Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے بنی آدم ! ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنے لباس پہنو اور کھاؤ پیو البتہ اسراف نہ کرو، خدا اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ۔ یبنی آدم کا خطاب قریش اور عربوں ہی سے ہے۔ اس میں آدم کی طرف نسبت میں میں بلاغت وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ اس سے آدم و شیطان کی اس سرگزشت کی یاد دہانی ہوتی ہے جو تمام نسل آدم کی مشترک سرگزشت ہے اور جو ہر ابن آدم کو یہ سبق دیتی ہے کہ شیطان ان کا ابدی دشمن ہے جس و دوست بتانا اور جس کے کہے پر چلنا اور اپنے باپ کے دشمن کو دوست بنانا ہے۔ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ ، میں زینت سے مراد لباس فاخرہ نہیں بلکہ مجرد لباس ہے۔ لباس کو زینت کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہاں یہ ہے کہ طواف میں عریانی اختیار کرنے کا فلسفہ یہی تراشا گیا تھا کہ لباس زیب وزینت میں داخل ہے اور زیب وزینت اس عبادت کے شایانِ شان نہیں ہے۔ حج اور حرام میں فی الجملہ زہد و درویشی تو حضرت ابراہیم کے عہد ہی سے چلی آرہی ہے اور یہ حج کی خصوصیات میں سے ہے لیکن عربوں نے دور جاہلیت میں جہاں اور بہت سی بدعات ایجاد کیں وہیں یہ بدعت بھی ایجاد کر ڈالی کہ احرام کی سادگی اور درویشی کو عورتوں مردوں سب کے لیے عریانی کے حد تک پہنچا دیا۔ قرآن نے یہ اسی بدعت کی اصلاح کی۔ فرمایا کہ یہ عریانی بےحیائی ہے۔ اپنے لباس ہر مسجد کی حاضری کے وقت پہنو۔ جس طرح کوئی مسجد غیر اللہ کے لیے نہیں ہوسکتی اسی طرح کوئی مسجد ایسی نہیں ہوسکتی جس کی حاضری کے لیے یہ شرط ٹھہرا لی جائے کہ آدمی وہاں کپڑے اتار کر حاضر ہو۔ كُلِّ مَسْجِدٍ فرما کر اس حکم کو عام کردیا کہ حرم اور غیر حرم کی تخصیص نہ رہ جائے۔ یہ س جوگ اور رہبانیت کی کل نفی ہے جو عریانی کو تقرب الٰہی اور وصول الی اللہ کا ذریعہ ٹھہراتی ہے۔rnَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۔ جس طرح لباس تقوی اور دینداری کے خلاف نہیں ہے اسی طرح کھانا پینا اور اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا بھی دینداری کے خلاف نہیں ہے۔ دینداری اور تقوی کے خلاف جو چیز ہے وہ اسراف ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز اس قسط کے خلاف ہے جو تمام شریعت اور تمام احکام الٰہی کی، جیسا کہ اوبر بیان ہوا، روح ہے۔ اللہ تعالیٰ قائم بالقسط ہے س وجہ سے وہ مقسطین یعنی عدل و اعتدال پر قائم رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، مسرفین، یعنی عدل و اعتدال سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بےاعتدالی افراط کی نوعیت کی بھی ہوسکتی ہے، تفریط کی نوعیت کی بھی، اور یہ دونوں ہی باتیں خدا کی پسند کے خلاف ہیں۔ نہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی کھانے پینے پہننے ہی کو مقصود بنا لے اور رات دن اسی کی سرگرمیوں میں مشغول رہے اور نہ وہ یہ ہپسند کرتا ہے کہ ان چیزوں کو راہبوں اور جوگیوں کی طرح تیاگ دے۔ تبذیر اور تفریط دونوں ہی شیطان کی نکالی ہوئی راہیں ہیں، خدا زندگی کے ہر پہلو میں عدل و اعتدال کو پسند فرماتا ہے۔ اصلی نقطہ اعتدال : یہ سوال کہ ان چیزوں میں نقطہ عدل و اعتدال کیا ہے اور حد اسراف کیا ہے انسان کی عقل سلیم اور فطرت سلیم پر چھوڑا گیا ہے اس لیے کہ اس کی کوئی قانونی حد بندی ممکن نہیں ہے۔ اشخاص اور حالات کے اعتبار سے اس میں فرق بھی ہوسکتا ہے۔ ایک غنی اور ایک فقیر دونوں کے لیے کوئی ایک معیار مقرر نہیں ہوسکتا ہے۔ تاہم ہر غنی سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو مال ہے اس میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں اس وجہ سے اس کے لیے اس کے پاس جو مال ہے اس میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں اس وجہ سے اس کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا تو مباح ہے لیکن اسراف و تبذیر جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ مسرفین کو دوست نہیں رکھتا، دوست نہیں رکھتا، کے الفاظ معمولی نہیں ہیں اس لیے کہ خدا جن کو دوست نہیں رکھتا لازماً وہ اس کے نزدیک مبغوض ہیں۔
Top