڑھو۔ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں فرماتا) حد سے آگے بڑھنے میں فضول خرچی، خلاف شرع لباس پہننا، حرام چیزیں کھانا اور استعمال کرنا سب داخل ہے چونکہ مشرکین طواف کرتے وقت ننگے ہو کر طواف کرتے تھے اور اس وقت کپڑے پہننے کو گناہ سمجھتے تھے نیز انہوں نے اور بھی بہت سی چیزیں اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں جن کی کچھ تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے اس لیے ان کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی (جس میں لباس بھی شامل ہے) اور اس کے علاوہ کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں پیدا فرمائیں ان کو کس نے حرام قرار دیا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو حلال قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کو تحلیل و تحریم کا اختیار ہے تم نے اپنی طرف سے تحریم کر کے اللہ کے قانون میں جو دخل دیا ہے یہ گمراہی کا کام ہے۔
Top