Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے اولاد آدم ! عبادت کے ہر موقع پر اپنے جسم کی زیب وزینت سے آراستہ رہا کرو نیز کھاؤ پیو مگر حد سے گزر نہ جاؤ ، اللہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں
عبادت الٰہی کے لئے زیب وزینت اختیار کرنا اولاد آدم (علیہ السلام) کے لئے ضروری ہے : 42: عربوں نے خاص مسجد یعنی مسجد الحرام میں لباس کو اتار کر طواف کرنے کو اللہ کا حکم اور اپنے بزرگوں کا طریقہ بتا یا تھا جس کی کوئی اصل ان کے پاس موجود نہیں تھی اس لئے کہ جب ان سے ان کے اس نظریہ کا ثبوت طلب کیا گیا تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا چور کو توال کو ڈانٹے والا کام کرنے لگے لیکن ان کو بھی اولاد آدم ہونے سے انکار نہ تھا بلکہ وہ اپنے آپ کو اولاد آدم کے ساتھ ساتھ دین ابراہیمی (علیہ السلام) کو ماننے والے بھی ثابت کرتے تھے اس لئے ان کو اولاد آدم ! ہی کہہ کر بتایا جارہا ہے کہ اولاد آدم (علیہ السلام) کے لئے حکم الٰہی تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ کی عبادت میں لگیں تو لباس زیب تن کریں اور لباس بھی ایسا جو زینت وزیبائش کا کام بھی کرے صرف لنگوٹ اور جان گیا ہی پر اکتفا نہ کریں اور یہ بھی کہ صرف مسجد الحرام ہی میں لباس کا پہننا ضروری نہیں بلکہ ہر مسجد میں جانے والا نمازی زیب وزینت سے مصروف عبادت ہو۔ ہاں ! انسانی زینت ، بنائو سنگھار میں نہیں بلکہ سادگی میں ہے جس طرح لباس اتارنے سے شیطان خوش ہے اسی طرح بنائو سنگھار سے بھی۔ زیب وزینت کا لباس اور بنائو سنگھار اپنے اندر واضح فرق رکھتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں بنائو سنگھار بھی اسی طرح کی عریانی ہے جس طرح لباس اتار دینا عریانی کہلاتا ہے۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ لباس اتارنا اس وقت کی عریانی ہے جب قرآن کریم نازل ہو رہا تھا اور بنائو سنگھار کی عریانی اس وقت آئی جب شیطان کے ساتھیوں نے سمجھا کہ لوگ ان کے کہنے پر اب لباس نہیں اتارتے اس لئے انہوں نے جدید فیشن کے ذریعہ بنائو سنگھار کی عریانی کی دعوت دے دی اور یہ مثل پہلے مشہور ہے کہ یاروں کے یاری کا پاس ہوتا ہے یاروں کے عیب نہیں دیکھے جاتے۔ اس کے ساتھیوں نے بھی یار کی یاری کا پاس کیا اور ملبوس رہتے ہوئے عریانی کا نیا طریقہ دریافت کرلیا۔ فرمایا جس طرح لباس تقویٰ اور دینداری کے خلاف نہیں۔ بالکل اس طرح کھانا پینا اور اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا بھی دینداری کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا پہلے بتایا جا چکا ہے کہ کفار کپڑے اتار کر طواف کرنے کو کمال تقویٰ خیال کرتے تھے اور اس طرح حج کے دنوں میں گھی اور گوشت کھانا بھی ترک کردیتے تھے ان کو اس سے روکا گیا کہ لباس زیب تن کرو۔ گھی اور گوشت استعمال کرو یہ مصنوعی تقویٰ اللہ کو پسند نہیں تو انہوں نے ایک نہ مانی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان صاف وسفید احرام کی چادریں زیب تن کر کے مصروف طواف ہیں اور گھی وگوشت بھی بلا تکلف استعمال کرتے ہیں تو یہ طریق کار انہیں اپنے زہد وتقویٰ کے معیار سے بہت فرو تر معلوم ہوا تو انہوں نے مسلمانوں کو دنیا پرستی اور لذت طلبی کا الزام لگایا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ہمت بندھائی اور اعلان فرمایا کہ زینت و آرائش کی جن چیزوں اور عمدہ اور لذیذ کھانوں کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے حلال کیا ہے کسی کو کیا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے انہیں حرام ٹھہرائے۔ اسی طرح شیطان نے جب دیکھا کہ اس کی وہ پہلی چال ناکام ہو رہی ہے تو اس نے انسانوں کو اس لباس میں خوراک کے معاملہ میں اسراف سکھا دیا تاکہ اعتدال و انصاف قائم نہ ہوسکے۔ اس لئے قرآن کریم نے جس طرح عریانی سے منع فرمایا تھا ، مسلمانوں کو اسراف سے بھی روک دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قائم بالقسط ہے اس لئے وہ ” مقسطین “ یعنی عدل و اعتدال پر قائم رہنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ” مسرفین “ یعنی عدل و اعتدال سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بےاعتدالی افراط کی نوعت کی بھی ہو سکتی ہے تفریط کی نوعیت کی بھی اور یہ دونوں ہی باتیں خدا کو ناپسند ہیں۔ نہ وہ پسند کرتا ہے کہ آدمی کھانے پینے پہننے ہی کو مقصود سمجھے اور رات دن اس کی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور نہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ ان چیزوں کو راہبوں اور جو گیوں کی طرح ترک کر دے۔ تبذیر وتفریط دونوں ہی شیطان کی نکالی ہوئی راہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال ہی کو پسند کرتا ہے اور شیطان اس سے ابیٰ ۔ رہا یہ سوال کہ ان چیزوں میں نقطہ عدل و اعتدال کیا ہے اور حد اسراف کیا ہے ؟ تو اس کا جواب انسان کی عقل سلیم اور فطرت عمیم پر چھوڑ دیا ہے۔
Top