Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠ ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ
: اے اولادِ قوم
خُذُوْا
: لے لو (اختیار کرلو)
زِيْنَتَكُمْ
: اپنی زینت
عِنْدَ
: قیب (وقت)
كُلِّ مَسْجِدٍ
: ہر مسجد (نماز)
وَّكُلُوْا
: اور کھاؤ
وَاشْرَبُوْا
: اور پیو
وَلَا تُسْرِفُوْا
: اور بےجا خرچ نہ کرو
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
الْمُسْرِفِيْنَ
: فضول خرچ (جمع)
اے بنی آدم ! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔ اور کھاو اور پیو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
آیت نمبر :
31
اس میں سات مسئلے ہیں مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : یبنی ادم یہ خطاب سارے عالم کو ہے، اگرچہ اس سے مقصود عرب کے وہ لوگ ہیں جو ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف کرتے تھے، کیونکہ یہ حکم ہر مسجد میں نماز کے لیے عام ہے، کیونکہ اعتبار عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سبب کا۔ اور بعض علماء نے اس سے طواف مراد ہونے کا انکار کیا ہے، کیونکہ طواف تو صرف اور صرف ایک مسجد میں ہوتا ہے اور وہ جو ہر مسجد کو شامل ہے وہ نماز ہے۔ یہ قول ان کا ہے جن پر مقاصد شریعت مخفی رہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ایک عورت بیت اللہ شریف کا طواف کر رہی تھی اس حال میں کہ وہ برہنہ تن تھی اور کہہ رہی تھی : کون ہے جو مجھے طواف کے کپڑے عاریۃ دے گا ؟ ( کہ) وہ اسے اپنی شرمگاہ پر رکھ لے گی۔ اور کہہ رہی تھی : الیوم یبدو بعضہ اوکلہ وما بدا منہ فلا احلہ (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
77
) تب یہ آیت نازل ہوئی : آیت : خذوا زینتکم عند کل مسجد اور یہ عورت ضباعۃ بنت عامر بن قرط تھی۔ یہ حضرت قاضی عیاض (رح) نے کہا ہے۔ اور صحیح مسلم میں ہشام بن عروہ عن ابیہ کی سند سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : عرب لوگ بیت اللہ شریف کا طواف ننگے بدن کرتے تھے سوائے حمس کے اور حمس سے مراد قریش اور ان کی اولاد ہے، وہ ننگے بدن طواف کرتے رہتے تھے مگر یہ کہ قریش انہیں کپڑے عطا کردیں پس مرد مردوں کو دیتے تھے اور عورتیں عورتوں کو دیتی تھیں۔ اور قریش مزدلفہ سے نہیں نکلتے تھے اور سارے کے سارے لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ اور مسلم کے سوا کسی اور میں ہے : وہ کہتے تھے ہم اہل حرم ہیں، پس عربوں میں سے کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ہمارے کپڑوں کے بغیر طواف کرے اور جب وہ ہماری سر زمین میں داخل ہوجائے تو پھر وہ ہمارے کھانے کے سوا کھانا نہ کھائے، پس عرب میں سے جس کا مکہ مکرمہ میں کوئی دوست نہ ہوتا تو اسے کپڑا عاریۃ دیتا اور نہ کوئی ایسا خوشحال ہوتا جو اسے اس کے عوض اجرت پر رکھ لیتا تو اس کے لیے دو میں سے ایک امر ضروری ہوتا کہ یہ تو وہ ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف کرے یا وہ اپنے کپڑوں میں طواف کرے اور جب وہ اپنے طواف سے فارغ ہو تو اپنے لباس اتار کر پھینک دے اور پھر اسے کوئی بھی مس نہ کرے۔ اور اس کپڑے کو اللقی ( پھینکا ہوا) کہا جاتا تھا۔ عرب کے کسی کہنے والے نے کہا ہے : کفی حزنا کری علیہ کا نہ لقی بین ایدی الطائفین حریم (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
77
) چناچہ وہ اسی جہالت، بدعت اور گمراہی پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ کو مبعوث فرمایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : یبنی ادم خذوا زینتکم، الایہ اور رسول اللہ ﷺ کے منادی نے یہ اعلام کیا : الا لا یطوف بالبیت عریاں ( خبردار ! غور سے سنو ! کوئی بھی ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے) میں ( مفسر) کہتا ہوں : اور جنہوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد نماز ہے اور اس کی زینت جوتا ہے، کیونکہ کرز بن وبرہ نے اسے عطا سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے حدیث روایت کی ہے کہ آپ نے ایک دن فرمایا : خذوا زینۃ الصلوٰۃ ( تم نماز کی زینت کو اخیتار کرو) تو عرض کی گئی : نماز کی زینت کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : البسوا نعالکم فصلوا فیھا ( تم اپنے جوتے پہن لو اور ان میں نماز پڑھو) مسئلہ نمبر
2
۔ یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ ستر عورت واجب ہے جیسے پہلے گزر چکا ہے اور جمہور اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ نماز کے فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ اور ابہری نے کہا ہے : یہ بھی من جملہ ایک فرض ہے اور آدمی پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے اپنی شرمگاہ کو ڈھانپے رکھے چاہے وہ نماز میں ہو یا نہ ہو۔ اور یہی صحیح ہے، کیونکہ حضور ﷺ نے حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کو فرمایا : ” اپنے کپڑے کی طرف لوٹ جا اور اسے لے لو اور تم ننگے بدن نہ چلو “ (صحیح مسلم، کتاب الحیض، جلد
1
، صفحہ
154
) ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور اسماعیل قاضی نے یہ کہا ہے کہ ستر عورت نماز کی سنتوں میں سے ہے اور استدلال اس طرح کیا ہے کہ اگر ستر عورت نماز میں فرض ہوتا تو ننگے آدمی کے لیے نماز پڑھنا جائز نہ ہوتا، کیونکہ ہر وہ سے جو نماز میں فرض ہے اس پر قدرت ہوتے ہوئے اس پر عمل کرنے یا اس کی عدم موجودگی میں اس کے بدل کو لانا واجب ہوتا ہے، یا پھر ساری کی ساری نماز ساقط ہوجائے گی، حالانکہ صورت حال اس طرح نہیں ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : جب ہم نے کہا ہے کہ ستر عورت نماز میں فرض ہے اور امام کا تہبند گر جائے اور اس کی دبر ننگی ہوجائے اور وہ رکوع کی حالت میں ہو اور وہ اپنا سر اٹھائے اور اسے ڈھانپ لے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے، یہ ابن قاسم نے کہا ہے۔ اور سحنون نے کہا ہے : مقتدیوں میں سے جس کی نظر اس پر پڑگئی تو وہ اپنی نماز کا اعادہ کرے۔ اور سحنون سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ (امام) بھی نماز کا اعادہ کرے گا اور مقتدی بھی اعادہ کریں گے، کیونکہ ستر عورت نماز کی شرائط میں سے ایک شرط ہے اور جب شرمگاہ ظاہر ہوجائے تو نماز باطل ہوجائے گی۔ اس کی اصل طہارت ( پاکیزگی) ہے۔ قاضی ابن عربی نے کہا ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
780
) ؟ جنہوں نے کہا ہے کہ ان کی نماز باطل نہ ہوگی تو انہوں نے کسی شرط کو مفقود نہیں پایا۔ اور جنہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ (اس کپڑے کو) اپنی جگہ باندھ لے اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کی نماز باطل ہوگی جس نے اس کی طرف دیکھ لیا تو یہ ایسی غلطی ہے جسے مٹانا واجب ہوتا ہے اور اس میں مشغول ہونا جائز نہیں۔ اور بخاری اور نسائی میں حضرت عمرو بن سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب میرے قوم حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ کر آئی تو انہوں نے بتایا آپ ﷺ نے فرمایا : لیومکم اکثرکم قراۃ للقرآن (سنن نسائی، کتاب القبلہ، جلد،
1
، صفحۃ
125
) ( چاہیے کہ تم میں سے زیادہ قرآن کریم پڑھنے والا تمہاری امامت کرائے) اس نے بیان کیا : پس انہوں نے مجھے بلایا اور مجھے رکوع و سجود کے بارے سکھایا۔ پس میں انہیں نماز پڑھاتا تھا اور مجھ پر پھٹی ہوئی چادر ہوتی تھی۔ اور وہ میرے باپ کو کہتے تھے : کہا تو اپنے بیٹے کی دبر ہم سے ڈھانپ نہیں سکتا۔ یہ الفاظ نسائی کے ہیں۔ اور حضرت سہل بن سعد سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چادریں تنگ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں میں باندھے ہوتے تھے جیسے بچے کرتے ہیں۔ تو کسی کہنے والے نے کہا : اے عورتوں کے گروہ ! تم اپنے سر (سجدوں سے) نہ اٹھاؤ یہاں تک کہ مرد (پہلے) اٹھالیں (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
92
) ۔ اسے بخاری، نسائی اور ابو داؤد نے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ جب کوئی شرمگاہ کو دیکھے تو اس کے بارے ائمہ کے مابین اختلاف ہے۔ پس امام شافعی (رح) نے کہا ہے جب کپڑا تنگ ہو تو وہ اسے بٹن لگا لے یا اسے کسی شے کے ساتھ سی لے تاکہ قمیص دور نہ ہٹے کہ گریبان سے شرمگاہ دکھائی دے، اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اپنی شرمگاہ دیکھ لی وہ اپنی نماز کا اعادہ کرلے۔ اور یہی امام احمد (رح) کا قول ہے۔ امام مالک نے حالت نماز میں قمیص کے بٹنوں کو کھلا رکھنے کی رخصت دی ہے اور وہ شلوار ( پائجامہ) پہنے ہوئے ہو۔ اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ اور ابو ثور رحمہما اللہ تعالیٰ کا بھی قول ہے۔ اور حضرت سالم کھلے بٹنوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ اور داؤد الطائی نے کہا ہے : جب ڈاڑھی بڑی ہو تو اس کے ساتھ کوئی حرج نہیںٰ ہے۔ اور اسی معنی کو اثرم نے امام احمد بن حنبل (رح) سے بیان کیا ہے۔ پس اگر وہ امام ہو تو وہ نماز نہیں پڑھائے گا مگر اپنی چادر اوٹھ کر، کیونکہ یہ زینت میں سے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : زینت میں سے نماز جوتوں میں پڑھنا بھی ہے۔ اسے حضرت انس ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : نماز کی زینت رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : ہر شے کے لیے زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت تکبیر اور فع یدین ہے۔ اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ تم پر وسعت فرمائے تو بھی اپنے آپ کو وسعت دو (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
53
) ، آدمی اپنے اوپر اپنے کپڑے جمع کرے، نماز پڑھے ازار (تہبند) اور ردا ( اوپر چڑھنے والی چادر) میں، ازار اور قمیص میں، ازار اور قبا ( میں) شلوار اور ردا میں، شلوار اور قمیص میں، شلوار اور قبا میں۔ اور میں تو گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے فرمایا : تبان ( اتنا قلیل کپڑا جس سے صرف شرمگاہ ڈھانپی جاسکے) اور قمیص میں، تبان اور ردا میں، اور تبان اور قبا میں۔ بخاری اور دارقطنی نے اسے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وکلواواشربوا ولا تسرفوا حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہر اس شی کا کھاناپینا حلال قرار دیا ہے جب تک وہ فضول خرچی یا تکبر و نخوت ہو (تفسیر ابن عباس، جلد
1
، صفحہ
420
) ۔ اور رہی وہ شی جس کی حاجت اور ضرورت ہوتی ہے وہ ہے جو بھوک کا ازالہ کر دے، پیاس میں سکون عطا کردے، پس اسے عقلا اور شرعا کھانا مستحب ہے، کیونکہ اس میں جان کی حفاظت اور حواس کی نگہداشت ہے، اسی لیے شریعت نے صوم وصال سے منع کیا ہے، کیونکہ وہ جسم کو کمزور کردیتا ہے اور نفس کو مار دیتا ہے اور عبادت سے کمزور کردیتا ہے اور اسی وجہ سے شریعت اس سے منع کرتی ہے اور عقل اس کا دفاع کرتی ہے، اور جس نے حاجت اور ضرورت کی مقدار سے بھی اپنے آپ کو روک کر رکھا تو اس کے لیے نہ کوئی نیکی میں سے حصہ اور نہ ہی زہد میں ہے، کیونکہ عجز اور ضعف کے سبب وہ طاعت و عبادت کے جس عمل سے محروم ہوا ہے وہ اجر وثواب کے اعتبار سے زیادہ اور عظیم ہے۔ اور حاجت و ضرورت کی مقدار سے زائد کے بارے میں دو مختلف قول ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ حرام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مکروہ ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : یہی صحیح ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
781
) ، کیونکہ سیر ہونے کی مقدار شہروں اور زمانوں کے اختلاف کے سبب مختلف ہوتی ہے اور اسی طرح دانت اور اشتہاء طعام بھی اس میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم کھانے میں کثیر فوائد ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں کہ آدمی جسم کے اعتبار سے صحت مند ہوتا ہے، قوت حفظ کے اعتبار سے عمدہ واعلیٰ اور فہم کے اعتبار سے انتہائی ذکی اور ذہین ہوتا ہے، نیند کم ہوتی ہے اور جان ہلکی پھلکی رہتی ہے اور زیادہ کھانے میں معدہ بوجھل اور بدہضمی کی بو ہوتی ہے اور اسی سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کی نسبت زیادہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے جتنی کم کھانے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور بعض حکماء نے کہا ہے : اکبر الدواء تقدیر الغذاء (سب سے بڑھ کر دو اغذا کی ایک مقدار مقرر کرنا ہے) اور حضور نبی مکرم ﷺ نے اس معنی کو انتہائی شافی بیان کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور وہ اطباء کے کلام سے مستغنی کردیتا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ما ملاآدمی دعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم لقیمات یقمن صلبہ فان کان لا محالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لنفسہ (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد
2
، صفحہ
60
) ( انسان ہونے کے اعتبار سے آدمی پیٹ کے برتن کو جس شی سے بھر سکتا ہے وہ چند لقمے ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھتے ہیں اور اگر ضروری بھی ہو تو پھر ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی مشروبات کے لیے اور ایک تہائی اس کے سانس کے لیے ہو) ترمذی نے حضرت مقدام بن معدیکرب کی حدیث سے اسے روایت کیا ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اگر بقراط یہ تقسیم سن لیتا تو بالیقین اسے اس حکمت پر تعجب ہوتا۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ رشید کے پاس ایک عیسائی ماہر حکیم تھا تو اس نے حضرت علی ابن الحسین ؓ کو کہا : تماری کتاب میں علم طب کی کوئی شی نہیں ہے اور علم دو طرح کا ہے : ایک علم الادیان اور ایک علم الابدان۔ تو حضرت علی نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ساری طب کو ہماری کتاب کی نصف آیت میں جمع کردیا ہے۔ تو اس نے پوچھا : وہ کون سی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وکلو واشربوا ولا تسرفوا۔ پھر نصرانی نے کہا : تمہارے رسول ﷺ سے علم طب کی کوئی شی مروی نہیں ہے۔ تو حضرت علی نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے تھوڑے الفاظ میں ساری طب کو جمع کردیا ہے۔ اس نے پوچھا : وہ کہا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : المعدۃ بیت الآدواء والحمیۃ راس کل دواء واعط کل جسد ما عودتہ ( معدہ بیماریوں کا گھر ہے اور پرہیز دوا کی اسل ہے اور تو ہر جسم کو وہ دے جس کا تو نے اسے عادی بنایا ہے) تو نصرانی بولا : ما ترک کتابکم ولانبیکم لجالینوس طبا (تفسیر کشاف، جلد
2
، صفحہ
100
) ( تمہاری کتاب اور تمہارے نبی (علیہ السلام) نے جالینوس کی طب کی کوئی شے چھوڑی نہیں نہیں) میں (مفسر) کہتا ہوں : کہا جاتا ہے بیشک مریض کا علاج دو حصوں میں منقسم ہے : نصف دوا ہے اور نصف پرہیز ہے۔ پس اگر یہ دونوں جمع ہوں تو مریض تندرست اور صحت یاب ہوجائے گا، ورنہ اس میں پرہیز اولیٰ اور بہتر ہے، کیونکہ پرہیز ترک کرنے کے ساتھ دوا فائدہ نہیں دیتی، حالانکہ پرہیز دوا چھوڑ دینے کے باوجود فائدہ دیتی ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اصل کل دواء الحمیۃ ( ہر دوا کی اص پرہیز ہے) اس کا یہ معنی بیان کیا گیا ہے کہ پرہیز ہر دوا سے غنی کردیتا ہے۔ واللہ اعلم اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہند کا بڑا علاج پرہیز ہے، مریض کھانے، پینے کلام سے چند دن تک پرہیز کرتا ہے تو وہ تندرست اور صحت یاب ہوجاتا ہے۔ مسئلہ نمبر
5
، مسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے “ (صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، جلد
2
، صفحہ
186
) ۔ اور یہ آپ ﷺ کی جانب سے دنیا میں سے انتہائی قلیل حاصل کرنے اور اس میں انتہائی زید و قناعت اختیار کرنے پر برانگیختہ کرتا ہے اور عرب کم کھانے کے سبب مدح و تعریف کرتے ہیں اور زیادہ کھانے کے سبب مذمت کرتے ہیں، جیسا کہ ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا ہے : تکفیہ فلذۃ کبد ان الم بھا من الشواء ویروی شربہ الغمر اسے جگر کا ایک ٹکڑا کافی ہوتا ہے اگر وہ روسٹ شدہ میں سے اس پر اصرار کرے اور ایک چھوٹا سا پیالہ اس کی پیاس کو بجھا دیتا ہے۔ اور ام زرع نے ابی زرع کے بارے کہا ہے : بھیڑ کے چار ماہ کے بچے کے بازو اسے سیر کرتے ہیں۔ اور حاتم طائی نے زیادہ کھانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے : فانک ان اعطیت بطنک سؤلہ وفرجک نالا منتھی الذم اجمعا اگر تو پیٹ اور فرج کو اس کی خواہش کے مطابق دیتا رہے گا تو وہ دونوں مذمت کی انتہا کو پالیں گے۔ اور علام خطابی (رح) نے کہا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے ارشاد : المومن یا کل فی معی وحد (صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، جلد
2
، صفحہ
186
) کا معنی یہ ہے کہ پیٹ بھرنے سے کم کھاتا ہے اور وہ اپنے نفس پر دوسرے کو ترجیح دیتا ہے اور وہ اپنے کھانے میں دوسرے کے لیے باقی رکھتا ہے۔ اور جو کچھ وہ کھالے اسی پر وہ قناعت کرلیتا ہے۔ پہلی تاویل اولیٰ اور بہتر ہے۔ واللہ اعلم اور حضور ﷺ کے ارشاد : والکافر یا کل فی سبعۃ امعاء ( صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، جلد
2
، صفحہ
186
) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عموم پر نہیں ہے، کیونکہ مشاہدہ اس کی تائید نہیں کرتا، کیونکہ کبھی مومن کی نسبت کافر کم کھانے والاپایا جاتا ہے اور کبھی کافر اسلام قبول کرتا ہے لیکن اس کا کھانا کم وبیش نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا اشارہ ایک معین ( فرد) کی طرف ہے۔ ایک کافرحضور نبی مکرم ﷺ کے پاس مہمان ٹھہرا، کہا جاتا ہے کہ وہ جہجاہ غفاری تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمامہ بن اثال تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ نضلہ بن عمرو غفاری تھا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ بصرہ بن ابی بصرہ غفاری تھا۔ اس نے سات بکریوں کا دودھ پی لیا، پھر صبح کے وقت اس نے اسلام قبول کرلیا تو پھر اس نے ایک بکری کا دودھ پیا اور اسے بھی مکمل طور پر نہ پی سکا۔ تو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا (جامع ترمذی، باب ما جاء ان المومن یا کل فی معی واحد، حدیث نمبر
1741
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) گویا کہ آپ نے اس طرح فرمایا : ھذا الکافر ( یہ کافر) واللہ اعلم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دل جب نور توحید کے ساتھ منور ہوجاتا ہے تو وہ طاعت و عبادت کے لیے تقوی کی آنکھ سے کھانے کی طرف دیکھتا ہے اور اس سے بقدر حاجت لے لیتا ہے اور جب وہ کفر کے ساتھ تاریک تھا اس کا کھانا ایسا تھا جیسے چوپایہ چرتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے پتلا پاخانہ کردیتا ہے۔ اور ان آنتوں میں اختلاف ہے، کیا یہ حقیقی مراد ہیں یا نہیں ؟ تو کہا گیا ہے کہ مراد حقیقی انتڑیاں ہیں اور طب و تشریح کے علماء کے نزدیک ان کے معروف نام ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ان سات اسباب میں سے کنایہ ہیں جن کے ساتھ پیٹو کھاتا ہے : وہ حاجت اور ضرورت کے لیے، کوئی خبر سننے کے لیے، چکھنے کے لیے، سونگھنے کے لیے، دیکھنے کے لیے، مس کرنے کے لیے کھاتا ہے اور فوائد و منافع میں اضافہ کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے کہ وہ اس کے کھانے کی مثل کھاتا ہے جس کی سات انتڑیاں ہوں۔ اور مومن اپنے کم کھانے کے سبب اس کی مثل کھانا کھاتا ہے جس کی صرف ایک آنت ہوتی ہے، پس وہ کافر کے ساتھ اس کے کھانے کے اجزاء میں ایک جز کے ساتھ شریک ہوتا ہے اور کافر اس پر سات گناہ زیادہ ہوتا ہے۔ اور معی کا لفظ اس حدیث میں معدہ کے معنی میں ہے۔ مسئلہ نمبر
6
۔ ج ب یہ پختہ ہوگیا تو پھر جان لے کہ آدمی کے لیے کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھوں کو دھونا مستحب ہے، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : الوضوء قبل الطعام وبعدہ برکۃ ( سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، جلد
2
، صفحہ
172
) ( کھانے سے پہلے اور بعد وضو کرنا ( ہاتھ دھونا) باعث برکت ہے) اور اسی طرح تورات میں ہے۔ اسے زاذان نے سلمان سے روایت کی ا ہے۔ اور امام مالک پاک صاف ہاتھوں کو دھونا مکروہ قرار دیتے ہیں، لیکن حدیث طیبہ کی اقتداوپیروری کرنا اولیٰ اور بہتر ہے۔ اور کوئی ( آدمی) کھانا نہ کھائے یہاں تک کہ یہ جان لے کہ آۃ یا وہ گرم ہے یا ٹھنڈا ؟ کیونکہ اگر وہ گرم ہوگو تو اسے تکلیف اور اذیت ہوگی۔ اور رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ابردوا بالطعام فان الحار غیر ذی برکۃ (کنز العمال، جلد
15
، صفحہ
249
، حدیث نمبر
40802
) ( کھانے کو ٹھنڈا کرلو کیونکہ گرم کھانا برکت والا نہیں ہوتا) یہ حدیث صحیح ہے۔ اور سورة البقرہ میں پہلے گزر چکی ہے۔ اور کھانے کو سونگھے نہیں کیونکہ یہ چوپاؤں کا عمل ہے، بلکہ اگر اسے پسند ہو تو اسے کھالے اور اگر پسند نہ ہو تو اسے چھوڑ دے۔ اور لقمہ چھوٹا بنائے اور اسے زیادہ دیر تک چبائے تاکہ پیٹو اور حریص شمار نہ ہو۔ اور شروع میں بسم اللہ شریف پڑھے اور آخر میں الحمد کہے۔ اور یہ مناسب نہیں کہ وہ الحمد للہ کے ساتھ اپنی آواز بلند کرے مگر اس صورت میں کہ اس کے ساتھ کھانے میں شریک تمام ساتھی کھانے سے فارغ ہوجائیں، کیونکہ آواز بلند کرنے میں انہیں کھانے سے روکنے کی طرف اشارہ ہے۔ کھانے کے آداب بہت زیادہ ہیں، یہ تمام انہیں میں سے ہیں۔ اور ان میں سے بعض سورة ہود میں آئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور پینے کے بھی معروف آداب ہیں۔ ان کے مشہور ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کا ذکر چھوڑ دیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اذا اکل احدکم فلیاکل بیمینہ واذا شرب فلیشرب بیمینہ فان الشیطان یا کل بشمالہ ویشرب بشمالہ (صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، جلد
2
، صفحہ
172
) ( جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اسے دائیں ہاتھ سے کھانا چائیے اور جب کوئی مشروب پیے تو اسے دائیں ہاتھ سے پینا چاہیے، کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے) مسئلہ نمبر
7
، قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تسرفوا یعنی کھانے کی کثرت میں ( تم فضول خرچی نہ کرو) اور اس میں سے کثرت شرب بھی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ ( زیادہ کھانا یا پینا) معدے کو بوجھل کردیتا ہے اور یہ آدمی کو اپنے مالک کی خدمت سے روک لیتا ہے اور خیر اور نیکی کے اضافی کاموں میں حصہ لیے سے روک دیتا ہے۔ اور اگر اس نے اس حد سے انتہائی تجاوز کرلیا کہ فرض قیام سے اس نے روک دیا تو یہ اس پر حرام ہوجائے گا، حالانکہ اس نے اپنے کھانے اور پینے میں اسراف اور زیادتی کی ہے۔ اس بن موسیٰ نے عون بن ابی جحیفہ عن ابیہ کی حدیث روایت کی ہے اس نے بیان کیا : میں نے موٹے گوشت کے ساتھ ثرید بنا کر کھایا، پھر میں حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں ( معدہ بھر جانے کے سبب) ڈکار لے رہا تھا، تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا ” ابا جحیفہ ! اپنے ڈکار روک لے، کیونکہ دنیا میں اکثر لوگ پیٹ بھرے ہوتے ہیں قیامت کے دن ان کی بھوک طویل ہوجائے گی “ (کنز العمال، جلد
3
، صفحہ
217
، حدیث نمبر
6220
) ۔ پس اس کے بعد ابو جحیفہ نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا یہاں تک کہ دنیا سے وصال فرمائے گئے، وہ جب صبح کا کھانا کھالیتے تھے تو شام کا نہ کھاتے تھے اور جب کہیں شام کا کھاتے تو پھر صبح کا کھانا نہ کھاتے تھے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد : المومن یا کل فی معی واحد (صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، جلد
2
، صفحہ
186
) کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے یعنی ایمان تام، کیونکہ آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے ایمان کا کمال یہ ہے کہ ابو جحیفہ کی طرح ایسے امور میں فکر کرتا ہے جو اسے موت اور اس کے بعد پیش آئیں گے اور ان اہوال میں سے خوف اور ڈر سے اپنی شہوت کو پورا کرنے سے مانع ہوتے ہیں۔ ( واللہ اعلم) اور ابن زید نے کہا ہے : آیت : ولا تسرفوا کا معنی ہے : تم حرام نہ کھاؤ (تفسیر ماوردی، جلد
2
، صفحہ
218
) ۔ اوعر یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ السرف سے ماخوذ ہے ( اس کا معنی ہے) کہ تو ہر وہ شی کھائے جس کی تجھ میں طلب اور چاہت پیدا ہو (سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، جلد
1
، صفحہ
248
) ۔ اسے انس بن مالک ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، اسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اسراف سے ماخوذ ہے ( اس کا معنی ہے) پیٹ بھرنے کے بعد مزید کھانا۔ اور یہ سب ممنوع ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا : اے بیٹے ! (ایک بار) پیٹ بھرنے کے اوپر مزید پیٹ بھر کر نہ کھاج، کیونکہ تیرا اسے کتے کے لیے ڈال دینا اس میں سے بہتر ہے کہ تو اسے کھائے۔ اور حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا : اس نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا : اسے گزشتہ رات بدہضمی ہوگئی۔ آپ نے کہا : اسے بدہضمی ہوئی ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ آپ نے فرمایا : بلاشبہ اگر وہ مر جاتا تو میں اس پر نماز نہ پڑھتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرب لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنے ایام حج میں چکنائی نہ کھاتے تھے اور کھانے کی قلیل مقدار پر اکتفا کرتے تھے اور ننگے بدن طواف کرتے تھے۔ تو ان کو فرمایا گیا : آیت : خذوا زینتکم عند کل مسجد و کلوا واشربوا ولا تسرفوا یعنی تم اس شے کو حرام کرنے میں زیادتی اور اسراف نہ کرو جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام نہیں کیا۔
Top