Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے اولاد آدم ! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنی آرائش لے لیا کرو اور دکھاؤ اور پیو اور حد سے آگے مت بڑھو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
(1) امام ابن ابی شیبہ، مسلم، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عورتیں ننگے ہو کر طواف کرتی تھیں۔ مگر یہ کہ ایک چیتھڑا اپنی شرم گاہ پر رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں : الیوم ببدو بعضہ وکلہ وما بدا منہ فلا احد ترجمہ : آج کے دن ظاہر ہوا ہے اس کا بعض یا اس کا کل اور جو ظاہر ہے اس میں اس کو حلال قرار نہیں دیتی۔ (2) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے ہم ان کپڑوں میں طواف نہیں کریں گے کہ جس میں ہم نے گناہ کئے۔ تو ایک عورت آئی اور اس نے اپنے کپڑوں کو (اتار کر) ڈالا اور طواف کیا اور اپنے ہاتھ کو اپنے دل پر رکھ کر کہنے لگی : الیوم ببدو بعضہ وکلہ وما بدا منہ فلا احد ترجمہ : آج کے دن ظاہر ہورہا ہے اس کا بعض یا اس کا کل۔ اور جو اس میں سے ظاہر ہے تو میں اس کو حلال قرار نہیں دیتی۔ (3) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خذوا زینتکم عند کل مسجد “ سے مراد ہے کہ مرد بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زینت کا حکم فرمایا اور زینت سے مراد ہے لباس کہ جس سے وہ اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ہے وہ محض عمدہ کپڑا اور سامان ہے۔ (4) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خذوا زینتکم عند کل مسجد “ اس سے مراد ہر وہ شے ہے جو شرم گاہ کو چھپا سکے اگرچہ خبہ ہی کیوں نہ ہو۔ (5) امام عبد بن حمید، اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خذوا زینتکم عند کل مسجد “ سے کپڑے مراد ہیں۔ (6) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے طاؤس سے روایت کیا کہ پگڑی بھی زینت میں سے ہے۔ (7) امام ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرک لوگ بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے گھروں میں اس کی پشت سے آتے تھے اور اس کی پشت سے داخل ہوتے تھے۔ اور یہ ایک قبیلہ تھا قریش میں سے جس کو حمس کہا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ (8) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرب میں سے کچھ لوگ بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک عورت بھی بیت اللہ کا ننگے طواف کرتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ (9) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ رات کو ننگے طواف کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے کپڑے پہنیں اور ننگے نہ ہوں۔ ننگا طواف کرنے کی ممانعت (10) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرب کے لوگ جب حج کرتے تھے تو وہ حرم کے قریب اترتے تھے اپنے کپڑوں کو اتار دیتے تھے اپنی چادروں کو (اتار کر) رکھ دیتے تھے اور مکہ میں بغیر چادر کے داخل ہوتے تھے۔ مگر یہ کہ اگر کسی آدمی کا اس میں سے کوٗی خمس قبیلہ میں سے دوست ہوتا تھا تو وہ اس کو عاریۃ اپنا کپڑا دیتا تھا اس کو اپنے کھانے میں سے کھلاتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ (11) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ مشرک لوگ زمانہ جاہلیت میں ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” خذوا زینتکم عند کل مسجد “ (12) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ یمن والوں میں سے ایک قبیلہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتا تھا مگر یہ کہ کوئی ان میں سے اہل مکہ کی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃ مانگ لیتا تھا تو پھر اس میں طواف کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ (13) امام ابن ابی حاتم ابو الشیخ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا ان کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ ریشم اور دیباج کا کپڑا پہنیں۔ وہ بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف کرتے تھے۔ جب وہ آتے تھے تو مسجد سے باہر اپنے کپڑوں کو اتار دیتے تھے پھر اندر داخل ہوتے تھے جب کوئی آدمی کپڑے پہن کر داخل ہوتا تھا تو اس کو مارتے تھے اور اس کے کپڑے اتار دیتے تھے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ (14) امام ابن عدی ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز کا لباس پہن لیا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ نماز کا لباس کیا ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے جوتے پہن لو اور اس میں نماز ادا کرو۔ (15) امام عقیلی، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد “ کے بارے میں فرمایا کہ اپنے جوتوں میں نماز پڑھو۔ (16) امام ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان چیزوں میں سے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عزت دی وہ اس کا جوتے پہننا ہے اپنی نمازوں میں۔ (17) امام ابو داؤد اور حاکم نے (اور حاکم نے اس کی تصحیح بھی کی ہے) شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہود کی مخالفت کرو کہ وہ اپنے موزوں اور اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے ہیں۔ (18) امام حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے جوتے اتاردے ان کے ذریعہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اسے چاہئے کہ وہ ان دونوں کو اپنی ٹانگوں کے درمیان رکھ لیں۔ یا پھر ان دونوں میں نماز پڑھ لے۔ (19) ابو یعلی نے سند ضعیف کے ساتھ انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا نماز کا لباس جوتے ہیں۔ (20) بزار نے سند ضعیف کے ساتھ انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا یہود کی مخالفت کرو اور اپنے جوتوں میں نماز پڑھو کیونکہ وہ اپنے موزوں میں اور اپنے جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ (21) طبرانی نے الاوسط میں سند ضعیف کے ساتھ ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کو جوتوں میں پڑھنا نماز پورا کرنے میں سے ہے۔ سرخ خضاب مسنون ہے (22) امام احمد نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ انصار کے بوڑھے لوگوں پر گزرے جن کی داڑھیاں سفید تھیں آپ نے فرمایا اے انصار کی جماعت ! اپنے بالوں کو سرخ اور زرد رنگ کرلیا کرو۔ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو کہا گیا : یا رسول اللہ ! اہل کتاب شلوار پہنتے ہیں اور چادر نہیں پہنتے۔ شلوار پہنو اور چادر پہنو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ ہم نے عرض کیا رسول اللہ اہل کتاب موزے پہنتے ہیں اور جوتے نہیں پہنتے۔ آپ نے فرمایا تم موزے پہنو اور جوتے بھی پہنو۔ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ہم نے کہا یا رسول اللہ اہل کتاب اپنی بڑی داڑھیوں کو کٹواتے ہیں اور اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں آپ نے فرمایا اپنی مونچھوں کے بالوں کو کاٹو اور اپنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ (23) احمد، بخاری و مسلم، ترمذی اور نسائی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے فرمایا ہاں۔ (24) ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب نے میری توجہ ابن الکواء اور اس کے ساتھیوں کی طرف دلائی اور اس وقت میں باریک قمیض اور جنا پہنے ہوئے تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تو اے ابن عباس اس طرح کے کپڑے پہنتا ہے۔ میں نے کہا سب سے پہلی دلیل جس کے ذریعہ میں تم سے مباحثہ کرسکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” لفظ آیت ” قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ “ (الاعراف آیت 23) (اور فرمایا) لفظ آیت ” خذوا زینتکم عند کل مسجد “ اور رسول اللہ ﷺ عیدین میں یمنی چادر پہنا کرتے تھے۔ (25) ابو داؤد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب حروریۃ (فرقہ کے لوگ) نکلے تو میں علی (رح) کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا اس قوم کے پاس جاؤ تو میں نے یمن کے حلوں میں سے خوبصورت حلہ پہنا اور میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا خوش آمدید اے ابن عباس ؓ یہ حلہ کیسا ہے ؟ میں نے کہا تم مجھ پر تعجب کرتے ہو ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ پر اس سے بھی خوبصورت حلہ دیکھا ہے۔ (26) طبرانی اور بیہقی نے سنن میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اس کو چاہئے کہ اپنے کپڑے پہنے اللہ عزوجل زیادہ حق دار ہیں کہ ان کے لئے لباس پہنا جائے اگر اس کے پاس دو کپڑے نہ ہوں تو اس کو چاہئے کہ چادر باندھ لے جب نماز پڑھے اور تم میں سے کوئی اپنی نماز میں یہودیوں کی طرح پوری طرح چادر میں نہ لپٹ جائے۔ (27) شافعی، احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اور کپڑے کا کوئی حصہ اس کے کندھوں پر نہ ہو۔ (28) ابو داؤد اور بیہقی نے بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لحاف (یعنی بستر کی چادر) میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا جیسے وہ پہنے ہوئے نہ وہ۔ اور آدمی کو شلوار میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا کہ اس پر چادر نہ ہو۔ (29) ابن ماجہ نے ابو الدرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خوبصورت ترین لباس جسے پہن کر تم اپنی قبروں میں اور اپنی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو وہ سفید لباس ہے۔ (30) ابو داؤد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے (اور ترمذی نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سفید کپڑے پہنو اس لئے کہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اس میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ (31) ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے (ترمذی نے صحیح بھی کہا) سمرۃ بن جندب ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا سفید کپڑے پہنو کیونکہ زیادہ پاکیزہ اور زیادہ اچھے ہیں اور اس میں مردوں کو کفن دو ۔ (32) ابو داؤد نے ابو الاحوص (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گھٹیا کپڑوں میں آیا آپ نے پوچھا کیا تیرے پاس مال ہے ؟ عرض کیا جی آپ نے پھر پوچھا کون سا مال ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اونٹ بکریاں گھوڑے اور غلام دئیے ہیں آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تجھ کو مال دیا ہے تو پھر تجھ پر اللہ کی نعمت کا اثر دکھائی دینا چاہئے۔ (33) ترمذی نے (اور آپ نے اس کو حسن بھی کہا) عمرو بن شعب (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ اپنے بندے پر اس کی نعمت کے اثر کو دیکھیں۔ (34) امام احمد اور مسلم نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص آگ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! مجھ کو پسند ہے کہ میرے کپڑے دھلے ہوئے ہوں میرے سر کا تیل لگا ہوا ہو میری جوتی کے تسمے نئے ہوں اور کئی چیزوں کا ذکر کیا گیا یہاں تک کہ اس نے اپنے کوڑے کی محبت اور تعلق کا بھی ذکر کیا تو کیا یہ چیزیں تکبر میں سے ہیں یا رسول اللہ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہ خوبصورتی ہے اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں لیکن تکبر یہ ہے کہ حق سے جاہل ہونا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ (35) امام ابن سعد نے جند بن مکیث ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی وفد کے پاس تشریف لائے تو اپنے سب سے اچھے کپڑے پہنتے تھے اور اپنے اصحاب کو اس کا حکم فرماتے تھے۔ (36) امام احمد نے سہل بن حنظلہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ نے فرمایا تم اپنے بھائیوں کے پاس پہنچنے والے ہو۔ اپنے پالانوں کی اور اپنے لباس کی اصلاح کرلو۔ یہاں تک کہ لوگوں میں اس طرح ہوجاؤ گویا کہ تم ہی سردار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہیں پسند فرماتے بدزبانی کو اور بہ تکلیف بد زبانی کو اما قولہ تعالیٰ : ” وکلوا وشربوا “: لآیہ (37) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے اور پینے کو حلال فرمایا ہے جب تک اسراف اور کبرو خود پسندی نہ ہو۔ (38) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے اور پینے کو حلال فرمایا جب تک اسراف اور کبرو خود پسندی نہ ہو۔ (39) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے اور پینے کو حلال فرمایا ہے جب تک اسراف اور کبرو خود پسندی نہ ہو۔ (40) امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” ولا تسرفوا “ سے مراد ہے کہ (اسراف نہ کرو) کپڑے میں کھانے میں اور پینے میں۔ (41) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ ” ولا تسرفوا “ سے مراد ہے کہ حرام نہ کھاؤ یہ اسراف ہے۔ تکبر اور اسراق سے پرہیز کرو (42) امام عبد بن حمید، نسائی، ابن ماجہ، مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا کہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور تکبر کے علاوہ کپڑا پہنو اور اسراف نہ کرو۔ بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ وہ اپنے بندے میں اپنی نعمت کے اثر کو دیکھیں۔ (43) امام بیہقی نے (اور آپ نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے) عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو نبی ﷺ نے دیکھا کہ میں نے دن میں دو مرتبہ کھایا ہے۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تو اس بات کو پسند کرتی ہے کہ پیٹ کی خواہش کی تکمیل کے سوا تیری کوئی مصروفیت نہ ہو۔ (یعنی تو سارا دن کھانے ہی میں مشغول رہے) خبردار ! دن میں دو مرتبہ کھانا اسراف میں سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ (44) امام ابن ماجہ، ابن مردویہ اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ تو ہر وہ چیز کھائے جس کو تیرا دل چاہے۔ (45) امام احمد نے زہد میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر (رح) کے پاس آئے اچانک ان کے پاس گوشت تھا۔ انہوں نے فرمایا یہ گوشت کیا ہے ؟ عرض کیا میں اس کی خواہش رکھتا ہوں فرمایا جب بھی تو خواہش کرے کسی چیز کو تو اسے کھائے گا۔ آدمی کے اسراف کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کھائے جب بھی اس کی خواہش ہو۔ (46) امام ابن شیبہ اور عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کھا جب تو چاہے اور پہن جب تو چاہے مگر دو چیزیں تجھ کو گمراہ کردیں گی۔ اسراف اور کبر و خود پسندی۔ (47) امام ابو الشیخ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ انسان ایسا لباس پہنے اور ایسی چیز کھائے اور پیئے جس کی اس میں طاقت نہ ہو۔ (48) امام ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا مال میں اسراف کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو حلال مال عطا فرمائے اور تو اس کو حرام میں خرچ کرے جو تجھ پر اس کو حرام کردیا گیا۔ (49) امام ابن ماجد نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ وہ زیادہ کھانے کو ناپسند کرتے تھے کہ (آدمی) اس کو کھاتا ہے پھر فرمایا میرے لئے کافی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دنیا میں لوگوں میں سے جو آدمی زیادہ سیر ہو کر کھائے گا۔ قیامت کے دن وہ اتنا زیادہ بھوکا ہوگا۔ (50) امام ترمذی اور ابن ماجہ نے (اور امام ترمذی نے اس کو حسن بھی کہا ہے) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے پاس ڈکار لیا آپ نے فرمایا ہم سے ڈکار کو روک لے کیونکہ تم میں سے لمبی بھوک والے قیامت کے دن وہ لوگ ہوں گے جو اکثر دنیا کے گھر میں پیٹ بھرنے والے تھے۔ (51) امام احمد، ترمذی (اور ترمذی نے اس کو حسن بھی کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان، ابن السنی نے الطب میں، حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ، ابو نعیم نے طب میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں مقدام بن معد یکرب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ابن آدم پیٹ سے بڑھ کر کوئی برابر تن نہیں بھرتا ہے۔ ابن آدم کے لئے کافی ہیں اتنے لقمے جو اس کی پیٹھ کو سیدھا کرسکیں اگر لامحالہ کھانا ہی ہو تو ایک تہائی کھانے کے لئے۔ ایک تہائی پینے کے لئے اور ایک تہائی اس کے سانس کے لئے ہو۔ (52) امام ابن السنی اور ابو النعیم نے طب نبوی میں عبد الرحمن بن مرقع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے پیٹ سے بڑھ کر کوئی برتن نہیں پیدا فرمایا جب وہ بھر جائے تو پیٹ سے بڑھ کر برا ہو اور اگر (کھانا) ضروری ہوجائے تو بنا دو ایک تہائی کھانے کے لئے اور ایک تہائی پینے کے لئے اور ایک تہائی ہوا کے لئے۔ (53) امام ابن السماء اور ابو نعیم نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر بیماری کی جڑ بدہضمی ہے۔ (54) امام ابو الشیخ نے ابو سعید خدری ؓ سے بھی اسی طرح روایت ہے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ بچو تم پیٹ بھر کر کھانے اور پینے سے کیونکہ یہ جسم کو خراب کردیتا ہے بیماری کو وارث بنا دیتا ہے۔ نماز سے سست اور غافل کردیتا ہے۔ لہٰذا کھانے پینے میں تم پر میانہ روی لازم ہے۔ کیونکہ وہ جسم کی اصلاح کرنے والی ہے اور اسراف سے دور کرنے والی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ موٹے جسم والے عالم سے بغض رکھتے ہیں آدمی ہرگز ہلاک نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنی شہوت کو اپنے دین پر غالب کر دے۔ (55) امام بیہقی نے شعب الایمان میں ارطاۃ (رح) سے روایت کیا کہ اہل طب میں سے کچھ لوگ جمع ہوئے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ان سے پوچھا کی معدہ کی اصل دوا کیا ہے ہر آدمی نے اس میں سے (اپنی) بات کہی ان میں ایک آدمی خاموش رہا جب یہ لوگ فارغ ہوگئے تو بادشاہ نے اس سے کہا تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ان لوگوں نے (کئی) چیزوں کو ذکر کیا۔ یہ سب چیزیں کچھ نہ کچھ فائدہ دیتی ہیں۔ لیکن ان کی بنیاد تین چیزیں ہیں۔ کھانا نہ کھاؤ مگر جب کھانے کی شدید طلب ہو اور گوشت نہ کھاؤ جو تیرے لئے پکا یا گیا ہو یہاں تک کہ اچھی طرح اس کو پکا دیا جائے۔ اور لقمہ کو کبھی نہ نگلو یہاں تک کہ خوب زیادہ اس کو چبا لوتو ان صورتوں میں معدہ پر کوئی بوجھ نہ ہوگا۔ (56) امام بیہقی نے ابراہیم بن علی موصلی (رح) سے روایت کیا کہ سارے کلام سے چار ہزار کلمات بیان کئے گئے۔ پھر اس میں سے چار سو کلمے نکالے گئے پھر ان میں سے چالیس کلمے نکالے۔ پھر ان میں سے چار کلمے نکالے گئے اس کا پہلا یہ ہے کہ ہرگز نہ بھرسہ کرنا عورتوں پر۔ دوسرا اپنے معدہ میں وہ چیز نہ ڈالی جائے جسے ہضم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ تیسرا مال تجھ کو ہرگز دھوکہ نہ دے چوتھا وہ علم تجھ کو کافی ہوگا جس سے تو نفع اٹھائے۔ (57) امام ابو محمد الحلال نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور مجھے تکلیف تھی۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ لازم پکڑ و دوا کو اور معدہ بیماریوں کا گھر ہے۔ بدن کو وہ چیز دو جس کا وہ عادی ہو۔ (58) امام بیہقی نے ابن محب (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معدہ جسم کا حوض ہے۔ اور رگیں اس میں کھلتی ہیں جو کچھ اس میں وارد ہوتا ہے صحت کے ساتھ تو واپس جائے گا صحت کے ساتھ اور جو کچھ اس میں داخل ہوتا ہے بیماری کے ساتھ تو واقع ہوتا ہے بیماری کے ساتھ۔ (59) امام طبرانی نے الاوسط میں، ابن السنی اور ابو نعیم (دونوں نے طب نبوی میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں اور آپ نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے) ، ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معدہ بدن کا حوض ہے۔ تمام رگیں اس میں داخل ہوتی ہیں۔ جب معدہ صحیح ہوگا تو رگیں ظاہر ہوں گی صحت کے ساتھ اور جب معدہ خراب ہوگا تو رگیں ظاہر ہوں گی بیماری کے ساتھ۔
Top